"FBC" (space) message & send to 7575

نانی تیری مورنی کو…!

نانی تیری مورنی کو مور لے گئے
باقی جو بچا تھا کالے چور لے گئے
کھا پی کے موٹے ہو کے چور بیٹھے ریل میں
چوروں والا ڈبہ کٹ کے پہنچا سیدھا جیل میں
اِن چوروں کی خوب خبر لی موٹے تھانیدار نے
موروں کو بھی خوب نچایا جنگل کے سردار نے
اچھی نانی پیاری نانی رُسہ رُوسی چھوڑ دے
جلدی سے ایک پیسہ دے تو کنجوسی چھوڑ دے
اتنا سننا تھا کہ نانی کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔تقریباً 72سال کی عمر میں بھی اُس نے وہ سنائیں کہ خدا کی پناہ۔ ایک طرف وہ ناہنجار اولاد کو صلواتیں سنا رہی تھی تو دوسری طرف دل کا درد آنکھوں سے خون بن کر بہہ رہا تھا۔کمبختو کچھ چھوڑا بھی ہے میرے پاس تم نے۔تمہارے تو اپنے پیٹ نہیں بھرتے ۔ سب کچھ تو نچوڑ لیا ہے تم نے اور اب بھی کہہ رہے ہو کہ ایک پیسہ دے تو کنجوسی چھوڑ دے۔کیا کچھ نہیں کیا میں نے تمہارے لیے۔غیروں کی تمام تر سازشوں کے باوجود تمہیں اُن سے بچا کر لائی‘پالا پوسا اتنا بڑا کیا‘ لیکن تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا؟میرے سر سے چاندنی جھلکنے لگی ہے‘ لیکن ناہنجاروتمہیں عقل نہیں آرہی‘آپس میں ہی لڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کو گنجا کررہے ہیں۔نانی کو غصہ اس بات کا بھی ہے کہ موٹے تھانیدار نے چوروں کی خوب خبر تو لی‘ لیکن ہمیشہ کی طرح اُن سے ابھی تک کچھ بھی نہیں نکلوا سکا۔وہی شور جو ایبڈو‘ پوڈو‘ پروڈااور احتساب وغیرہ کے نام پرماضی میں مچایا جاتا رہا۔ سو‘ وہی چال بے ڈھنگی سی اب بھی ہے۔گھر کے ایک سیانے نے بڑھک لگائی تو اُس کے بڈی کی سیدھی پونے چار کھرب روپے کی کرپشن سامنے آگئی۔دوسرے بڈی کے ذمہ تین سو ارب روپے نکالے گئے۔کسی نے کہا کہ نہیں مانوں گا تین چار سو ارب روپے اُس کے ذمہ بھی نکل آئے۔غلغلہ بھی بہت مچا کہ بس اب خزانے کو لوٹنے والوں کی خیر نہیں ہے‘ لیکن پہلے کی طرح تمام دعوے ٹائیں ٹائیں فش ہی دکھائی دے رہے ہیں۔اب نانی کو کون یاد دلائے کہ اماں جان ہاتھی کے کھانے کے اور دکھانے کے دانت الگ الگ ہوتے ہیں۔اب قوم بس ہراجلاس میں انقلابی تقریریں سنتی ہے۔سر دھنتی ہے۔نئے پاکستان کی لٹکی گاجر اور عوام کے منہ کے درمیان معلوم نہیں فاصلہ کب کم ہونا شروع ہوگا۔اُلٹا یہ فاصلہ زیادہ ہوتا ہی دکھائی دے رہاہے۔گیس کے بلوں میں اضافے کی صورت میں۔متعدد نئے ٹیکسوں کی شکل میں۔آخر تجاوزات وغیرہ کا خاتمہ بھی تو ضروری تھی ‘پھر بچت کے نام پر سٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے دولاکھ کے قریب ملازمین کو بے روزگار کرنا بھی ضروری تھی۔شاید کسی بہتری کی خاطر پرائیویٹ سیکٹر کو زیروزبر کرنا ضروری تھا۔اب تو ایسے محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ایک کروڑ نوکریوں کی تعداد میں اب کم از کم کچھ لاکھ نوکریوں کا مزید اضافہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ جب تک نوکریوں اور روزگار کا انتظام نہیں ہوتا تب تک از فیاض الحسن چوہان‘ نعیم الحق وغیرہ کی صور ت تفریح کا اچھا انتظام موجود ہے۔ارے ویسے ہی جیسے رومی شہنشاہیت میں یہ انتظام گلیڈی ایٹر اور غلاموں کی صورت میں ہوا کرتا تھا۔عوام ہفتوں ان کھیل تماشوں سے دل بہلاتے اور مسائل سے بھی توجہ ہٹی رہتی۔ارے بھیا کون کمبخت کہتا ہے کہ بدعنوانوں کو مت پکڑو‘ انہیں اُلٹا لٹکا کر اِن کے اندر سے لوٹی ہوئی دولت مت نکالو ‘لیکن پیارے بھائیو...اپنا تمام قوت کف اُڑانے‘آستینیں چڑھانے میں ہی تو صرف نہ کردیں۔یہ باتیں تو بہت ہوگئیں کہ سابقہ حکمرانوں نے بیڑے غرق کردئیے ہیں۔خزانہ خالی کردیا ہے۔بدعنوانی کی انتہا کردی وغیرہ وغیرہ‘ لیکن اب آگے بھی تو چلنا ہے یا نہیں یا پھرنانی سے ہی پیسوں کا تقاضا کرتے رہنا ہے۔
جنگل کے سردار کی بھی سن لیں۔ اُس نے موروں کو نچایا تو خوب‘ لیکن مورنی کا اتہ پتہ وہ بھی نہ اُگلوا سکا۔نانی کا جی تو کب سے چاہ رہا ہے کہ سب بچوں کو گھر سے نکال باہر کرے ‘لیکن پھر خیال آتا ہے کہ بیچارے کہاں مارے مارے پھریں گے۔ بس یہی سوچ کر چپکی ہورہتی ہے؛ البتہ اب غصے اور کمزوری کے باعث اُس کا بدن کانپتا ہی رہتا ہے۔نانی کو اپنے چار پانچ بچوں پر تو بہت ہی غصہ ہے۔سب سے زیادہ غصہ اُسے اپنے سب سے بڑے بچے پر ہے ۔ اُسے سبھی کو دبا کر رکھنے کی عادت پڑچکی ہے ‘جس کے باعث بہت سی مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ لیکن وہ خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔اُس کے بعد نانی جان کو اپنے اُن بچوں پر شدید غصہ ہے‘ جو اُس کے گھر کو اب اپنی ملکیت سمجھنے لگے ہیں۔ نانی بہت سمجھاتی ہے کہ کمبختوگھر میں کس چیز کی کمی ہے ‘جو آپس میں جھگڑتے رہتے ہو؟اللہ نے تمہیں کسی قابل کیا ہے تو اپنے چھوٹے اور کمزور بہن بھائیوں کا تحفظ کرو ۔ اُن کی مدد کرو لیکن تمہارے تو اپنی ہی پیٹ نہیں بھرتے۔اُسے اُمید تھی کہ اُس کے بچے بڑھاپے میں اُس کا سہارا بنیں گے‘ لیکن یہاں اُلٹی ہی گنگا بہتی چلی جارہی ہے۔ اب نانی کو کون سمجھائے کہ نانی جان وہ والدین خوش قسمت ہوتے ہیں‘جن کی اولادیں اُن کی تابعدار اور فرمانبردار ہوتی ہیں۔یہاں تو یہ عالم کہ سب بچوں نے مل کر نانی جان کو ایسا کنگال کردیا ہے کہ اب تو نانی کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بھی محال ہوچکا ہے۔مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق وہ پھر بھی یہ کوشش تو کرتی رہتی ہے کہ کسی طرح اُس کے بچے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوجائیں ۔ ا س کے لیے وہ کبھی ایک طرف مدد کیلئے جھولی پھیلاتی ہے تو کبھی دوسری طرف امداد طلب نگاہوں سے دیکھتی ہے؛حتیٰ کہ اُس نے اپنے ایک قریبی دوست کے نوجوان ولی عہدتک کو بھی اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ آخر اُس کے گھر کی حالت تو دیکھے۔اب اُسے اس بات پر غصہ آرہا ہے کہ گھر کی جو گاڑیاں بیچ بیچ کو تقریباً 20کروڑ روپے کی بچت کی گئی تھی‘ وہ تین سو بڑی آرام دہ گاڑیاں کرائے پر لے کر اُڑا دی گئی ہے۔آٹھ ہوٹلوں میں بک کرائے جانے والے سات سو بچاس کمروں کے اخراجات الگ۔باقی کے اخراجات کا تو کوئی اندازہ سامنے ہی نہیں آسکا‘لیکن یہ سوچ کر وہ پھر چپکی ہورہی ہے کہ شاید کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ لگانا ہی پڑتا ہے۔بی اماں کا خیال تو یہی تھا کہ اب کے گھر کا کنٹرول سنبھالنے والا اُس کا پیارا بچہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا۔کچھ ایسا کرے گا کہ اپنے دعوؤں کی پاسداری کرتے ہوئے ‘وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔تمام کشکول توڑ دے گا‘ لیکن ...!
اِن حالا ت میں تو اب اُسے یہ خیال ستانے لگا ہے کہ اُس کے گھر کی حالت شاید کبھی نہیں سدھر سکے گی۔اُس کے ذہن میں یہ بات بھی اکثر گھومتی رہتی ہے کہ چلو یہ تو مان لیا کہ جب اُس نے یہ گھر بنایا تھا توتب معاشی طور پر بہت سی مشکلات تھیں۔ اتنی زیادہ کہ گھر کے ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے بھی رقم نہیں تھی۔ وہ تو بھلا ہو نواب آف بہاولپورکا کہ جن کی کمال مہربانی سے کچھ رقم ہاتھ لگی تو گھر کے ملازمین نے سکون کا سانس لیا۔ گھرکی روزی روٹی چلی اور سلسلہ کچھ آگے بڑھا۔اُسے وہ وقت بھی یاد آتا رہتا ہے جب کھانے پینے کے لالے پڑ گئے تھے تو امریکہ نے گندم بھجوائی تھی ۔ اظہار تشکر کے طور پر گندم بحری جہازوں سے گوداموں میں منقل کرنے والے اونٹوں کے گلوں میں امریکہ تیرا شکریہ کے کارڈز لٹکانے پڑے تھے۔اپنی پیٹھ پر گندم لادے یہ اونٹ کراچی کی مختلف شاہراہوں سے گزرتے رہے اور گھر کے بچوں کو باور کراتے رہے کہ جب بھی نوالہ منہ میں ڈالنا تو امریکہ کا شکریہ ادا کرنا۔اُسے اب اکثر یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ بھیک مانگنے کا جوسلسلہ گھر بنانے سے شروع ہوا تھا۔ وہ آج بھی اُسی طرح جاری و ساری ہے۔امریکہ تیرا شکریہ سے لے کر سعودی ولی عہد ‘ تھینک یو کہنے کے درمیان اُسے کوئی بھی ایسا دور یاد نہیں پڑتا جب ہم نے دست طلب دراز نہ کیا ہو۔کبھی افغان جنگ کے نام پر ڈالروں کی سمیٹا سمیٹی تو کبھی اللہ کے نام پر ادھار تیل۔ہاں جنرل ایوب خان کے زمانے کی کچھ اچھی یادیں ‘ اُس کے چہرے پر ضرور مسکراہٹ لے آتی ہیں‘ ورنہ تو اب اُس کا جھریوں بھرا چہرا تفکرات میں ہی گھرا رہتا ہے۔وہ سمجھ نہیں پارہی کہ آخر خرابی ہے کہاں۔ اُس کی سوچ جواب دے جاتی ہے کہ آخر اُس کے اپنے ہی بچے کیوں گھر میں ہی نقب لگائے ہوئے ہیں۔کیوں جس تھالی میں کھاتے ہیں ‘ اُسی میں چھید کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔چھوڑو نانی ‘ اتنا بھی کیا سوچنا۔ بس جان لو کہ نانی تیری مور لے گئے‘ باقی جو بچا تھا کالے چور لے گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں