"FBC" (space) message & send to 7575

شیخ سعدی کی لومڑی

زمانہ قدیم کی بات ہے ‘ سرکاری ہرکار ے کسی شہر میں داخل ہوگئے۔سرکاری ہرکاروں کا شہر میں داخل ہونا کیا کم آفت تھی کہ اوپر سے اُنہوں نے پکڑ دھکڑ بھی شروع کردی تھی۔وہ شوروغل برپا ہوا کہ خدا کی پناہ۔جس کا جس طرف منہ اُٹھا وہ پتلی گلی سے نکل گیا ۔اِن میں شیخ سعدی کی لومڑی سب سے آگے تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ تب گیس کا زمانہ ہوا کرتا تھا جو ہرکاروں نے گیس کے بھاری بلوں کی عدم ادائیگی پر پکڑدھکڑ شروع کی ہو۔عین ممکن ہے وہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے عائد کیے گئے ٹیکس وصول کرنے کے لیے آئے ہوں۔بادشاہت ہو یا زمانۂ جمہور‘معیشت کی مضبوطی تو ہرکوئی چاہتا ہے۔ادوارِ بادشاہت میںاتنی آزادی ضرور تھی کہ بادشاہ وقت کی زبان سے نکلا لفظ ہی قانون ہوتا تھا۔بادشاہ کا دل چاہے تو اپنی ملکہ کے لیے تاج محل جیساعظیم الشان عجوبہ ایستادہ کردے۔چاہے اِس کی تکمیل میں 25برس ہی کیوں نہ صرف ہوجائیں یااِس پر 1632ء سے لے کر 1650ء تک 32 کروڑ روپے کی خطیر رقم ہی خرچ کیوں نہ ہوجائے۔چاہے اِس کے لیے عوام پر اتنے ٹیکس ہی کیوں نہ لگانے پڑیں کہ دنیا کی امیر ترین ریاست بھی معاشی مشکلات کا شکار ہوجائے۔اب حساب کتاب کیا کرنا کہ اُس دور کے 32کروڑ روپے آج کے کتنے بنتے ہوں گے۔ ویسے بھی ہم تو رات گئی بات گئی والی خوبی میں یکتا ہیں۔یہ بھی بادشاہ کی ہی مرضی ہوتی تھی کہ وہ چاہے اپنے ہی بارہ ‘ چودہ بھائیوں کو گلا گھونٹ کر مروا دے اور پھر بھی مورخ سے یہی لکھوائے کہ وہ سب کچھ مملکت کے لیے ہی کرتا تھا۔ اپنا گزارا تو وہ ٹوپیاں سی کر کیا کرتا تھا۔ جمہوری ادوار میں تھوڑی سی مشکل ہوتی ہے کہ بات تھوڑی گھما پھرا کر سمجھانی پڑتی ہے۔الفاظ کے گورکھ دھندے سے عوام کو سمجھانا پڑتا ہے کہ کیا وجہ ہے جو گیس کے بلوں میں یکدم اتنا اضافہ ہوگیا۔اُنہیں تکنیکی طور پر سمجھانا پڑتا ہے کہ2018ء گزر گیا‘ جب گیس کی قیمت دوہزار دوسو ساٹھ روپے فی یونٹ ہوا کرتی‘ معیشت کی مضبوطی کے لیے اِسے چھ ہزار دوسو پچاسی روپے یونٹ تک بڑھا دیا گیا ہے۔عوام کو بتانا پڑتا ہے کہ ابھی ہم میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ہرسال چوری ہونے والی ساڑھے سات سو ملین کیوبک فٹ گیس کی چوری روک سکیں۔ اِس لیے تھوڑی سی مشکل تو آپ کو برداشت کرنی چاہیے۔یہ باور کرانا پڑتا ہے کہ ابھی ہم سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے اداروں کوبہتر بنانے کی صلاحیت بھی حاصل نہیں کرسکے‘ جو ہرسال اربوں روپے کھا جاتے ہیں۔ ہمارا بس تو اِسی پر چلتا ہے کہ پٹرول پر لیوی ٹیکس میں 16فیصد اضافہ کردیں یا بچت کے نام پر سینکڑوں لوگوں کو بے روزگار کردیں۔ سو وہ ہم کررہے ہیں۔عوام ٹھہرے صدا کے ضدی۔وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ملک کیسے کیسے بحرانوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔وہ تو بس ایسے ہی ہنگامہ برپا کردیتے ہیں۔
بیخود رفیق ہے نہ کوئی ہم طریق ہے
دل پر جو کچھ گزرتی ہے کس سے بیاں کروں
دل پر جو گزرتی ہے ‘ ہرگزکسی سے بیان کرنے کی ضرورت نہیںہے ‘ ویسے بھی دل کا حال پہلی مرتبہ تو ایسا ہوانہیں ۔ اِس بات کو بھی دل پرلینے کی ہرگز ضرورت نہیں ‘ پچھلے چھ ماہ کے دوران مہنگائی میں33فیصد اضافہ ہوچکا ہے ۔ وہی بات کہ ملکی معیشت کے لیے قربانیاں دینا ہم سب کا اولین فرض ہے۔اِس فرض کی ادائیگی سے ہرگز گھبرانا نہیںہے بلکہ ڈٹ کر صورتحال کا مقابلہ کرنا ہے۔بس تھوڑا سا وقت دے دیں۔ کچھ ضروری کام نمٹانے ہیں۔ابھی مزید ایسے سوراخوں کا پتہ چلانا ہے جہاں سے معیشت کی مضبوطی کے لیے مزید کچھ نچوڑا جاسکے۔ بس کچھ ہی عرصے کی بات ہے ‘ اُس کے بعد تو ہرطرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ہرطرف انصاف کا بول بالا ہوگا۔ ہرکوئی صرف اپنا کام کرے گا۔کوئی کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرے گا۔ہرطرف برداشت کے مظاہرے کثرت سے نظرآئیں گے۔کوئی شیخ رشید ‘ رانا ثناللہ کے لتے لے گا نہ رانا ثنااللہ شیخ رشید کے خلاف بدزبانی کرے گا۔ سرکاری عمّال کو پھانسی پرلٹکانے جیسی باتوں سے بھی گریز کیا جائے گا۔فواد چوہدری صاحب بھی الفاظ کو تول کر بولا کریں گے ۔ کوئی ایسی بات نہ کریں کہ بات منہ سے نکلتے ہی ہرطرف بے یقینی پھیلنا شروع ہوجائے۔فیاض الحسن چوہان بھی میڈیا کو مرچ مصالحہ سپلائی کرنے سے گریز کریں گے۔عثمان بزدار صاحب ہر جگہ نت نئے منصوبوں کا افتتاح کرتے دکھائی نہیں دیں گے۔ ق لیگ کو دوبارہ اتنی ہمت نہیں ہوگی کہ چند ایک بیانات دے کرپنجاب میں مزید ایک وزارت اور دیگر مراعات لے اُڑے۔اور تو اورخود حکمران جماعت کے کسی اور صوبائی وزیر کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ سیاسی بنیادوں پرایل ڈی اے‘ واسا ‘ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی اور دیگر اداروں میں اپنے چہیتوں کو تعینات کراسکے۔پشاور میں پانچ سالوں سے زیرتکمیل میٹروبس سروس کا منصوبہ مکمل ہوجائے گا ۔یوں اِس پر خرچ کیے گئے 90ارب روپے ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعدسے لاہور میں بند پڑا اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ چھکا چھک چل پڑے گا ۔چھوٹے سے چھوٹے شہروں میں بھی سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال دکھائی دیں گے ۔پھر عوام کی نہیں صرف اور صرف بدعنوان عناصر کی ہی چیخیں سنائی دیں گی ۔صرف تین بدعنوانوں سے سے رقم کی وصولی کے بعد توسمجھئے کہ مہمند ڈیم کی تعمیر وٹ پر پڑی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
ہنسا ہنسا کے شبِ وصل اشک بار کیا
تسلیاں دے دے کے مجھے بے قرار کیا
وائے ری قسمت کہ ہم ٹھہرے جاہل‘ بے قراری میں اپنا حال کسی حد تک مرغا مار دینے والی دوکنیزوں جیسا کرچکے ہیں۔وہ کنیزیں جو بے خوابی کی شکار ایک بیوہ رئیس زادی کے ہاں ملازم تھیں۔ رئیس زادی کو خود تو نیند آتی نہیں تھی سو وہ دونوں کنیزوں کو علی الصبح مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی جگا دیتی۔کنیزوں نے عقلمندی کی کہ ایک روز مرغے کو ہی مارڈالا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری لیکن اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔اب رئیس زادی کو وقت کا کوئی اندازہ تو ہو نہیں پاتا تھااِس لیے وہ حفظ ماتقدم کے طور پر دونوں کونصف شب میں ہی جگا دیتی‘آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔اب یہ الگ بحث کہ اگر کوئی سدھ بدھ ہی نہ رہے تو سمجھداری کی چڑیا کیسے پرواز کرے گی۔ وہ بیچاری تو پھڑپھڑا کررہ جائے گی ۔رہ جائے گی کیا بلکہ پھڑپھڑا رہی ہے۔ تو بھائیو فی الحال تو اِسے پھڑپھڑانے ہی دیں۔اور حکومت کی مرغی پال جیسی سکیموں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔اِس وقت حساب کتاب کا وقت نہیں ہے ورنہ اعدادوشمار کے ساتھ ثابت کرتے کہ اِس سکیم سے آپ کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔بل گیٹس نے بھی تو بے شمار افریقیوںکو مرغیاں فراہم کر کے ہی سطح غربت سے بلند کیا تھا۔سو زیادہ عقلمندی سے کام لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔فی الحال اتنی سی سبیل کرنے کی کوشش کریں کہ کم از کم خود کو محفوظ رکھ سکیں۔بالکل شیخ سعدی کی اُسی لومڑی کی طرح جو شہر سے باہر بھاگنے والوں کو لیڈ کررہی تھی۔جس نے یہ عقدہ بھی کھول دیا تھا کہ شہر میں سرکاری ہرکارے کیوں آئے اور افراتفری کیوں مچی۔جب ذرا محفوظ فاصلے پر پہنچی اور دم لینے کا موقع ملا تو کسی نے پوچھا: بی لومڑی ایسی کیا بپتا آن پڑی جو بے دم بھاگی چلی جارہی ہو۔ بولی: ہمارے شہر میں سرکاری ہرکارے آئے تھے اور اونٹوں کو پکڑ پکڑ کرلے جارہے تھے۔ لیکن تم تو اونٹ نہیں ہو۔بی لومڑی بولی نہ بھیا اگر کوئی سرکاری ہرکارہ کہہ دیتا کہ یہ بھی اونٹ ہے تو کس نے اُس کی تردید کرنی تھی؟ اُنہوں نے تو مجھے اُٹھا کر لاد لینا تھا‘چاہے بیلنسنگ پالیسی کے تحت ہی ایسا کرتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں