"FBC" (space) message & send to 7575

انجانے اندیشے

ایک غلغلہ مچا ہوا ہے۔ گویا ملک نئے سرے سے آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوا ہو۔دنیا اتھل پتھل ہوئی جاتی ہے‘ لیکن کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا ‘جسے پکڑ کر گتھی سلجھائی جاسکے۔اب تو کم از کم چھ ماہ کے لیے اچھی اچھی باتیں کرنے کا بھی کہہ دیا گیا ہے تو ڈر لگتا ہے ‘کہیں کوئی گستاخی نہ ہوجائے۔اب یہ الگ بات کہ شترمرغ کی طرح ریت میں سردبانے کا یارا بھی نہیں ہے۔روز کے روز ‘ روزانہ کی بنیاد پر بہت کچھ ایسا سامنے آرہا ہے کہ توقعات زمیں بوس ہورہی ہیں۔صرف یہ کہہ دینا کہ ان تمام ترحالات کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہے‘ہرچند کافی نہیں‘ کیونکہ یہ راگ تو ہر آنے والی حکومت ہی آلاپتی ہے‘ جس کے بل پر ایک ڈیڑھ سال تو آرام سے گزار لیا جاتا ہے۔وہ باتیں بھی یاد آتی ہیں‘ جو برسراقتدار آنے سے پہلے اس تسلسل سے دہرائی گئیں‘ گویا یقین واثق ہوچلا تھا کہ بس اب سب کچھ ٹھیک ہوا ہی چاہتا ہے۔اب تو پہلے سودنوں کی کارکردگی کا بھی بغور جائزہ لیا جاچکا اور معاملات آگے تو کیا بڑھتے‘پہلے سے بھی خراب نظرآتے ہیں۔ایک تاثر اُبھرتا چلا جارہا ہے کہ شاید کرپشن کے نام پر مخصوص جماعتوں اور افراد کو تختہ ستم بنایا جارہا ہے۔اس کے باعث بہت سے سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ہاں منفی باتوں کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ایک سیدھی سادی بات کو جب تک نمک ‘مرچ لگا کر پیش نہ کیا جائے‘ تب تک کوئی بھی اسے اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اسی مرچ مصالحے میں بہت سی حقیقتیں دُور کہیں گرد میں جا چھپتی ہیں۔بیشتر صورتوںمیں سچ بیان کیا جاتا ہے ‘نہ اُسے سننے کے لیے کوئی تیار ہوتا ہے۔ہوسکتا ہے جو بھی ہورہا ہے‘ ٹھیک ہی ہورہا ہو‘ لیکن اس ٹھیک کے بارے میں اگر غلط تاثر پیدا ہورہا ہے‘ تو اس صورت حال میں بہتری آنی چاہیے۔ایسا کرنا کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ کم از کم یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتی جائے اور ایسے وعدوں اور دعوؤں سے گریز کیا جائے‘ جن کی تکمیل عملًا ممکن نہ ہو۔آپ دیکھئے کہ صورت حال زیادہ خراب بھی ‘اسی لیے محسوس ہورہی ہے کہ اُس کا عشرعشیر بھی سامنے نہیں آسکا‘ جس کے دعوے انتخابات سے پہلے کئے گئے تھے۔ہنوز دلی دوراست والا معاملہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔
برسراقتدار آنے کے بعد 100دنوں کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا‘ لیکن اس کے اندر سے بھی کچھ برآمد نہیں ہوسکا۔ سوائے‘ اس دعوے کے ان سو دنوں میں سمت کا تعین کرلیا گیا ہے۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ سو دنوں کا آئیڈیا شاید 1933ء میں امریکی صدر بننے والے روزویلٹ کے سور روزہ ایجنڈے سے لیا گیا تھا۔روزویلٹ کے صدر بننے کے بعد امریکہ میں قانون سازی کے حوالے سے بہت کچھ کیا گیا تھا‘ جس کے ساتھ ساتھ متعدد بڑے منصوبے بھی مکمل کیے گئے تھے۔اس کے بعد سے ہر نئی آنے والی امریکی حکومت کے پہلے سو دنوں کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔سودنوں کے حوالے سے ‘اگر اپنے ہاں ماضی میں حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ‘تو پھانسی چڑھا دئیے جانے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سب سے آگے نظر آتے ہیں۔گو ‘سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ہی سہی ‘ اُنہوں نے حکومت میں آنے کے فورا بعد بھارت کے ساتھ جنگی قیدیوں کی رہائی اور پھر مقبوضہ علاقے چھڑانے میں کامیابی حاصل کی۔بعد میں 1973ء کے آئین کی تیاری کے حوالے سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔زرعی اصلاحات ‘ٹریڈ یونینز کا اجرا اور سب سے بڑھ کر ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا ‘ اُن کے اہم ترین کارنامے گردانے جاتے ہیں۔مسائل تو اُس دور میں بھی بہت تھے‘ لیکن بہت کچھ ہوا ضرورتھا اور نہیں تو کم از کم ایک نیا نظریہ ضرور متعارف ہوا تھا۔مارشل لا لگا تو پھندا ایک اور گردنیں دو‘جیسی صورت حال پیدا ہوگئی‘ جو کمزور تھا ‘وہ پھانسی چڑھا اور ایک دور اپنے اختتام کو پہنچا۔اُس کے بعد شروع ہونے والے دور میں ہی پرائی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کرکے مارشل لا کی تنہائی دور کرنے میں تو کامیابی حاصل کرلی گئی تھی‘ لیکن قیمت بہت بھاری ادا کرنا پڑی۔ادائیگی کا یہ سلسلہ آنے والے ادوار میں بھی جاری رہا۔آج جب یہ کہا جاتا ہے کہ اب ہم نے پرائی لڑائیوں میں نہ کودنے کا فیصلہ کرلیا ہے ‘توگویا اگر ایسا کیا گیا تو یہ غلط تھا۔یہ گئے زمانوں کی بات تو نہیں‘ جب پانچ پانچ ہزار ڈالر میں اپنے ہی ہموطنوں کو بیچا گیا ۔اُس سے پہلے بھی دنیا بھر سے جنگجوؤں کو افغان جنگ میں حصہ لینے کے لیے یہاں آنے کی دعوت دی گئی‘نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں؛اگر اب یہ کہا جارہا ہے کہ ڈومور کے امریکی مطالبے پر کان نہیں دھرا جائے گا‘ تو اسے مستحسن جاننا چاہیے‘ اگر ایسا ہوسکے تو۔اب ان حالات کے پیدا کرنے کا باعث بننے والوں سے جواب دہی تو خواب اور خیال ہی جانئے‘ لیکن اگر اب ہی کچھ سمجھ بوجھ سے کام لے لیا جائے‘ تو کتنی اچھی بات ہوگی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے سب کے ایک پیج پر ہونے کی بات کی جارہی ہے‘ لیکن اب اس اتحاد کے ثمرات سامنے آنے ہی چاہیں۔ڈالر جو بے لگام ہوا ہے تو ابھی تک اس کی اونچی پرواز جاری ہے۔لامحالہ ڈالر کے مہنگے ہونے کے جھٹکے ہرکوئی ہی محسوس کررہا ہے۔ پولیس کی سمت درست کرنے اور اسے سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کی نوید سنائی گئی تھی‘ لیکن افسوس کہ اس کی تعبیر بھی نہ مل سکی۔ڈی پی اوپاکپتن کے تبادلے کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا معاملہ بھی بیڈ گورننس کی ایک مثال بن گیا۔ چیف جسٹس معاملے کا نوٹس نہ لیتے تو آئی جی شپ کی بساط لپیٹی جاچکی ہوتی۔اس کے ساتھ ساتھ شاید کچی آبادی کے مکین بھی تب تک جیل میں سڑتے رہتے‘ جب تک وہ سابق وزیر صاحب کے فارم ہاؤس کے قریب واقع اپنے گھروں سے نقل مکانی نہ کرجاتے۔اس معاملے پر جے آئی ٹی کی جو رپورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں جمع کرائی گئی‘ اُس میں واضح طور پر یہ بتایا گیا کہ سابق وزیر صاحب کی طرف سے فارم ہاؤس میں بھینسیں گھسنے کی بات غلط تھی۔گویا ایک رعایا کے چند مظلوموں پر غلط مقدمہ درج کرادیا گیا۔پورے ملک کی بات تو ایک طرف رہی اگر صرف پنجاب کی مثال لے جائے ‘تو یہاں کے عوام ایک دوسری انتہاکا مشاہدہ کررہے ہیں۔پہلے پنجاب سپیڈ اور اب سب کچھ ٹھپ؛حتیٰ کہ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بھی جیسے ٹھپ ہی ہوچکا ہے‘ جس کے باعث اس کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کم از کم جاری منصوبوں کی بروقت تکمیل کو ہی یقینی بنا لیا جاتا‘ تو کچھ سکون کا سانس آتا۔صورت حال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ پردے کے سامنے تو وزیراعلیٰ اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں اور پردے کے پیچھے کسی اور کی ہدایات پر عمل کیا جاتا ہے؛اگریہ مبالغہ آرائی نہ ہو تو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس وقت تین بڑی پاورپاکٹس بن چکی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں مختلف حکومتی معاملات پر مختلف آرا سامنے آتی ہیں۔اب اگر لاکھ یہ کہا جائے کہ وزیراعلیٰ پنجاب بہت اچھا کام کررہے ہیں۔وہ بہت جلد اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کردیں گے‘ تو یقین کرنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے۔
اس صورت حال کو اگر ملک نہیں تو کم از کم جمہوری نظام کے لیے ضرورغیرخوش کن قرار دیا جاسکتا ہے؛البتہ اتنا ضرور ہے کہ اچھے کی اُمید بہرحال باقی رہنی چاہیے۔کپتان کی ایمانداری اور سنجیدگی سے کسی کو انکار نہیں ہے۔کپتان ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی دھن رکھتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت کو ملک میں واپس لایا جائے۔چاہتے ہیں کہ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کو حل کیا جائے۔ خواہش ہے کہ ملک کو بدعنوانی اور رشوت ستانی کے عفریت سے نجات دلائی جائے۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا‘ جو ان نیک مقاصد کے حصول میں اُن کے ساتھ نہیں ہوگا۔نئی حکومت کو تو عوام نے اعتماد ہی اس لیے بخشا تھا کہ وہ بدعنوانی کے خاتمے کا عزم صمیم رکھتی تھی ۔یقینا ان مقاصد کا حصول ایسے معاشرے میںجوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ جہاں بدعنوانی ‘ جھوٹ‘ دھوکہ دہی خون میں رچ بس چکی ہو۔جہاں دوسروں کا حق سلب کرنا معمول کی بات ہو ‘لیکن تان وہیں آکر ٹوٹتی ہے کہ ان مسائل کے حل کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر تو آئے۔دلوں کو اطمینان ہوکہ ہوم ورک مکمل کرلیا گیا ہے‘ اب بس قدم آگے بڑھانا ہے۔دل انجانے اندیشے ‘اس لیے بھی محسوس کرتا ہے کہ دو بڑی سیاسی قوتوں کو تو ناکام قرار دیا جاچکا ہے‘ تو اگر تیسری قوت بھی لانے والوں کے اعتماد پر پورا نہ اُتر سکی‘ تو پھر؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں