"FBC" (space) message & send to 7575

دسمبر مجھے راس آتا نہیں

دسمبرکا آغاز ہی لہو کے آنسو رلانے لگتا ہے ‘ رنج و الم کی وہ داستانیں کہ سینہ چاک ہونے لگے۔اِسی ماہ کے دوران پہلے اپنے والدین کو ہمیشہ سقوط ڈھاکہ کاسوگ مناتے دیکھا ۔ 1971ء کے بعد سے کسی سال کاکوئی دسمبر نہیں دیکھا جب اُن کی وفات تک اُنہیں اِس بات پر افسردہ نہ دیکھا ہو کہ ہمارے ملک کو کس کی نظر لگ گئی۔ستم غیروں نے ڈھایا تھا تو غفلت اپنوں نے بھی برتی تھی۔مشرقی پاکستان الگ کیا ہوا غیروں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اُنہوں نے نظریہ پاکستان کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے۔اہل پاکستان کے لیے رنج و الم کا یہ سانحہ آنکھوں سے تو رونماہوتے نہ دیکھا ‘لیکن بڑوں کو دیکھ دیکھ کر‘ اُن کی باتیں سن سن کر اِس کی کسک ہمیشہ محسوس کی ۔یہ تاثر بھی پیدا ہوتا رہا کہ جب انسان صرف ایک بیانیے کا قائل ہی ہوکر رہ جائے تو کس طرح حقیقتوں کو پہچاننے‘سمجھنے سے قاصر ہوکررہ جاتا ہے۔ سانحات بغدادو اندلس ہوں یا پھر مشرقی پاکستان کا المیہ‘ اِن تمام میں میرا تو کوئی عزیز متاثر ہوا تھا نہ مجھے کوئی نقصان پہنچا تھا‘ لیکن خداجانے اِن کے درد کی ٹیس کیوں کر دل میں اُبھرتی رہتی ہے۔اِس حقیقت کو جھٹلانے کی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں کہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے خیال کی باقاعدہ آبیاری اپنوں نے ہی کی تھی۔ایک صاحب ِاقتدار کی وہ تقریر کون بھول سکتا ہے جس میں برملا اِس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ڈھاکہ میں جو چند ایک اچھی عمارتیں بنوائی گئی ہیں ‘ اُن کا مقصد یہ ہے کہ جب بنگالی بھائی ہم سے الگ ہوں تو اُن کے پاس معقول قسم کا دارالحکومت ہو۔ہمیشہ سنتے رہے کہ 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں دو کے سوا تمام سیٹیں جیت لیں‘ لیکن ملک کا بنگالی وزیراعظم قبول نہیں تھا۔شاید بنگالیوں کو قبول کرنے کی ہمت نہیں ہوپارہی تھی۔بتایا جاتا رہا کہ آپریشن بھی اِسی سوچ کا شاخسانہ تھا ‘جس دوران مغربی پاکستان میں یہی بتایا جاتا رہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔بہت بعد میں ایک مؤقر ہفت روزہ میں‘ اُس دور میں چھپنے والے متعدد مضامین بھی نظر سے گزرے۔ محبت کا زم زم بہہ رہا ہے کے عنوان سے شائع ہونے والے اِن مضامین میں بھی راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔سو اہل مغربی پاکستان بھی یہی گمان کرتے رہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔وہ تو 16دسمبر کو معلوم ہوا کہ بھارتی افواج ایک سمجھوتے کے تحت ڈھاکہ میں داخل ہوگئی ہیں ۔ وہی ڈھاکہ جس میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور پھر اِسی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ سب کو نہ چاہتے ہوئے بھی اِس بات پر یقین کرنا پڑا۔بڑوں نے بتایا کہ اِس سانحے کی بابت تصدیق ہوجانے کے بعد تو پورے ملک میں صف ِماتم بچھ گئی تھی۔بتایا گیا کہ بڑی تعداد میں لوگ لاہور کی مال روڈ پر جمع ہوکر گریہ کرتے رہے۔ایسی باتیں سن کر بے اختیار کسی ناول میںنظروں کے سامنے سے گزری ایک تحریر یاد آجاتی ۔مصنف نے لکھا تھا کہ سقوط ِاندلس کے بعد جب بادشاہ ابو عبداللہ نے الحمرا کے محلات کو چھوڑتے ہوئے ان پر آخری نظر ڈالی تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔بادشاہ ابوعبداللہ کی والدہ نے اپنے بیٹے کی گریہ زاری دیکھ کرتاریخی جملہ کہا : مردوں کی طرح جس کی حفاظت نہ کرسکے‘ عورتوں کی طرح اُس پر آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔بے شک مجبور اور بے کس لوگوں کا گریہ بے معنی بھی ہوتا ہے اور بے وقت بھی۔اپنوں اور بیگانوں کی کن کن ستم ظریفیوں کا ذکر کیا جائے ۔
کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی جو دیے جلاتی تھی
سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بڑوں کو آنسو رلاتا رہا تو 16دسمبر 2104ء کا سانحہ اے پی ایس ہمیں لہو کے آنسو رُلا گیا۔وہ سفاک دن جب دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں گھس کر 132معصوم بچوں سمیت 141جانوں کو شہید کردیا۔اُف میرے خدا ‘ وہ دن یاد آتا ہے تو دل پگھل کر آنکھوں کے راستے باہر آنے لگتا ہے۔ستم سا ستم۔ بربریت سی بربریت۔یہ بچے تو اپنے اپنے گھروں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تھے۔ وہ تو اُس جنگ کا حصہ نہیں تھے جس میں ہم نے خود کو ملوث کرلیا تھا تو پھر کیوں اُن کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔یاد آیا کہ اُسی روز میرے بیٹے کا اپنے سکول میں سپورٹس ڈے تھا‘ جس میں اُسے بھی شرکت کرنی تھی۔ رات کو اُس نے اپنے جوتے دھوئے لیکن وہ سوکھ نہ سکے۔ میں رات کے آخری پہر تک ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر اُس کے جوتے سکھاتا رہا کہ مبادا گیلے جوتے پہننے کے باعث اُسے کوئی تکلیف ہو۔میرے خدا ‘ اُن والدین کے دل و دماغ پر کیا گزری ہوگی جن کے بچے گولیوں کا سامنا کررہے تھے۔ جن کا بہنے والا گرم گرم لہو نجانے کن درندوں کی تسکین کا باعث بن رہا تھا۔شہید ہوجانے والے بچوں کے جسموں میں بھی گولیاں مار کر اِس بات کو یقینی بنایا جارہا تھا کہ کوئی اِن میں سے زندہ نہ بچ پائے۔ پوری قوم کئی روز تک سکتے میں رہی اور اللہ جانتا ہے کہ چار سالوں بعد بھی یہ غم کم نہیں ہوا۔ہمارا یہ حال تو اِن بچوں کے والدین کس کرب اور تکلیف سے گزر رہے ہوں گے؟سانحہ کے تقرییاًایک سال بعد لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں کسی این جی او نے اِن بچوں کے والدین کو مدعو کیا تھا۔اِس تقریب میں شرکت کرنے والے شہید بچوں کے والدین کو براہ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تو تقریب میں موجود شاید ہی کوئی ایسا ہو جس کی آنکھیں خشک ہوں گی۔اپنے بچوں کی تصاویر ہاتھ میں پکڑے‘ تر آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے چومتی ہوئی ماؤں کو دیکھ کر زندگی ہی بے معنی سی محسوس ہونے لگی۔دکھ تو یہ ہے کہ شہید بچوں کے والدین کی آنکھیں آج بھی آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں۔والدین آج بھی اِس اُمید پر اپنے بچوں کو آواز دیتے ہیں کہ اِس کے جواب میں جی ابو جی ‘ جی امی جی کی آواز آئے گی‘ لیکن یہ صدا ہمیشہ کی طرح گھوم پھر کر خالی واپس آجاتی ہے۔ بچوں کے والدین آج بھی بہت سے سوالات کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔پل پل جینے اور پل پل مرنے کی کیفیت میں مبتلا شہید بچوں کے والدین سپریم کورٹ کے احکامات پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی کی رپورٹ کے انتظار میں ہیں‘ جو شاید ایک ہفتے بعد عدالت میںجمع کرائی جانی ہے۔
یہ عجب قیامتیں ہیںتری رہ گزر میں گزراں
نہ ہوا کہ مرمٹیں ہم نہ ہوا کہ جی اُٹھیں ہم
سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والوںکی شہادتیں ہم پر ایسا قرض ہیں جسے ہمیں ادا کرنا ہی ہے۔یہ اِن بچوں کی شہادت کا نتیجہ رہا کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پرآئی۔پوری قوم نے دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنے کی ٹھان لی۔فوج نے دہشت گردوں کے خلاف پے درپے آپریشنز لانچ کیے ۔سیاسی قیادت کے تعاون سے دہشت گردی کے خلاف آئینی ترامیم کی گئیں۔فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔گویا قوم نے ٹھان لی تھی کہ اب دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ کر ہی دم لیا جائے گا۔ماہ دسمبر یاد تو دلاتا ہی ہے کہ اِس مہینے کے دوران قوم کو کیسے کیسے سانحات جھیلنا پڑے ۔ ساتھ میں یہ اِس بات کا جائزہ لینے کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ اِن سانحات سے ہم نے سیکھا کیا؟ سانحہ مشرقی پاکستان کو تو ہم بھول ہی چکے لیکن خدارا ایسا نہ ہو کہ سانحہ اے پی ایس کا کرب بھی وقت کے ساتھ کمزور پڑ جائے۔یقینا وقت سب سے بڑا مرہم ہے لیکن کچھ سانحے تو جیسے زندگی کی آخری سانسوں تک رلاتے ہیں۔ ۔ اِن کے لہو نے نہ جانے کتنے چراغ روشن رکھے۔بس ہمیں اِن شہیدوں کو یاد رکھنا ہے تب تک ‘ جب تک اِن کے والدین کو اپنے سوالوں کے جوابات نہیں مل جاتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں