"FBC" (space) message & send to 7575

ہن تے موجاں ای موجاں

پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کئی دہائیاں گزر چکیں۔ عوامی نمائندے کی حیثیت سے نہ سہی‘پیشہ وارانہ ذمہ داریوںکی ادائیگی کے لیے بھی یہاں آنا ہمیشہ بھلا محسوس ہوتا ہے۔ 1935ء میں مکمل ہونے والی پنجاب اسمبلی کی عمارت کیا خو ب صورت طرز تعمیر کی حامل ہے۔بازل سلونی کے ذہن میں آنے والانقشہ کاغذپراُبھرا تو اُس وقت کے وزیرزراعت پنجاب سردار جوگندر سنگھ نے عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ۔اس کی راہداریوں میں گھومتے پھرتے ایک عجیب سا احساس بھی سائے کی طرح چمٹا رہتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہے ‘جہاں سے اہم ترین صوبے کا انتظام و انصرام چلایا جاتا ہے۔
یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس جگہ چہرے بدلتے رہتے ہیں ‘ لیکن سوائے مارشل لائی ادوار کے اس کا رعب اور دبدبہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔اعتراف کرتا ہوں کہ یہاں آنے کا کچھ کچھ مقصد بااختیار لوگوں سے ملنا بھی ہوتا ہے۔اچھا لگتا ہے جب وزیروں‘ مشیروں اور اراکین اسمبلی سے ملاقات ہوتی ہے۔ایسے ہی سینہ تھوڑا سا چوڑا ہوجاتا ہے کہ بھیا ہمارے بھی بہت تعلقات ہیں۔ وزیرمشیر ہم سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ایسی صورت میں کہ جب سپیکر چوہدری پرویز الٰہی جیسی شخصیت ہوتو یہاں آنے کا مزہ دوآتشہ ہوجاتا ہے۔ڈیرے دار قسم کے انسان‘ نہ کروفر‘نہ تکبر‘ کسی سے بھی ملیں توایسی عاجزی اور انکساری سے کہ ملنے والے کو محسوس بھی نہ ہو کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت انہیں کے دم پر ٹکی ہے۔یہ بھی تسلیم کہ اپنی اس سیاسی حیثیت کو وہ اس مرتبہ بھی خوب سلیقے سے استعمال کررہے ہیں۔یوں بھی صرف اس مرتبہ پر ہی کیاموقوف کہ اس سے پہلے وہ نائب وزیراعظم ‘ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ‘ اپوزیشن رہنما پنجاب اسمبلی اور وزارت ِاعلیٰ پنجاب کا لطف بھی اُٹھا چکے ہیں۔سچی بات تو یہی ہے کہ سیاست میں بھی بھلے مانسی اور عاجزی کے ساتھ ساتھ صلاحیتوں کے استعمال کا ڈھنگ تو کوئی اُن سے سیکھے ۔ ان صلاحیتوں کا مشاہدہ اسمبلی اجلاسوں میں بھی اکثر ہوتا رہتا ہے۔
ایک تگڑی اپوزیشن کی موجودگی میں اسمبلی بزنس چلاناسچ میں کافی مشکل کام ہے ‘جسے جناب ِسپیکر کافی احسن انداز میں نبھا رہے ہیں‘ گویا ان کے طرزِ عمل میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے ۔خیر سیکھنے سکھانے کا عمل تو ہمیشہ ہی چلتا رہتا ہے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جس نے خود کو اس عمل سے الگ کرلیا تو گویا وہ زندگی کی دوڑ سے ہی باہرہوگیا۔شایدسیکھنے سکھانے کے اسی عمل کی بھٹی میں تپ کر ہی اراکین اسمبلی نے بھی یہ سیکھ لیا ہے کہ معاملہ اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کا ہو تو پھر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ہوہی نہیں سکتا کہ نتائج فروٹ فل برآمد نہ ہوں۔یقین نہ آتا ہوتو آپ کی سہولت کے لیے مورخہ 13مارچ2019ء کو پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے ایک بل کا جائزہ لے لیتے ہیں:۔
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے احاطے میں قدم رکھتے ہی محسوس ہوگیا تھا کہ چہل پہل معمول سے کچھ زیادہ ہے۔تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد معمول سے زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔سابق حکمران جماعت کی رکن رابعہ فاروقی سے بات ہوئی تو عقدہ کھلا کہ آج اسمبلی میں اراکین کی تنخواہوںاور مراعات میں اضافے کا بل منظور ہونے والا ہے۔اجلاس شروع ہوا تو وہی ایوان جو ہمیشہ کورم کے مسئلے سے دوچار نظرآتا ہے ‘ اراکین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا‘پھر تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کاصرف 24گھنٹے پہلے اسمبلی میںپیش ہونے والا بل فورا ہی منظوری کے تمام مراحل طے کرگیا۔ تمام جماعتوں کے اراکین کا مثالی اتحاد دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا کہ چلو کسی ایشو پر تو سب متحد ہیں۔مثالی اتحاد زندہ باد۔ لو بھیا‘ 2016ء کے بعدا یک مرتبہ پھر وارے نیارے ہوگئے۔وزیراعلیٰ پنجاب اب 59ہزار کی بجائے 3لاکھ پچاس ہزار روپے ماہانہ وصول کیا کریں گے۔جناب سپیکر کی تنخواہ 59ہزار ماہانہ سے بڑھ کر ایک لاکھ 75 ہزار روپے ہوگئی۔ڈپٹی سپیکر38ہزار روپے کی بجائے 65ہزار روپے وصول کیا کریں گے۔صوبائی وزراء اب صرف 45ہزار روپے ماہانہ پر ہی اکتفا نہیں کریں گے‘ بلکہ اُنہیں ایک لاکھ پچاسی ہزار روپے تنخواہ ملا کرے گی۔اراکین اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 18ہزار روپے سے بڑھا کر80ہزار روپے ہوگئی ہے۔
بلے بلے شاواشاوا ۔ہن تے موجاں ای موجاں۔ اراکین پنجاب اسمبلی کی خوشی میں شریک ہوتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رکن چوہدری شہبازسے بات کی تو وہ بولے: اس اقدام کی بہت ضرورت تھی۔پی ٹی آئی کے اختر ملک نے قرار دیا کہاِس سے اراکین ِاسمبلی کو اپنے معمول کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملے گی۔
پوچھنے کو دل تو بہت چاہا کہ جناب وہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک مسودہ اکتوبر 2018ء میں تیار ہوا تھا ‘ اُس کا کیا بنا؟شنید سنائی گئی تھی کہ اس مسودے کو 25دسمبر 2018ء تک منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا‘ لیکن وہ بیچارہ ابھی تک کہیں منہ چھپائے پڑا ہے۔ شرمندہ ہورہا ہے کہ میرے ذریعے تو عوام اور بلدیاتی نمائندوں کو مزید اختیارات حاصل ہونے تھے‘ لیکن ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوپایا۔مسودے کی تیاری کے دوران اس کی خوبیاں سنتے سنتے کان پک گئے تھے ۔یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے تمام برائیوں کی جڑ ہی رائج بلدیاتی نظام ہے۔ نیا بلدیاتی نظام لاگو ہوتے ہی ہرطرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی‘جناب اُس بل کا کیا ہوا ؟بس مروتا ہی پوچھتے پوچھتے رہ گئے کہ بھئی حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔جب وہ مناسب سمجھے گی ‘ بل منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش کردے گی۔ویسے بھی ابھی عوامی فلاح و بہبود کے دوسرے بہت سے منصوبے چل رہے ہی‘ پہلے وہ مکمل ہوجائیں۔
اس بل کے حوالے سے اس وقت بھی یہ صورت حال ہے کہ یہ ابھی تک مختلف دفاتر کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے۔کبھی چیف سیکرٹری کی طرف سے اعتراض لگ جاتا ہے تو کبھی وزیراعلیٰ آفس‘ اس پر راضی نہیں ہوتا۔پنجاب کے بلدیاتی نمائندے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی مثال بنے نظرآتے ہیں۔نہ کوئی اختیار نہ کوئی وسائل۔ان کے ساتھ پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کھلواڑ کرتی رہی ۔ سپریم کورٹ کے احکامات پر چاروناچار بلدیاتی انتخابات کرا تو دئیے گئے ‘لیکن جب نیت ہی نیک نہ ہو تو نتیجہ بھی اچھا برآمد نہیں ہوتا۔ن لیگ کی حکومت گئی تو اب پی ٹی آئی کی حکومت کے ہاتھ اچھا کھلونا آچکا ہے۔سنتے ہیں کہ سابق وزیر بلدیات علیم خان کے زبانی احکامات پر میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور کی ترقیاتی سکیموں کو روکا جانا شروع کیا گیا تو ابھی تک یہی چال چلن ہے۔یقین تو نہ آیا کہ کہاں عوامی فلاح و بہبود کی علمبردار حکومت اور کہاں یہ عمل۔میئر لاہور مبشر جاوید صاحب سے تصدیق چاہی تو وہ جیسے بھرے پڑے تھے۔ جواب اُنہیں کی زبانی ملاحظہ کیجئے:ہمیں تو یہ اچھوت سمجھتے ہیں‘میں نے شہر کے لیے تقریباً 400ترقیاتی سکیمیں منظوری کے لیے محکمہ بلدیات کو بھیجی ہوئی ہیں‘ سات ماہ گزر گئے ہیں‘ لیکن سیکرٹری بلدیات نے غیرقانونی طور پر ' آئی رپیٹ ‘ غیرقانونی طور پر ان سکیموں کو روکا ہوا ہے‘ آپ خود دیکھ لیں کہ لاہور پھر سے اُجڑتا جارہا ہے‘ لیکن ہمیں کام نہیں کرنے دیا جارہا۔
گویا نیا نظام لایا نہیں جائے گا اور پرانے نظام کو چلنے نہیں دیا جائے گا‘جیسی صورت حال پیدا کردی گئی ہے۔لگے ہاتھوں پنجاب آب اتھارٹی بل کا حشر بھی پڑھ لیجئے؛یہ بل 11مارچ 2019ء اسمبلی میں پیش کیا گیا ‘جو ابھی تک منظوری کے لیے حکومت کی نظر التفات کا منتظر ہے۔مقصد یہ تھا کہ پنجاب آب اتھارٹی قائم کرکے عوام کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ اب یہ بل منظوری کے لیے کب اسمبلی میں پیش ہوتا ہے‘ انتظار فرمائیے۔
ہاہا‘بل کی منظوری کے بعد پیش کی جانے والی ایک قرارداد نے بھی خوب لطف دیا۔مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی حناپرویز کی طرف سے جمع کرائی جانے والی قرارداد کا متن ملاحظہ کیجئے:یہ ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے۔فروری میں صارفین کے لیے مہنگائی کی شرح 56مہینوں کے دوران بلند ترین سطح پر رہی۔اس دوران اشیائے خووونوش میں ساڑھے چار فیصد اضافہ ہوا۔وزیرخزانہ اسد عمرمعاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے اسحاق ڈار سے مشورہ کریں۔حکومت نے مہنگائی کے عفریت کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔عوام اِس وقت سخت مشکل میں ہیں ‘وغیرہ وغیرہ۔
تمام دن کافی دلچسپ سی صورت حال رہی‘ جس سے سب ہی محظوظ ہوتے رہے۔پنجاب اسمبلی میں کئی ایک یادگار دن گزرے ہیں‘ جن میں اراکین اسمبلی کا‘ چاہے مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہی سہی‘ مثالی اتحاد دیکھ کر ایک اور دن مورخہ 13مارچ2019ء کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں