"FBC" (space) message & send to 7575

مورکھ

پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں‘ توں نام رکھ لیا قاضی‘ہتھ وچ پھڑ کے تلوار‘نام رکھ لیاغازی‘ مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی‘ او بلھیاحاصل کی کیتا‘ جے توں رب ناں کیتا راضی۔(ترجمہ: کتابیں پڑھ پڑھ کر تم نے اپنا نام رکھ لیا قاضی۔ہاتھ میں تلوار پکڑ کر خود کو کہلوانے لگے غازی‘مکے مدینے جا کر خود کو بلوانے لگے حاجی‘مگر بلھے شاہ تم نے کیا کیا اگر اللہ کو نہ کیا راضی)باتوں کا گھماؤپھراؤتو یہیں ختم ہوجاتا ہے کہ رب راضی تو سب راضی‘ لیکن اس کے ساتھ کچھ اور بھی ہے۔ بلھے شاہ مکے گیاں گل مکدی نئیںبھانویں سوسو جمعے پڑھ آئیے‘گنگا گئیاں گل مکدی نئیں تے بھانویں سوسوغوطے کھائیے‘ بھلے شاہ گل تائیوں مکدی جدوں میں نوں دلوں گنوائیے۔(ترجمہ :بلھے شاہ صرف مکے جانے سے بات ختم نہیں ہوتی ‘چاہے سو سوجمعے پڑھ آئیں۔گنگا میں نہانے سے بھی بات کا اختتام نہیں ہوتا چاہے ‘سوسو غوطے کھائیں‘ ہاں پر بات تبھی ختم ہوتی ہے جب میں کو دل سے ختم کریں)۔ہمارا یہ حال کہ اللہ کو راضی کرسکے نہ میں کے چنگل سے نکل سکے۔سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی رہے ہم مورکھ (بیوقوف)کے مورکھ ہی۔ہاں! بات اُن کی ہرگز نہیں ہے‘ جو اپنے رب کے ہرفرمان کی طرف لپکتے ہیں۔ اُس کی رضا کے لیے خود کو فنا کرلیتے ہیں‘ ایسے ہی تو وہ بندے ہوتے ہیں‘ جن کے بارے میں رب کائنات خود پوچھتے ہیں کہ اے میرے رسول ؐ‘ صدیقؓ سے پوچھیے کہ وہ اپنے رب سے راضی تو ہیں؟پوچھا گیا تو حضرت صدیق ؓکی چیخیں نکل گئیں ‘ کہ رب کائنات اُن کے راضی ہونے کی بابت پوچھ رہے ہیں۔ بات تو مجھے جیسے مورکھوں کی ہورہی ہے ‘جو ایک ہی وقت میں دنیا کے طلبگار ہیں‘ تو جنت کے متمنی بھی ہیں۔تبھی تو اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ فرصت تو ہمارے پاس نہیں ہے‘ لیکن پھر بھی کچھ وقت ملے تو اپنے اردگرد نظر تو دوڑاہی سکتے ہیں۔اخلاقیات سے عاری پیسے کی ہوس سب پر بھاری۔دوسروں کا حق شیر مادر کی طرح ہضم کرنے کے دلدادہ تو رشوت کو اپنا حق سمجھ کر ڈکارنے کے شوقین‘ لیکن آنکھوں میں خواب سجے ہیں؛ ریاست مدینہ کے۔واہ! کیا دوغلا پن ہے۔ایک آتا ہے تو وہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں پہنچانے کے خواب دکھاتا ہے اوردوسرا انہیںخوابوں کو کسی اور رنگ میں بیچتا ہے۔رنگوں کے اسی کاروبار نے سب کو ہی رنگا رنگ کردیا ہے۔انہیں رنگا رنگیوں کے باعث ہی تو ٹھیک اور غلط میں فرق کرنا تقریبا بھول چکے ہیں۔؎
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
پندو نصائح کے انبار‘ لیکن عمل صفر۔ایک پل میں جو دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے دوسرے ہی پل حقوق العباد کی افادیت بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔چالبازیوں کے وہ چلن کہ خدا کی پناہ گویاہم سب تو جیسے ایک جیسے ہی ہوتے جارہے ہیں۔دن میں درجنوں بار مرنے کی باتیں ہوتی ہیں‘ لیکن یقین دور دور تک نہیںہوتا۔ یقین ہوتا تو وہ سب کچھ ہونے کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی تھی‘ جو کچھ ہورہا ہے۔یقین ہوتا تو کہاں کی کرپشن اور کہاں کی بدعنوانیاں۔ کہاں کی حق تلفی اور کہاں کی میں میں۔یقین ہوتا کہ جو کچھ کررہے ہیں ‘اُس کا جواب دینا ہی پڑے گا تو کہاں کا کروفر اور تکبر۔ یقین ہوتا کہ آخر چھوڑنے ہیں محل مینارے ‘ صدا نہیں یہاںبیٹھ رہنا تو کہاں کے قبضے۔یقین ہوتا کہ جو بوئیں گے‘ وہی کاٹنا پڑے گا تو کہاں کی چالبازیاں‘لیکن نہیں نہیں‘ ماننا ہم نے ۔
چوٹھے محل مینارے تیرے چوٹھیاں تیریاں باتاں(ترجمہ:جھوٹ ہیں تیرے محل مینارے اور جھوٹ ہیں تیری باتیں)
عملاں باجوصادق اوتھے کسے نیئں لینیاں تیریاں واتاں(ترجمہ: اعمال کے بغیر قبر میں کسی نے تیری دلجوئی نہیں کرنی)
اوتھے عملاں دے ہونے نئیں نبیڑے کسے نئیں تیری ذات پچھنی(ترجمہ:کیونکہ وہاں صرف عملوں کو جانچا پرکھا جائے گا‘ کسی کی ذات نہیں پوچھی جائے گی)
معلوم نہیں‘ دنیا داری سے ہٹ کر کیوں دل پگھلتا ہی جارہا ہے۔ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ ایسی کیفیات نے شاید ہی کبھی قبضہ جمایا ہو ۔شاید اندر کی آواز ہے جو عمر کے گزرنے والے ہردن کے ساتھ توانا ہوتی جارہی ہے۔نہ یہ بات کرنے کے لیے دل راضی ہورہا ہے کہ ملکی کے حالات کیسے ہیں۔نہ کسی کی برائی کرنے کو من مچل رہا ہے؛حالانکہ یہ عادت تو گٹھی میں پڑی ہے۔ اِدھر کوئی ہمارے پاس سے اُٹھ کر گیا اور اُدھر ہم نے غیبت شروع کردی ۔چاہے ‘وہ اپنے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہی کیوں نہ ہو۔ بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا کہ آج بھی اُنہیں کے لتے لیے جائیں‘ جنہیں ہمیشہ ہم بدعنوان ثابت کرنے کے لیے سعی کرتے رہتے ہیں۔بالکل دل نہیں چاہ رہا بات کرنے کو کہ کہاں ہیں ؟وہ ڈاکٹر عاصم‘ جن پر 4سو ارب روپے سے بھی زائد کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے تھے۔خوشی تو ہوئی تھی کہ کسی بڑے آدمی پر ہاتھ پڑا ہے‘ لیکن اب یہ کافور ہوچکی ہے۔4ارب روپے تو کیا چار روپے بھی نہیں نکلوائے جاسکے۔ یاد تو آرہے ہیں سندھ کے شرجیل میمن صاحب بھی‘ جنہیں 3سو ارب روپے کی کرپشن کے الزامات کا سامنا تھا‘ لیکن اب وہ بھی شاید قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔نواز شریف صاحب کا معاملہ تو ابھی تک چل ہی رہا ہے۔معلوم نہیں اب اس میں سے کیا نکلتا ہے ‘لیکن آج اِن سب کے بارے میں بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ان سب کی یا کسی اور کی بات کروں بھی تو کس منہ سے۔بات تو بابا فرید جیؒ نے ویسے ہی بڑے احسن انداز میں ختم کردی ہے۔
برے بندے نوں میں لبن ٹریا پر برا لبا نہ کوئی(ترجمہ:میں برے آدمی کی تلاش میں نکلا‘ لیکن مجھے کوئی بھی برا بندہ نہ ملا)
جد میں اندر جھاٹی پائی تے میرے توں برا نہ کوئی(ترجمہ:جب میں نے اپنے اندر جھانکا تو پایا کہ میرے سے برا نہیں ہے کوئی)
اُس نے یہ کردیا ‘ اُس نے وہ کردیا۔ یہ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ میں کیا کررہا ہوں۔ اب تو یہ عالم کہ رات کو سوتے ہیں تو ساتھ ہی ضمیر کو سلانے کی کوشش بھی ہوتی ہے ۔ اللہ کا واسطہ سو جا ‘ مت یاد دلا مجھے کہ آج میں نے کتنے جھوٹ بولے‘ کتنوں کا حق مارا۔ کتنوں کو ناحق قتل کیا۔ شوآف سے کتنوں کے دلوںکو کرچی کرچی کردیا۔ سو جا سو جا‘لیکن انگلیاں ہمیشہ دوسروں کی طرف ہی اُٹھی رہتی ہیں۔زید کی کرپشن کی باتیں‘ بکر کی بدعنوانیوں کے تذکرے۔ صبح شام جھوٹ کا کاروبار اور پھر یہ باتیں کہ ہاں جی ایک دن تو مرنا ہی ہے ‘لیکن یقین اِس بات کا کہ مرنے کا دن ہم نہیں ‘ بس دوسروں پر ہی آئے گا۔قبرستان کے چکر بھی لگتے ہیں اور وہاں اپنے اپنے زمانوں کے کیسے کیسے ذیشان قبروں میں پڑے ملتے بھی ہیں۔اُن کی بڑھکیں بھی کانوں میں گونجتی ہیں ۔ اوئے میں تیری آنکھیں نکال دوں۔ تم جانتے نہیں ہو مجھے میں کیا کرسکتا ہوں۔اوئے تم نے میرے سامنے اونچی آواز میں بات کی تو پھانسی چڑھا دوں گا‘جس نے دوسروں کی عزتیں پامال کیں‘ وہ بھی یہیں ملتے ہیں‘ لیکن بے بسی کا یہ عالم کہ سوچ کرہی دل دہلتا ہے۔معلوم تو تب ہی پڑتا ہے جب چڑیا باز کے ہاتھ آتی ہے‘ پھر کہاں کہ پھرپھراہٹ اور بھڑکیں‘ پھر تو آہیں اور سسکیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔کون ہے‘ ہم میں جو یہ سب کچھ نہیں جانتا ۔ سب جانتے ہیں ‘پھر بھی معلوم نہیں کیوں باز نہیں آتے۔کچھ اور نہیں کرسکتے تو کم از کم کسی کے ساتھ اچھے لہجے میں تو بات کرہی سکتے ہیں ۔ اس پر تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا‘ لیکن اس کا بھی یارا نہیں ہے۔ وحشتوں سے بھرے چہرے۔کف اُڑاتی زبانیں۔مخاطب کو کچا چبا جانے والا رویہ؛ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اچھے بول کی دنیا اکسیر ہوتی ہے۔ اچھی زبان پتھروں کو بھی موم کردیتی ہے۔دوسروں کے لیے کچھ اور نہیں تو کم از کم اُن کے ساتھ اچھے لہجے میں بات تو کی ہی جاسکتی ہے۔
معافی کا طلبگا رہوں۔ معذرت چاہتا ہوں۔دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے ۔ اپنے محسوسات سے آپ کو آزار پہنچانے کے لیے ‘لیکن کیا کیا جائے جب بات بس سے باہر ہوجائے ۔گل ہوجائے‘ بس سے باہر تو پھر ناچنا ہی پڑتا ہے‘پھر کچھ نہ کچھ تو سوچنا ہی پڑتا ہے۔کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے اور نہیں تو کم از کم قبرستان کا چکر لگا کرخود کو یقین دلانا ہی پڑتا ہے کہ سمجھ جا سہیل احمد قیصر سمجھ جا۔تیرے جیسے ان گنت یہاں پڑے ہیں۔ وہ بھی جوسمجھتے تھے کہ زمانہ اُن کے بغیر ایک پل بھی نہیں چل سکتا۔وہ بھی جنہوں نے دوسروں کی زندگیاں اجیرن کیے رکھیں ۔ وہ بھی جو اپنی انا کے لیے دوسروں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے۔ وہ بھی جو چار کتابوں کا علم حاصل کرکے خود کو قاضی کہلواتے رہے ۔ وہ بھی جو تلوار ہاتھ میں پکڑ کرخود کو غازی بلواتے رہے۔ آج سب کے سب اپنے رب کے حضور حاضر ہیں ۔ سمجھ جا سہیل احمد قیصر سمجھ جا‘ لیکن نہیں تو سدا کا مورکھ (بیوقوف)نہیں سمجھے گا ‘ نہیں سمجھے گا۔سمجھنا ہوتا تو کب کا سمجھ چکا ہوتا...!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں