"FBC" (space) message & send to 7575

افضل کوہستانی کی لاعلمی

عملاً نہ سہی کم از کم سن کر تو خوشی محسوس کی ہی جاسکتی ہے کہ انصاف میں تاخیر‘ انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔صرف سن کرہی روح تک سرشار ہوجاتی ہے ۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر اس کہے کی کوئی عملی صورت بھی نظرآنے لگے تو خوشی کا کیا عالم ہوگا؟لیکن افسوس کہ کوئی اُمید بر نہیں آتی‘ کوئی صورت نظر نہیں آتی‘ ورنہ عدالتوں میں سائلین دہائیوں تک رُلتے نہ رہتے۔نقیب اللہ محسود کے قاتل آج بھی آزاد فضاؤں میں سانس نہ لے رہے ہوتے۔وہی نقیب اللہ محسود‘ جسے بہادر بچے نے کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں پار کردیا تھا۔ تحقیقات سے حتمی طور پر یہ ثابت ہوچکا کہ نقیب اللہ محسود کو قتل کیا گیا تھا ‘لیکن پھر بھی ذمہ دار آزاد ہیں۔یاد کرنے کی کوشش کیجئے کہ اس معاملے میں اعلیٰ ترین سطح پر بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔اس کیس میں کراچی سے قبائلی علاقوں تک مظاہرے ہوئے تھے ؛ اگر یہ کہا جائے کہ صحیح معنوں میں پی ٹی ایم کا جنم بھی اسی کیس کے بعد ہوا تھا‘ تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا‘ لیکن پھر بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔کوئی صورت نظرآرہی ہوتی تو 10سالہ گھریلو ملازمہ کے والد کو اپنی بیٹی پر تشدد کے ذمہ دارسرکاری افسر اور اُس کی بیوی کو رضائے الٰہی کیلئے معاف نہ کرنا پڑتا۔وہی طیبہ جو اسلام آباد میں سرکاری افسر کے گھر ملازمت کرتی تھی۔ کسی بات پر ناراض ہوکربیگم صاحبہ نے اس کے جسم پرگرم استری سے داغے جانے سمیت تشدد کے 22نشانات ثبت کیے تھے ۔وہ تو بچی کے والد کو بروقت معلوم ہوگیا کہ بچی کے جسم پر یہ نشانات بچی کے گرنے کی وجہ سے بنے تھے۔ کوئی اُمید برآنے کی اُمید ہوتی تو 2015ء میں دوبھائی غلام رسول اور غلام قادر کیسے پھانسی چڑھ جاتے؟ سپریم کورٹ نے 2016ء میں قتل کے ان دونوں ملزمان کی بے گناہی ثابت ہونے پر ان کی رہائی کا حکم سنایا تو معلوم ہوا کہ انصاف میں تاخیر سے بچنے کیلئے انہیں ایک سال پہلے ہی پھانسی دے دی گئی تھی۔کوئی ڈر خوف ہوتا تو قصور میں بچیوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات پر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤکو کم کرنے کیلئے مدثرکیسے جعلی پولیس مقابلے میں مارا جاتا۔یاد دلائے دیتے ہیں کہ مدثر نامی نوجوان قصور میں رکشہ چلایا کرتا تھا۔ اس شہر میں بچیوں کے ساتھ پے درپے زیادتیوں کے واقعات پیش آنے لگے تو عوامی دباؤ بہت بڑھ گیا۔اس دباؤ کو کم کرنے کیلئے پولیس کی نظرِانتخاب مدثر پر پڑی تو تیزرفتار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اُسے اوپر پہنچا دیا گیا۔وہ تو بعد میں جب زینب کیس میں عمران پکڑا گیا تو حقیقت سامنے آگئی۔ یہ الگ بات کہ مدثر کے لواحقین کو بھی جلد اندازہ ہوگیا کہ پولیس سے یہ سب کچھ غلطی سے ہوگیا تھا ‘ورنہ اُن کی نیت تو نیک تھی۔وہ ایک بھولا بسرا سا کیس اعظم سواتی صاحب کا بھی تھا ‘ معلوم نہیں اب وہ کہاں تک پہنچا ہے ۔ آپ کے علم میں ہو تو مجھ لاعلم کو بھی آگاہ کیجئے گا ۔
مثالیں تو اتنی ہیں کہ گنتے گنتے ‘ گنتی ختم ہوجائے‘ لیکن دیگ میں پکے چاولوں کی حالت جاننے کیلئے چند دانے ہی چکھ لینا کافی سمجھا جاتا ہے ۔افسوس کہ بیچارے افضل کوہستانی کو ایسے واقعات کی بابت کچھ بھی معلوم نہیں تھا‘ورنہ وہ جان چکا ہوتا کہ ریاست پاکستان میں کچھ نہ کچھ توضرور گل سڑ رہا ہے۔ شاید بیچارے کا تعلق دوردراز علاقے سے تھا‘ اس لیے وہ صورت حال کا ٹھیک ادراک نہ کرسکا اورسات مارچ کوشاہراہ قراقرم پر گامی اڈے پر تین افراد کی فائرنگ سے مارا گیا۔وہ ایک عرصے سے دہائیاں دے رہا تھا کہ اللہ کا واسطہ ہے‘ مجھے بچا لو۔ میرے دوبھائیوں کو قتل کیا جاچکا اور مجھے بھی قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ بیچارہ افضل کوہستانی۔زیادہ مت سوچیں‘ ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ معصوم آدمی خیبر پختونخوا کے 7492مربع کلومیٹررقبے پر محیط ضلع کوہستان کا رہنے والا تھا۔ بے آب و گیاہ پہاڑوں اور بنجر زمین پر مشتمل ضلع کوہستان 1976ء میں وجود میں آیا تھا۔یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ تب سے لے کر اب تک اِس ضلع کی حالت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آسکی‘ جغرافیائی طور پر نہ ذہنی طور پر۔ گویااس ضلع کیلئے وقت جیسے آگے بڑھنے کا نام ہی نہ لے رہا ہو۔2012ء میں افضل کوہستانی موبائل فون پر بنی ایک فوٹیج منظرعام پر لایا۔اس فوٹیج میں چارلڑکیاں شادی کے گیت گاتے اور دولڑکے رقص کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا کہ ویڈیو میں دکھائی دینے والی چاروں لڑکیوںکو غیرت کے نام پر قتل کیا جاچکا ہے۔اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد ڈراموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا‘ بالآخرسپریم کورٹ میں یہ ثابت ہوگیا کہ افضل کوہستانی کا دعویٰ درست ہے ‘جس پر سپریم کورٹ نے مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔فوٹیج کے منظرعام پر آنے کے سات سال بعد بالآخر اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔اس سے پہلے افضل کوہستانی اور اُس کے خاندان کو کوہستان میں اُن کے آبائی علاقے پالس سے بے دخل کردیا گیا۔ایک کھاتا پیتا خاندان کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا۔ایک موقع پر اسلام آباد میں اس نوجوان سے ملاقات ہوئی تو یہ مایوسی کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیا ۔ یہ الگ بات کہ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود وہ ذمہ داران کو سزا دلانے کے اپنے عزم پر بہرحال قائم دکھائی دیا۔ اُس کی بعض باتوں نے تو جیسے ہوش ہی اُڑا دئیے۔اُس کا کہنا تھا کہ کوہستان میںغیرت کے نام پر قتل کرنے سے پہلے جرگے ہوتے ہیں۔ ان جرگوں میں جب کوئی فیصلہ ہوجاتا ہے ‘تو پھر کوئی اس پر بات نہیں کرتا۔باپ کے سامنے اُس کے بیٹے کے قتل کا فیصلہ ہوجائے تو بھی وہ خاموشی اختیار کرتا ہے۔ لڑکیوں کے قتل سے پہلے بھی جرگہ ہوا تھا‘ جس میں ان کے قتل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔نوجوان کے مطابق‘ ان لڑکیوں کو گلے کاٹ کر موت کے گھاٹ اُتارا گیا ۔ ایسا کرنے والے کوہمیشہ کی طرح شاید اب بھی یقین تھا کہ کوئی آواز نہیں اُٹھے گی‘ لیکن اس مرتبہ صورت حال قدرے مختلف رہی ۔افضل کوہستانی علاقے کا پہلا شخص بن گیا ‘جس نے اِس کے خلاف آواز اُٹھائی۔اس کی سزا تو بہرحال اُسے بھگتنا ہی تھی۔اس بات کا اندازہ اُسے خود بھی تھا۔ اُس نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ جہاں تک مرضی بھاگ لے بچے گا نہیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ نوجوان کا کہنا تھا کہ اس تمام جدوجہد کے دوران اس کے دوبھائی قتل ہوچکے ہیں۔ انہیں اُن کے باغات اور زمینوں سے بے دخل کیا جاچکا‘ لیکن وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔جان رکھیے کہ صرف مقدمہ درج کرانے کیلئے سات سال کے دوران ایک طویل قانونی جنگ لڑی گئی۔ان سات سال کے دوران آواز اُٹھانے والے کو اور کیا کیا نہیں سہنا پڑا ہوگا؟اس بابت اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے‘ لیکن بات وہی ہے کہ جس تن لاگے ‘ وہ تن جانے۔اب تو ویسے بھی افضل کوہستانی قتل ہوچکا ‘تو اس معاملے کو ٹھپ ہی سمجھا جائے۔ ''ہم غیرت مند ہیں اور غیرت کے تقاضے پورے کرنا جانتے ہیں‘‘ ۔
افضل کوہستانی کو معلوم نہیں کیا سوجھی ‘جو اُس نے علم بغاوت بلند کردیا۔ایسا کرنے سے پہلے اُسے کم از کم ماضی پر ایک نظرتو ڈال ہی لینی چاہیے تھی کہ ایسا کرنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔وہ اچھا خاصا پڑھا لکھا نوجوان تھا ‘لیکن پھر بھی معلوم نہیں وہ کیوں کر اتنی بڑی غلطی کرگیا۔اُسے تو مقدمہ درج کرانے کیلئے جن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ اُسی سے سمجھ لینا چاہیے تھا ‘آگے چل کر اُسے کس انجام سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔شاید وہ اسی لاعلمی میں مارا گیا کہ انصاف میں تاخیر ‘ انصاف سے انکار کے مترادف قرار دئیے جانے کی باتیں اب پرانی ہوچکی ہیں؛اگر تھوڑا سا بھی سمجھ دار ہوتا تو کم از کم اس لاعلمی میں نہ مارا جاتا۔بقول شاعر:
عجب اپنا حال ہوتا جو وصالِ یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں