"FBC" (space) message & send to 7575

غلطیاں تسلیم کیجئے

جھٹکوں پر جھٹکے اتنی تیزی سے لگ رہے ہیں کہ اوسان خطا ہوئے جاتے ہیں۔ فی الحال تو آس اُمید ہی باقی رہ گئی ہے کہ کہیں سے تو کوئی خیر کی خبر آئے گی۔ کچھ تو اوسان بحال ہوں گے۔کب‘ اس بارے میں تو صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں یا پھرحکومت کے ترجمانوں اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات و اعلانات سے ہی کچھ ہمت حاصل کرنے پراکتفا ہے‘اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ بھی تو نہیں ۔ وزیرخزانہ اسد عمر کا کہنا تو یہ ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے 8اور ورلڈ بینک سے 7.5ارب ڈالر حاصل ہوجائیں گے۔ایشیائی بینک سے بھی ڈالرز ملنے کی نوید سنائی گئی ہے ۔ کہا تو گیا ہے کہ ڈالرز ملنے سے ملکی معیشت میں استحکام آئے گا‘لیکن دل ہے کہ مسلسل دھک دھک ہی کیے جارہا ہے۔ خدشہ یہ لاحق ہے کہ ورلڈ بینک اور ایشیائی بینک سے قرضہ‘ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ہی ملے گا۔اس کے ساتھ تقریباً تین ماہ سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے‘ لیکن تاحال معاملات فائنل نہیں ہوسکے۔ ممکنہ طور پر ابھی اس میں مزید وقت صرف ہوگا‘ کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط ابھی تک پوری نہیں کی جاسکیں۔شاید یہ 10فیصدتک پہنچ جانے والی مہنگائی کو 12فیصد تک لے جانا چاہتا ہے۔شاید آئی ایم ایف پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خواہشمند ہے۔ شاید کہیں نہ کہیں ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافے کی خواہش بھی ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کیلئے ان خواہشات کو پورا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں۔بس کچھ ایسے ہی خدشات ہیں ‘جن کی بنا پر دل دھک دھک کرتا رہتا ہے ۔ بے چینی کی ایسی کیفیت نہ ہوتی اگر بہت زیادہ سبز باغ نہ دکھائے گئے ہوتے۔یہ یقین نہ دلایا گیا ہوتا کہ ایماندارحکومت کے برسراقتدار آنے کے فورا بعد ہی بے ایمانی کے سب نشان مٹ جائیں گے۔ ملکی معیشت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گی۔صوبوں کے گورنرہائوسز ‘ یونیورسٹیز میں تبدیل ہوجائیں گے ‘وغیرہ وغیرہ‘لیکن دعوے تو خیر اب بھی ویسے کے ویسے ہیں‘ جیسے آئندہ صبح کو آنکھ کھلتے ہی سب کچھ یکسر تبدیل ہوچکا ہوگا۔ 
سوفیصد تک پہنچ جانے والی مہنگائی کی بلند ترین شرح کم ہونا شروع ہوچکی ہو گی۔ متوقع طور پر 3.4فیصد تک گر جانے والے شرح نمو میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔یہ خدشہ تو یکسر دم توڑ جائے گا کہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق‘ متوقع طور آئندہ مالی سال کے دوران شرح نمو مزید کمی کے ساتھ صرف 2.7فیصد رہ جائے گی۔ 3300ارب روپے کا قرضہ لینے کی باتیں بھی جھوٹ ثابت ہوجائیں گی ‘گیس کے نرخوں میں مجموعی طور پر 140فیصد کا اضافہ کرنے کا پراپیگنڈا بھی دم توڑ جائے گا اور پٹرول کے نرخ بھی کم ہوجائیں گے۔ اس بات کا تو کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جائے گا کہ ملکی معیشت خدانخواستہ سٹیگ فلیشن کی کیفیت کا شکار ہوجائے گی۔ وہ کیفیت جس میںمعیشت جمود کا شکار ہونے لگتی ہے‘ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کی شرح بہت کم ہوجاتی ہے ۔ کاروبار ختم ہونے لگتے ہیں ۔ترقیاتی کام رک جاتے ہیں۔دراصل آٹھ نو ماہ کے اندر ہی پیدا ہوجانے والی صورت حال نے زندگی کے ہرشعبے کو کچھ جیسے اتھل پتھل کرکے رکھ دیا ہے۔
بظاہر حالات میں جلد بہتری کی کوئی اُمید بھی نظر نہیں آرہی‘ تو پھر خدشات کا سر اُٹھانا لازمی امر ہے۔صورت حال کچھ مزید تکلیف دہ یوں بھی بنتی جارہی ہے کہ معیشت کی دگرگوں حالت کے اثرات اب ہرجگہ ہی شدت سے محسوس کیے جانے لگے ہیں۔عام تاثر یہ پیدا ہورہا ہے کہ ابھی تک حکومت کے ہاتھ کوئی سرا ہی نہیں آرہا‘ بلکہ صرف ٹامک ٹوئیاں ہی ماری جارہی ہیں ۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ قوم کی طرف سے حکومت پرکیے جانے والے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ایک مرتبہ اعتمادٹوٹ جائے تو پھر اُس کا بحال ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔صرف عام آدمی کا ہی نہیں‘ بلکہ اُن کا بھی جو ملک کے اصل حکمران سمجھے جاتے ہیں‘جن سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اُن کی وفاداریاں کسی حکمران کے ساتھ نہیں‘ بلکہ صرف ریاست کے ساتھ ہوتی ہیں ‘لیکن آج وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کہیں لینے کے دینے نہ پر جائیں ‘لہٰذاحکمرانوں کو یقین دلانا پڑا کہ ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔گویا اب حکومت کو درپیش چیلنجز میں اعتماد کی بحالی کے ایک اور چیلنج کا اضافہ ہوچکا ہے۔
الغرض ملکی حالات میں بہتری لانی ہے‘ تو اس کے ساتھ ساتھ ٹوٹے ہوئے اعتماد کو بھی بحال کرنا ہے۔آپ دیکھئے کہ نواز شریف چاہے طبی بنیادوں پر ہی سہی‘ جیل سے باہر آچکے ہیں۔شہباز شریف صاحب کو بھی ریلیف مل چکا ہے۔خود حکومتی حلقوں میں ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی ہی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے‘پھر بھی دعویداروں کی طرف سے بلند بانگ دعووں کا سلسلہ جاری ہے۔آپ شیخ رشید یا کسی بھی دوسرے اہم حکومتی عہدیدار کی باتیں سن لیں‘ایسا ہی محسوس ہوگا کہ جیسے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ۔ ہمارا مجموعی بجٹ تقریباً پانچ ہزار نوسو تیس ارب روپے ہے‘ لیکن صرف آٹھ نو ماہ کے دوران 3ہزار چار سو ارب روپے کا قرض لیا جاچکا ۔ عام آدمی یوٹیلٹی بلز کی ادائی میں مشکل محسوس کررہا ہے۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ اُس کیلئے نوالے کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ترقیاتی کاموں کی مثال لے لیں تو گویا ان کا پہیہ پوری طرح سے جام ہوچکا ہے۔ نیا تو کیا ہوتا ‘ ہوئے کام بھی خراب ہوتے چلے جارہے ہیں؛اگر ان حالات میں بھی کوئی سبز باغ دکھانے کی کوشش کرے‘ تو پھر اسے کیا نام دیا جاسکتا ہے۔یہی ہوگا کہ مسلسل مجروح ہوتے ہوئے اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچے گی۔
ان حالات میں بہت اچھا ہو کہ اگر حکومت اپنی تمام توجہ معیشت کی بحالی پر مرکوز کردے‘ کیونکہ اس کی بہتری سے ہی دوسرے شعبوںمیں بہتری کے راستے نکلیں گے۔ دعووں کی بجائے کچھ عملی طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے‘ ورنہ دعووں اور اعتماد کو مجروح کرنے کا سلسلہ تو جاری ہی ہے ۔یہ شاید ہمارا مجموعی مزاج ہی بن چکا کہ کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اوپر سے لیے نیچے تک ہرکوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے پرفیکٹ آدمی ہے۔غلطی کی جاتی ہے اور پھر بھی خود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کچھ یہی حالت ارباب اختیار کی بھی ہوچکی ہے کہ کوئی بھی کسی بھی سطح پر اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔زمینی حقائق ایک کہانی اور بیانات دوسری کہانی سنا رہے ہیں۔بالکل ماضی میں گزرجانے والے حکمرانوں کی طرح‘جو جاچکے وہ بھی خود کو دنیا کا بہترین آدمی سمجھا کرتے تھے‘ وہ بھی جس نے ملک میں پہلا مارشل لانافذ کرکے ملک کی سمت ہی تبدیل کردی ۔ وہ بھی جس نے ملک کو دولخت کردیا۔وہ بھی جس نے ملکی صنعتوں کو قومیا کر سب کچھ ملیا میٹ کردیا۔ وہ بھی جس نے منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھا کر خود کو ملک کا صدر منتخب کرالیا۔وہ بھی جو اپنے ہی ہموطنوں کو پانچ پانچ ہزار ڈالر میں بیچتا رہا ۔ وہ بھی جس پر آج یہ الزام ہے کہ اُس نے اربوں ڈالر بیرون ملک منتقل کیے اور وہ بھی جس نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی قوم سے غلط بیانی کی۔جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایسے وعدے کیے‘ جو پورے ہوسکتے تھے نہ کیے جاسکتے تھے۔شاید اسی لیے تو ایسا کرنے والوں کو اب عوام کے اعتماد کی محرومی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ سوچئے تو آئندہ کے لیے کسی پر اعتماد کرنا کتنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جو کچھ بتایا گیا ‘ جو کچھ دکھایا گیا‘ سب اُس کے اُلٹ ہوا۔
گویا دانستہ یا نادانستہ طور پر کہیں نہ کہیں تو کچھ غلط کیا گیا ہے؛ اگر ایسا ہے تو پھر اسے تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہیے۔ جس دن ہم نے خود میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی ہمت پیدا کرلی‘ سفر کافی آسان اور اعتماد کی بحالی کا عمل بھی شروع ہوجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں