"FBC" (space) message & send to 7575

بھلے وقت!

سنتے ہیں کہ بھلے وقتوںمیں ہمارے پاسپورٹ پر امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں آن آرائیول ہی ویزا مل جایا کرتا تھا۔ پاکستانی باشندوں کو دیکھ کر کسی ملک کا کوئی بھی امیگریشن آفیسر ناک بھوں نہیں چڑھایا کرتا تھا۔ ہمارے بڑوں کا دنیا کے کسی بھی ائیرپورٹ پر کھلی بانہوں سے استقبال کیا جاتا تھا۔وائے رے قسمت کہ آج سبز پاسپورٹ کو دیکھ کر ہی غیرملکی امیگریشن آفیسرز کے ماتھوں پر شکنیں آجاتی ہیں۔دل کے پھپھولے پھوڑنے کی وجہ یہ بنی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے تمام دعووںاور حالات میں بہتری کی تمام باتوں کے باوجود پاسپورٹس کی عالمی رینکنگ میں ہمارا پاسپورٹ 102ویں نمبر پر آیاہے۔خیر سے ہمارے بعد صرف صومالیہ‘ افغانستان ‘ شام اور عراق ہی بچتے ہیں‘جن کے پاسپورٹس ہم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ یہ بھی سنتے ہیں کہ بھلے وقتوں میں دنیا کے بیشتر ممالک ہم سے تعلقات استوار کرنے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے اور تو اور ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو نے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تو امریکہ بہادر کی جان پر بن گئی۔ لیاقت علی خان کوماسکو کی بجائے اپنے ہاں بلانے کے لیے امریکہ بہادر نے اپنی تمام سفارتی صلاحیتیں صرف کردیں اور اپنے اس مقصد میں وہ کامیاب و کامران ٹہرا۔یہ الگ بات کہ لیاقت علی خان صاحب کی طرف سے ماسکو کی بجائے واشنگٹن جانا ایک عرصے تک موضوع بحث بنا رہا۔اس ہونی کے انہونی اور انہونی کے ہونی میں تبدیل ہوجانے کا قصہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ یہ غالبا 2جون 1949ء کی بات ہے‘ جب ملک کے پہلے وزیراعظم کو تہران میں اپنے سفیر راجا غضنفر علی خان کے توسط سے معلوم پڑا کہ ماسکو انہیں اپنے ہاں بلانا چاہتا ہے۔راجا غضنفر نے تہران میں روسی سفیر کی طرف سے ملنے والی اس زبانی دعوت کو وزیراعظم صاحب تک پہنچا دیا۔سفارتی سطح پر اس طرح کی دعوت دینے کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے‘ جس پر عمل کرنے کی بجائے سب کچھ ہی زبانی طور پر کیا گیا تھا۔اب ایک طرف اگر دورے کی دعوت غیرروایتی طور پر دی گئی تھی تو دوسری طرف سے بھی اسے فوراً ہی قبول کرلیا گیا۔دعوت قبول کرنے کی دیر تھی کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا میں ہلچل سی مچ گئی۔سفارتی سطح پر رابطے شروع ہوئے تو بیگم رعنا لیاقت علی خان کی طرف سے یہ شکوہ بھی سامنے آیا کہ امریکی صدر ٹرومین نے تو ہمیں دورہ امریکہ کے قابل نہیں سمجھا‘ لیکن ماسکو نے ہمیں اپنے ہاں بلوا لیا ہے۔ تب امریکی صدر ٹرومین نے خود فون کو کرکے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ امریکہ کی دعوت دی۔دلوں کو موم کرنے کے لیے دعوت دینے سے پہلے مختلف کیٹیگریز کی توپوں اور بندوقوں کے لیے 2لاکھ راؤنڈز پاکستان کو دینے کی منظوری بھی دے دی گئی تھی۔امریکہ کی یہ کوششیں رنگ لائیں اور وزیراعظم ماسکو کی بجائے واشنگٹن چلے گئے۔اس کی ایک وجہ اور بھی بیان کی جاتی ہے کہ ماسکو کی طرف سے دورے کی تاریخ 15اگست تجویز کی گئی تھی۔ جواباً مطلع کیا گیا کہ 14اگست کو پاکستان کی یوم آزادی کی تقریبات ہوتی ہیں‘ لہٰذا یہ تاریخ موزوں نہیں۔ماسکو نے جواب دینے میں تاخیر کی تو امریکہ کے لیے راستہ مزیدصاف ہوگیا۔گو اس فیصلے کے باعث ہمیں دنیا کی دوسری سپر پاور کی ناراضی بھی مول لینا پڑی‘ لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔اب یہ سب کچھ ہونے کے سیاسی یا دوسرے عوامل کیا تھے یہ تو رہی الگ بحث ‘بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک وہ وقت تھا جب دنیا کی سب سے بڑی طاقت اِس فکر میں دبلی ہوئی جارہی تھی کہ کہیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والا نیا ملک اُس کے دشمن سے تعلقات استوار نہ کرلے۔ہرکسی کی کوشش تھی کہ پاکستان اس کا دوست بنے!!۔
یہ شاید انہیں بھلے وقتوں کی وجہ سے ہی تھا کہ اگر نئے ملک اور اس کے رہنماؤں کی اہمیت کا احساس تھا‘ تو اس کے رہنے والے بھی دوسروں کے لیے معتبر ٹہرے تھے۔ ملکی پاسپورٹ پر مغربی ممالک سمیت بیشتر ممالک میں on arrival ویزا مل جایا کرتا تھا۔اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کہ اپنے آغاز کے وقت تو ملکی پاسپورٹ انتہائی غیرمتاثر کن ہوا کرتا تھا۔اس کی جلد پر ملک کے بس دوجھنڈے چھپے ہوتے تھے۔دیکھنے پر ہی یہ کسی بوڑھے اور بیزار سیکشن آفیسر کے دماغ کی اختراع دکھائی دیتا تھا۔1960ء میں جا کر کہیں اس پر ری پبلک آف پاکستان لکھا جانے لگا تھا۔ 1972ء میں جب اس کا رنگ درمیانہ سبز ہوا تو تب بھی اس کی قدر میں کمی نہیں ہوئی تھی ۔ہاں‘ البتہ جب 1984ء میں جنرل ضیاالحق کے دور میں اس کا رنگ گہرا سبز کیا گیا تو تب تک یہ کافی ممالک کے لیے ناپسندیدہ بن چکا تھا۔ہماری حرکتیں رنگ لانا شروع ہوگئی تھیں‘ سب سے پہلے امریکہ نے ویزا آن ارائیول کے دروزاے بند کیے تومغربی اور عرب ممالک کے علاوہ چین بھی امریکہ کے نقش قدم پر چل نکلے۔بس اس کے بعد تو گویا ہمارے پاسپورٹ کا پستی کی طرف ایسا سفر شروع ہوا ‘جو رکنے میں ہی نہیں آرہا۔اس وقت یہ عالم کہ دنیا کے تقریباً دودرجن کے قریب ہی ممالک ایسے بچے ہوں گے ‘جن کے لیے پاکستانی بغیر ویزے کے سفر کرسکتے ہیں۔ یہ سب کے سب غیراہم ممالک ہیں‘ لیکن پھربھی اللہ ان کا بھلا کرے‘ جو آج بھی ہمیں بغیرویزا آن آرائیول دے دیتے ہیں۔ ورنہ تو دیگر ممالک میں ہمیں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ‘ اس کا تجربے کا ‘لطف‘ ہم بھی اُٹھا چکے ہیں۔غالباً 2008ء کی بات ہے جب ہمیں بھی ٹوکیو ائیرپورٹ پر اِس بات کا تجربہ ہوا تھا کہ دنیا ہمیں کتنی‘قدر‘ کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ سبز پاسپورٹ پر نظر پڑتے ہی ویزا ہونے کے باوجود ہم قطار سے الگ تھلگ کردئیے گئے۔تقریباً 30منٹ تک انتظار کرنے کے بعد امیگریشن آفیسر نے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر تو ثبت کردی ‘لیکن اُس کی نظریں بتا رہی تھیں کہ اُس نے کافی ناپسندیدہ عمل سرانجام دیا ہے۔غصہ آیا ‘لیکن یہ سوچ بھی درآئی کہ اس کے لیے امیگریشن آفیسر کو بھی کیوں موردالزام ٹہرایا جائے۔ حرکتیں تو اپنی ہی خراب ہیں۔ اپنی حکومت کی دنیا میں قبولیت کے لیے ایک آمر نے جہاد کے نام پر جس افغان جنگ کی بنیاد ڈالی تھی‘اُس نے دہشت گردی کا عفریت متعارف کرایا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں منشیات کی ترسیل اور اپنے ہی باشندوں کی پانچ پانچ ہزار ڈالر میں فروخت نے رہنماؤں کا کردار داغدار کیا تو اُن کی رعایا بھی معتوب ٹہری۔رہنماؤں کی دیکھا دیکھی عوامی سطح پر بھی‘ جو بدعنوانیوں اور کرپشن کا بازار گرم ہوا‘ تو سبز پاسپورٹ ناپسندیدہ ترین ہوتا گیا ۔
ان حالات میں ایسے ممالک پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے ‘جس کے باشندے دنیا بھر میں بغیر ویزے کے سفر کرسکتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے ائیرپورٹ پر پہنچتے ہی اُن کے لیے آنکھیں بچھا دی جاتی ہیں۔وہی جاپان جس کے ٹوکیو ائیرپورٹ پر ہم ناپسندیدہ شخصیت کے روپ میں پہنچے تھے‘ اُس کے پاسپورٹ کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ اہمیت ہے۔اس کے شہری بغیر ویزے کے 190ممالک کا سفر کرسکتے ہیں۔ سنگاپور اور تائیوان کے شہری بھی بے شمار ممالک لیے پسندیدہ شخصیات ہیں ۔ امریکہ ‘ جرمنی‘ برطانیہ ‘سوئٹزرلینڈ اور متعدد دوسرے ممالک کے باشندوںکو بھی دنیا میں ہرجگہ خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔بھلے وقتوں میں ہم بھی انہی کی مانند معتبر ہوا کرتے تھے۔ اب یہ عالم کہ ہمیں تو دوسرے ممالک میں کیا خوش آمدید کہا جائے گا‘ ہمارے ہاں آنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔ ٹیموں کے ترلے کرکے تھک گئے ہیں کہ خدارا ہمارے یہاں آکر کھیلو ‘لیکن کوئی اس کے لیے تیار نہیں ہوتا۔کبھی کبھی کسی کھلاڑی کو انفرادی حیثیت میں اچھی خاصی رقم دے کر بلا لیا جاتا ہے اور اُس پر بغلیں بجائی جاتی ہیں۔اس سلسلے کی تازہ کڑی فیگو اور کاکا کی پاکستان آمد ہے۔ فیگو پرتگال اور کاکا برازیل کے سابق فٹ بالرز ہیں۔انہیں یہاں بلانے سے پہلے کافی عرصے تک بات چیت ہوتی رہی‘ جس کے بعد جا کر وہ اچھی خاصی رقم کے عوض ہمارے آنے پر رضا مند ہوئے۔ویسے دوسرے ممالک سے گلہ بھی کیا کرنا کہ ہم پر تو وہ مثال سوفیصد فٹ آتی ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔افغانستان اور صومالیہ کے بعد ہم تیسرا ملک ہیں ‘جہاں سے ابھی تک پولیو کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ہیپا ٹائٹس کے پھیلاؤ میں دنیا میں دوسرے نمبر پر تو تپ دق پھیلانے میں بھی پیش پیش اوپر سے دہشت گردی کا لیبل ۔ ہم لاکھ کہتے رہیں ‘ لاکھ دعوے کرتے رہیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے وغیرہ وغیرہ‘ لیکن دوسروں کو سب نظرآتا ہے‘لیکن...وہ کہا جاتا ہے‘ ناں کہ اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے‘ تو بس بھلے وقتوں کی اُمید تو رکھی ہی جاسکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں