"FBC" (space) message & send to 7575

آج کے بھتوٹ

فلپ میڈوٹیلر1808ء میں لیورپول انگلینڈ میںپیدا ہوا تھا۔سولہ سال کا ہی ہوا تھا کہ کسی تاجر کے ساتھ ہندوستان آگیا۔بعد میں پیش آنے والے حالات کے باعث اُس نے نظام دکن کی فوج میں بطور لیفٹیننٹ شمولیت اختیار کرلی۔ہندی اور فارسی میں مہارت حاصل کر لی‘ تو اُسے دکن کے جنوب مغربی اضلاع کا سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تعینات کردیا گیا۔یہیں پر اُسے ٹھگوں کے خلاف کام کرنے کا موقع ملا۔اسی دوران پولیس ٹھگوں کے ایک سردار امیر علی کو اپنے ہی ساتھیوں کی غداری کے باعث گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اپنی گرفتاری کے بعد سلطانی گواہ بنائے جانے کا وعدہ لے کر اُس نے اپنے ہی بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کرا دیا‘پھر اسی کے بیانات کو یکجا کرکے فلپ میڈوزٹیلر نے 1839ء میں ''کنفیشنزآف اے ٹھگ ‘‘ لکھ ڈالی۔کتاب نے منظر عام پر آتے ہی فروخت کے ریکارڈ قائم کردئیے ؛حتیٰ کہ ملکہ برطانیہ نے بھی اِس میں خصوصی دلچسپی ظاہر کی۔ ایس پی فلپ میڈوز ٹیلر کی لکھی یہ کتاب اُس دور کے ایک خوفناک باب کو سامنے لاتی ہے۔یہ داستان ہے‘1810ء سے 1840ء تک ‘‘ تیس سال پر محیط ایک ایسے دورکی جب پورے برصغیر میں اُدھم مچا ہوا تھا‘ لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہوکیا رہا ہے۔لوگ قافلوں میں جاتے جاتے غائب ہوجاتے تھے۔ درجنوں اور سینکڑوں کی نہیں‘ ہزاروں کی تعداد میں لوگ غائب ہونے لگے‘ تو انگریز سرکار کو معاملات سامنے لانے کے لیے ایک خصوصی محکمہ قائم کرنا پڑا۔کیپٹن رینالڈز کی قیادت میں اس خصوصی محکمے نے اپنا کام شروع کیا تو ہوشربا انکشافات سامنے آنے لگے۔معلوم ہوا کہ یہ ٹھگ ہیں‘جو پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں ۔طریقہ واردات کچھ اس طرح کا ہوتا کہ ٹھگ مسافروں کا روپ دھار کر قافلوں میں شامل ہوجاتے‘ شکار کو تاکتے اور پھر اُسے نشانہ بنانے کے لیے اپنی کارروائی کا آغاز کردیتے۔ٹھگوں کے کام بٹے ہوتے تھے۔سب سے آگے چلنے والے ایک مخصوص مقام پر شکار کے لیے قبر تیار رکھتے تھے۔درمیان والے لوگ سب سے پہلے اور سب سے پیچھے والوں کے درمیان کڑی کا کام کرتے اور سب سے پیچھے چلنے والے موقع پا کر شکار کو گھیرے میں لے لیتے۔ اُس بیچارے کو کانوں کان خبر نہیںہوپاتی تھی کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘ بس رومال میں سکہ باندھ کر بنائی گئی گانٹھ شکار کے گلے کے گرد لپٹ جاتی اور دوسے تین منٹ کے دوران وہ اگلے جہان پہنچ جاتا۔اس کے بعد لاشوں سے ملنے والا قیمتی سامان قبضے میں لے لیا جاتا‘ لاشوں کو پہلے سے کھدی قبروں میں اس ترتیب سے ڈالا جاتا کہ کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ لاشیں سما سکیں۔آخر میں کھدی ہوئی جگہ کو پر کرکے اوپر جھاڑیاں وغیرہ لگا دی جاتیں اور تمام ٹھگ اپنی اپنی راہ لیتے۔
فلپ کے کتاب لکھنے کی بڑی وجہ یہی بنی تھی کہ اُسے اس گرفتار ہونے والے ٹھگ سردارکا انٹرویو کرنے کا موقع مل گیا تھا۔صرف اِس ایک شخص نے گرفتار ہونے سے پہلے 719افراد کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا۔اُس کے ہاتھوں چاہے‘ غلطی سے ہی سہی‘ اُس کی اپنی سگی بہن بھی ماری گئی تھی۔ اُسے افسوس اس بات کا تھا کہ اگر وہ گرفتار نہ ہوتا‘ تو 1000کا ہندسہ پار کرلیتا۔ اس شخص سے ٹھگوں کے کام کرنے کی تفصیلات زیادہ واضح طور پر سامنے آئیں۔معلوم پڑا کہ ٹھگوںکے کام بٹے ہوتے تھے ۔شکار کو تاڑنے اور اُن کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرنے والے ٹھگوں کو سوٹھا کہا جاتا تھا۔یہ گروہ کے سب سے سیانے لوگ گردانے جاتے تھے‘ کیوں کہ انہیں شکار کو اپنے جال میں اُتارنے کا فن آتا تھا۔شکل وصورت سے معزز دکھائی دینے والے یہ لوگ نہ صرف شکار کو تاکنے کے فن میں ماہر ہوتے تھے‘ بلکہ اُنہیں دیکھ کر ہی اُن کی مالی حیثیت کا بھی بڑی حد تک درست اندازہ لگانے کا ہنر جانتے تھے۔ٹھگوںکی تمام کارروائیوں کا انحصار اسی گروپ کی معلومات پر ہوتا تھا۔ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر شکار کو اگلے جہاں پہنچانے والے ٹھگ ‘ بھتوٹ کہلاتے تھے۔ان کی جرأت کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ بھی ان کے ہاتھوں مارے گئے۔ٹھگوں میں ہندواور مسلمان دونوں ہی شامل تھے‘ جو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اچھے برے شگون دیکھ کر اپنی حکمت عملی مرتب کرتے تھے۔تعداد اتنی زیادہ تھی کہ انگریزوں کے لیے ٹھگوںکی پہچان کرنا مشکل ہوگیا۔ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے ٹھگوں کے اسرارورموز تب کھلنے لگے‘ جب خصوصی محکمے نے بڑے پیمانے پر اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ٹھگ پکڑے جانے لگے تو ان کی نشاندھی پر اجتماعی قبریں بھی سامنے آنے لگیں۔خصوصی محکمے کے اعلیٰ ترین افسر میجر جنرل ولیم ہنری نے ایک جگہ لکھا ''ہمیں اجتماعی قبریں اور اُن میں دبائی گئی لاشیں اتنی زیادہ تعداد میں ملنا شروع ہوگئیں کہ پریشان ہوکر ہم نے کھدائی کرنا ہی بند کردی‘ لیکن بالآخر ہم اِن ٹھگوں کی کمر توڑنے میں کامیاب ہوگئے‘‘۔یہ کارنامہ انجام دینے پر ہنری کو سر کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔کرنل سیلیمن بھی ایک علاقے میں ٹھگوں کے خلاف مہم کا انچارج تھا۔یہ شخص ٹھگوں کی کارروائیوں سے اس حد تک خوفزدہ ہوگیا کہ کئی روز تک بیمار رہا۔کہتا ہے کہ ''میں1824میں نرسنگپور کے علاقے میں تعینات تھا‘میرے علاقے سے اتنی تعداد میں قبریں اور ان قبروں میں دبائی گئی لاشیں برآمد ہوئیں کہ میری برداشت کی حد ختم ہوگئی اور میں بستر سے جا لگا‘طویل بیماری کاٹنے کے بعد کہیں صحت یاب ہوپایا‘‘۔
ٹھگوں کو ختم کرنا بلاشبہ ایک کارنامہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے‘ لیکن ٹھگی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہی رہی ‘بلکہ اگر ہم اپنے ملک کے حالات کا جائزہ لیں ‘تو یہ کچھ زیادہ ہی زوروشور سے جاری ہے‘ صرف طریقے بدل گئے ہیں۔آج کے دور میں بھی ٹھگ ‘ پرانے دور کے ٹھگوں کی طرح ہی عزت دار ہونے کا روپ دھارتے ہیں۔بینکوں سے قرضے لیتے ہیں اور پھر خود کو دیوالیہ قرار دلوانے کے بعد رقم شیرمادر کی طرح ہڑپ کرجاتے ہیں۔تب ٹھگ براہ راست لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا کرتے تھے‘ آج کے بھتوٹ بالواسطہ طور پر لوگوں کوسسک سسک پر مرنے کے لیے مجبور کردیتے ہیں۔ایک ایسی لوٹ مار مچی ہوئی ہے کہ خدا کی پناہ۔جب گھر کے درودیوار سے ناجائزذرائع سے چھپائے گئے نوٹوں کی برسات ہوگی تو یقینا کسی کا حق ہی مارا گیا ہوگا۔جب فالودے اور ویلڈنگ والوں کے اکاونٹس سے کروڑوں روپے ملیں گے‘ تو بلاشبہ کسی نہ کسی کا پیٹ کاٹ کر ہی انہیں جمع کیا گیا ہوگا۔عالم یہ ہے کہ آئے روز بے نامی اکاونٹس سے کروڑوں روپے مل رہے ہیںاور کوئی والی وارث نہیں مل رہا۔چار سو روپے دیہاڑی لگانے والے کو نوے نوے گاڑیاں رجسٹر کرانے پر تیس تیس لاکھ روپے ٹیکس ادا کرنے کے نوٹس مل رہے ہیں۔لوٹ مار بھی کی جاتی ہے اور پھر اپنے کروفر سے دوسروں کو ڈرانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ پارسائی کے دعوے بھی کیے جاتے ہیں ‘لیکن منی ٹریل بھی ثابت نہیں ہوپاتی۔معاملہ صرف یکطرفہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ آگ تو ہرطرف ہی لگی ہوئی ہے۔کسی محکمے میں چلے جائیں تو وہاں بھی بیشتر صورتوں میں بھتوٹوں سے ہی واسطہ پڑتا ہے۔خصوصاً زمینوں کے معاملات سے متعلقہ محکموں کی صورت حال دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایل ڈی اے کا چکر لگا لیں یا سی ڈی اے کا وزٹ کرلیں‘سائلین کو رلتے دیکھ کر انسان اپنی تکلیفیں بھول جاتا ہے۔اب تو یہ دعا بھی کی جاتی ہے کہ یااللہ ‘ہسپتال اور کچہری کے ساتھ ساتھ کسی بھی سرکاری ادارے سے ہمیں بچانا۔یااللہ ان سے کبھی واسطہ نہ پڑے!۔
تجاوزات کے خلاف آپریشن کی مثال ہی لے لیں۔تجاوزات کا خاتمہ بلاشبہ احسن عمل ہی قرار دیا جائے گا‘ لیکن کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ تجاوزات قائم کیسے ہوگئیں؟جب یہ قائم ہورہی تھیں تو متعلقہ محکمے سو رہے تھے؟جب بھی ایسے آپریشن ہوتے ہیں تو ایک فریق تو سزا دے دی جاتی ہے اور دوسرے فریق کا بال بھی بانکا نہیں ہوپاتا۔آپ کسی دن اپنے گھر کے واش روم کی مرمت کے لیے گھر کے اندر چار اینٹیں اُکھاڑ لیں‘شام تک بلدیہ کے بھتوٹ باز پرس کے لیے پہنچ جائیں گے‘ سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ نے نقشہ پاس کرایا ہے ‘ جواب نفی میں ملنے پر کام بند کرنے کی وارننگ اور پھر جیب میں حسب منشا رقم کے جاتے ہی کچھ بھی کرنے کی کھلی چھٹی مل جائے گی۔صرف لاہور کی مثال ہی لے لیں‘ جہاں ایل ڈی اے اورمیٹروپولیٹن کارپوریشن ‘اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ غیرقانونی تعمیرات نہ ہونے پائیں۔اندرون لاہو ر کی حد تک والڈ سٹی لاہور اتھارٹی کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی ہے‘ لیکن عالم یہ ہے کہ شہر میں جاری تعمیرات میں سے کم از کم 63فیصد تعمیرات قوانین کو بالائے طاق رکھ کر مکمل کی جارہی ہیں۔یہی عالم پہلے سے مکمل ہونے والی تعمیرات کا ہے۔ تجاوزات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔انہیں قائم کرانے کے لیے سب سے اہم ‘لیکن منفی کردار سرکاری اداروں کے اہلکاروں کا ہی ہوتا ہے۔ بھتوٹ تو اپنی نذرانہ لے کر نکل جاتے ہیںاور ''گناہ گار‘‘پھنس جاتے ہیں۔خواہش اور دعا ہی ہے کہ کاش کبھی ہمیں ان بھتوٹوں سے نجات مل سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں