"FBC" (space) message & send to 7575

منسا موسیٰ رہا ‘نہ کوئی اور رہے گا

سورۃ التکاثر آیت نمبرایک تا دو(ترجمہ)''تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے‘ زیادہ سے زیادہ ما ل جمع(سمیٹنے) کرنے کی خواہش(ہوس)نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں‘‘۔ہائے ہائے پھر بھی ابھی تک بچے ہوئے مجھ جیسے جاہلوں نے کون سی نصیحت پکڑ لی۔ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی خود کو برباد کرلیا۔ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی کھیتی اُجاڑ لی اور اُجاڑتے چلے جارہے ہیں۔خود کو پہاڑ جیسی عقلوں کا حامل سمجھتے ہیں ‘لیکن ابدی حقیقتوں سے ناآشنا۔اچھی طرح جانتے ہیں کہ آسمانی حقیقتوں کی پاسداری میں رفعت اور پامالی میں پستی ہے‘ پھر بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔معارف الحدیث میں لکھا حضور اکرم ﷺ کا ایک فرمان آنکھوں کے سامنے ہے ''اگر آدمی کے پاس مال سے بھرے ہوئے دومیدان اور دوجنگل ہوں تو وہ تیسرا چاہے گا‘آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے بھرے گا۔سچ ہے بالکل سچ۔ وجہ خالق کائنات ﷺ کا کہا‘ حق ہی حق ‘ سچ ہی سچ ہے۔کاش! اس سچ کو ہم سمجھ لیں۔جان لیں کہ جس مال ودولت کے پیچھے ہم دیوانے ہورہے ہیں‘‘۔ وہ آگسٹس سیزر کا رہا‘ نہ میر عثما ن علی خان کا ۔ اس مال و دولت کو جلال الدین محمد اکبر اپنے ساتھ لے جاسکا‘ نہ اینڈریو کارنیگی اور نہ ہی منسا موسیٰ۔
ہوتا تھا؛ منسا موسیٰ بھی تاریخ کا ایک بھولا بسرا کردار۔بابت موسیٰ کہا جاتا ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں آج تک منسا موسیٰ سے زیادہ دولت مند انسان کوئی اور نہیں آیا۔آج دنیا کا سب سے دولت مند شخص جیف بیزوس ہے ‘جس کے مال و دولت کی تخمینہ 131ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔اب ذرا دل تھام کر سنئے کہ موسیٰ کی دولت کا تخمینہ ڈالروں کی صورت لگایا جائے‘ تو یہ تقریباً 4سو ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے۔ چلئے پھر شروع ہوجائیے ؛چار سو ارب ڈالرز کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرنے...شاید گنتی ہی ختم ہوجائے گی‘ لیکن نوٹ گنے نہیں جاسکیں گے۔اتنا دولت مند آدمی ہے کون‘ بلکہ یوں کہیے کہ تھا کون؟ اس نے اپنی اتنی دولت کا کیا کیا اور پھر یہ خود کہاں گیا؟
جمہوریہ مالی‘ براعظم افریقہ کا ایک ملک ہے۔تقریباً ساڑھے بارہ لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط اس ملک کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے۔ کبھی آپ نیٹ پر اس ملک کے بارے میں سرچ کریں یا یو ٹیوب پر کوئی دستاویزی فلم دیکھیں تو آپ کو یہاں کا خاص طرز تعمیر بھی دیکھنے کو ملے گا۔بہت ہی الگ تھلگ اور منفرد۔منسا موسیٰ 1312میں اسی خطے کا حکمران رہا۔ کہاں آج کا غریب ترین ملک مالی اور کہاں 13ویں صدی کا ایسا مالی جو دنیا کے آدھے سونے کا مالک تھا۔اللہ اللہ ‘اور یہ دن ہی ہیں ‘جن کی اللہ تعالی لوگوں کے درمیان اُلٹ پھیر کرتے رہتے ہیں۔حکومت منسا کے ہاتھ لگی تو اس نے مزید 24شہروں کو زیرنگیں کیا۔اپنی سلطنت کے مختلف حصوں سے اسے سونے جیسے قدرتی وسائل ملے‘ جن کے باعث یہ امیر ترین شخص بن گیا۔ اتنا امیر کہ آج کا امیر ترین شخص بھی اس سے کوسوں پیچھے ہے۔سنتے ہیں کہ 1324میں اس نے حج کے لیے سفر اختیار کیا ۔ ایسی شان وشوکت سے نکلا کہ کہ پورا افریقہ تو ایک طرف رہا‘ تاجروں کے ذریعے منسا کی مالداری کی شہرت یورپ تک بھی جا پہنچی۔50ہزار فوجی اور12ہزار غلام ساتھ تھے‘ جن میں سے ہرایک نے سونا سروں پر اُٹھا رکھا تھا۔سونے سے لدے ہوئے 100اونٹ الگ تھے۔راستے بھر سونا خیرات کرتا گیا ۔ اتنا سونا خیرات کیا کہ کئی سال تک مصر میں سونے کی قیمتیں گری رہیں۔جمعے کے روز جہاں بھی قیام کرتا وہاں ایک مسجد کی تعمیر شروع کرادیتا۔ایک عالم کو اپنی دولت اور خیرات سے خیرہ کرتا منسا مکے پہنچا اور وہاں بھی خوب خیرات کی۔واپسی پر کچھ عرصے تک شان و شوکت سے حکومت کرتا رہا ‘ پھر بیمار ہوا اور دار فانی سے کوچ کرگیا۔دنیا کا آدھا سونا دنیا میں ہی رہ گیا اور منسا موسی خالی ہاتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا۔سلطنت کا حال بھی مغلیہ سلطنت جیسا ہی ہوا ۔ منسا کے جانے کے بعد سلطنت کا زوال بھی شروع ہوگیا اور پھر کسی اور کے دن پھر گئے...!
ایک عثمان علی خان بھی ہوا کرتے تھے۔ ہندوستان کی سب سے عظیم الشان ریاست حیدرآباد دکن کے نظام۔جب ہندوستان کی بیشتر ریاستوں میں مانند یورپ مٹی اور دھول کا راج ہوا کرتا تھا تب حیدرآباد کی گلیوں میں فانوس جلا کرتے تھے۔ روشنیوں کا شہر‘موتیوں کا شہر‘ تہذیب و تمدن کا شہر۔2لاکھ 23ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا شاندار حیدرآباد دکن۔اس شہر کی اپنی کرنسی‘ اپنی ریلوے‘ اپنے ہوائی اڈے ‘ اپنا ڈاک کا نظام‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال تھے۔جامعہ عثمانیہ برصغیر کی واحد یونیورسٹی تھی ‘جہاں مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔ ریاست کی سالانہ آمدن اُس وقت نو کروڑ روپے سے زائد تھی ۔عثمان علی خان ‘اسی ریاست کے آخری نظام یا یوں کہہ لیں کہ حکمران تھے۔مال و ودلت کا یہ عالم کہ دوسری جنگ عظیم کے باعث دیوالیہ ہوجانے والی برطانوی معیشت کومتعدد مواقع پر سنبھالا دیا۔انگریز جب بھی دست سوال دراز کرتے‘ کچھ نہ کچھ ضرور ملتا۔بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اُردو ادب بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ریاست حیدرآباد کا احسان مند رہے گا ‘ وجہ یہ کہ اُردوادب کا باقاعدہ آغاز اسی ریاست سے ہوا تھا۔سنتے ہیں کہ جب ہندوستان نے حیدرآباد دکن پر قبضہ کیا تھا تو تب نظام کے پاس 230ارب ڈالر کے مساوی کرنسی ‘ہیرے جواہرات اور دیگر اثاثے تھے‘پھر 18ستمبر1948ء کا وہ دن بھی آن پہنچا‘ جب حیدرآباد دکن کی فوج کے سپہ سالا سید احمد نے بھارتی فوج کے جنرل جینتو ناتھ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ کہاں کی عظیم الشان ریاست اور کہاں کے نظام؟ کہاں کے دوسو تیس ارب ڈالر اور کہاں کا تہذیب وتمدن...سب کچھ آن کی آن میں ملیا میٹ ہوگیا۔حید آباد دکن پر مسلمانوں کا ساڑھے چھ سو سالہ دوراقتدار اختتام پذیر ہوگیا تھا۔برسبیل تذکرہ ؛اگر مولانا قاسم رضوی کی بابت بھی کچھ بات ہوجائے‘ تو شاید جذباتیت کے نقصانات مزید بہترطور سے سمجھنے میں کچھ مدد مل سکے۔
جب حیدرآباد دکن کو ہندوستان میں ضم کرنے کی باتیں ہونے لگیں تو بے چینی نے ریاست کے ہرگھر کا دروازہ دیکھ لیا۔ بھارت اور حید ر آباد کی حکومتوں کے درمیان باہمی گفت وشنید سے فیصلہ ہوا کہ آئندہ چھ ماہ تک ریاست کی موجودہ ہیئت برقرار رکھی جائے گی۔ اس دوران بات چیت کے ذریعے کوئی مناسب راستہ نکالا جائے گا‘اسی دوران مولانا قاسم رضوی نامی ایک صاحب نے اتحاد المسلمین کے نام سے ایک تنظیم قائم کرکے جارحیت بہترین دفاع کے فارمولے پر عمل درآمد شروع کردیا۔ اُن کی طرف سے ببانگ ِدہل دہلی پر ریاست کا پرچم لہرانے کی باتیں ہونا شروع ہوگئیں۔اپنی شعلہ بیانی سے عوام کو یقین دلا دیا کہ ہندوستانی فوج اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔نظام کو بھی شیشے میں اُتار لیا ۔ کچھ مقامات پر ریاست کی اکثریتی آبادی پر حملے بھی ہوئے۔ بھارت نے موقع غنیمت جانا اور صرف پانچ دنوں میں لاٹھیوں ‘ تلواروں اور پرانی بندوقوں سے لیس ریاستی فوج کو ٹینکوں اور توپخانے کی مدد سے شکست دے دی۔کہنے کو یہ پولیس ایکشن تھا ‘لیکن یہ شاید دنیا کا واحد پولیس آپریشن تھا‘ جس میں بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ جنرل‘تین میجر جنرلز اور ایک آرمرڈ ڈویژن نے حصہ لیا تھا۔حید آباد دکن پر بھارتی قبضے کے بعد یہاں کی مسلمان آبادی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا‘ اُس کی بابت لکھتے آج بھی قلم سیاہی کی جگہ خون اُگلتا ہے۔ریاست رہی نہ نظام۔ سب برباد ہوگیا۔بقول شاعر؎
خبرِ تحیرِ عشق سن‘ نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو میں رہا‘ نہ تو تو رہا‘ جو رہی سو بے خبری رہی
باادب ‘ باملاحظہ ہوشیار‘ نگاہ روبرو ابو الفتح جلال الدین محمد اکبرتشریف لاتے ہیں۔ہے کوئی‘ جو عالی جاہ کے سامنے کھل کر سانس بھی لے سکے۔آج کا پاکستان‘ بھارت‘ بنگلادیش‘ افغانستان زیرنگین۔ ہیرے جواہرات کے ایسے ذخائر کہ آج تک اس کی دولت کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکا۔ اپنے دورکا یہ امیر ترین شخص آج فتح پور سیکری میں منوں مٹی تلے سو رہا ہے۔ سنتے ہیں کہ مغل خانوادے سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے بہت سے شہزادے شہزادیاں آج بھارت میں انتہائی معمولی کام کرنے پر مجبور ہیں۔جو گزر گئے سو گزرگئے۔ آج بھی بے پناہ دولت بے شمار انسانوں کے پاس ہے۔ راک فیلر‘ اینڈریو کارنیگی ‘ شاہ سلیمان ‘ سلطان آف برونائی اور کس کس کا ذکر کیا جائے‘ایک سے ایک بڑھ کر دولت مند۔ اثاثے اتنے زیادہ کہ شمار کرنا مشکل ‘ پیسہ اتنا کہ گنتے گنتے گنتی ختم ہوجائے پھر بھی دولت اکٹھا کرنے کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ لگی ہوئی ہے جو کبھی ‘ کبھی ختم نہیں ہوگی...تمہیں غفلت میں ڈال رکھا ہے‘ زیادہ سے زیادہ ما ل جمع(سمیٹنے) کرنے کی خواہش(ہوس)نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جادیکھیں۔
منسا موسیٰ کی طرح کچھ نے دیکھ لیں اور کچھ انتظار میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں