"FBC" (space) message & send to 7575

بلدیات کی ڈگڈگی

منگل کے روز ‘ مظاہروں کیلئے معروف لاہور کا چیئرنگ کراس چوک ایک مرتبہ پھر احتجاج کی زد میں تھا۔پنجاب اسمبلی کی عمارت کے عین سامنے واقع یہ چوک ساڈا حق ایتھے رکھ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔بظاہر تو کچھ بھی مختلف نہیں تھا کہ اس چوک پر مظاہرے تو اب معمول ہی بن چکے ۔آئے روز کوئی نہ کوئی ٹولی یہاں اپنے مطالبات لیے آن موجود ہوتی ہے۔ شاید یہاں آنے والوں کو یہ اُمید ہوتی ہے کہ اُن کی آواز آسانی سے سامنے ہی واقع پنجاب اسمبلی کے ایوان تک پہنچ سکتی ہے۔یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ جیسے ہی اُن کی آواز اسمبلی کے ایوان تک پہنچے گی تو اُن کے مسائل پلک جھپکتے میں حل ہوجائیں گے۔مطالبات جلد منوانے کے لیے کبھی کبھی دھکم پیل کا سہارا بھی لیا جاتا ہے ۔اکثر اوقات مظاہرین کی طرف سے پنجاب اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔پولیس اسے ناکام بناتی ہے‘ جس کے بعد عام طور پر مظاہرین کو مطالبات جلدحل کردئیے جانے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے اور وہ ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے دھرنے سمیت کچھ دھرنے کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے ۔کچھ عرصہ قبل یہ خواتین اپنے سروس سٹرکچر میں بہتری اور تنخواہوں میں اضافے کیلئے جو یہاں بیٹھیں تو تب تک نہیں اُٹھیں جب تک مطالبات تسلیم کیے جانے کا نوٹیفیکیشن ہاتھ نہیں آگیا۔یہ سب کچھ یہاں بہت تواتر سے چلتا رہتا ہے‘ لیکن منگل کے روز کی صورت حال قدرے مختلف تھی۔ اس مرتبہ وہ احباب چیئرنگ کراس پر میدان سجائے بیٹھے تھے ‘جو خود عوامی مسائل حل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
پنجاب بھر سے آئے ہوئے بلدیاتی نمائندے میئر لاہور مبشر جاوید کی قیادت میں کندھے سے کندھا ملائے کھڑے اپنے مطالبات کے حق میں مسلسل نعرے بازی میں مصروف تھے۔ن لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی بھی اظہار یکجہتی کیلئے پہنچے‘ گزشتہ دور حکومت کے دوران پنجاب حکومت کے ترجمان رہنے والے ملک احمدخان بہت جوش و خروش سے مجوز ہ نئے بلدیاتی نظام کے لتے لے رہے تھے۔ قرار دیا کہ موجودہ حکومت بلدیاتی اداروں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کررہی ہے۔وہ چاہتی ہی نہیں کہ بلدیاتی ادارے مضبوط ہوں بلکہ وہ نئے نظام کے تحت بلدیاتی اداروں کی افادیت ختم کرنا چاہتی ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح کے خیالات کا اظہار دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں کی طرف سے بھی کیا جاتا رہا۔حیرت انگیز اور سیاسی تقاضوں کے عین مطابق یہ سب کچھ کہنے والوں نے سوچنے تک کی زحمت گوارہ نہ کی کہ اُن کی حکومت اپنے دور میں ان اداروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی رہی؟
کہنے کوبلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیادی اکائی‘ لیکن زک بھی ہمیشہ جمہوری ادوار میں ہی اُٹھائی۔بیشتر جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بلدیاتی ادارے یا تو بحال نہ ہوسکے اور اگر ہوئے بھی تو عضو معطل ہی رہے۔ماضی اور ملک کے دوسرے صوبوں کے ایک طرف رکھتے ہوئے‘ اگر پنجاب کے موجودہ بلدیاتی اداروں اور اِن کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔باآسانی معلوم ہوجائے گا کہ جمہوریت کے دعویدار جمہوریت کی بنیادی اکائی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت ہمیشہ یہ کہتی رہی کہ برسراقتدارآنے کے بعد بلدیاتی اداروں کی بحالی اُس کی پہلی ترجیح ہوگی۔ 2013ء میں ا قتدار کا ہما سرپر بیٹھا تو وہ جیسے اس وعدے کو یکسر بھول گئی۔خدشہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تو بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز بھی دینے پڑیں گے۔ انہیں فنڈز دئیے گئے تو اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی ناراض ہوں گے۔ عوامی دباؤ بڑھا تو نیم دلی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کا ڈول تو ڈالا گیا ‘لیکن بدنیتی شروع سے ہی واضح طور پر محسوس ہوتی رہی۔بالآخر سپریم کورٹ کے احکامات پر نیم دلی کے انتخابات تو کراد ئیے گئے ‘لیکن نمائندوں کو اختیارات سے دور ہی رکھا گیا۔ کم از کم دومواقع پر انتخابات کا منعقد کرانے کا اعلان کرکے واپس لے لیا گیا۔ان میں سے ایک موقع 2014ء میں بھی آیا جب پنجاب بھر سے تقریباً پونے دولاکھ اُمیدوار میدان میں اُترے۔یونین کونسل کے چیئرمین سے 10ہزار اور کونسلر کے اُمیدوار سے 2ہزار روپے پارٹی فیس وصول کی گئی۔جب تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں تو 180ڈگری کا موڑ لیتے ہوئے انتخابات ملتوی کردئیے گئے۔ اُمیدوار لاکھوں میں تھے تو انتخابی فیس بھی کروڑوں روپے میں اکٹھی ہوئی جو سیاسی جماعتوں کی جیب میں گئی۔ سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا‘ کیونکہ پنجاب میں سب سے زیادہ افراد اسی جماعت کے ٹکٹ کے اُمیدوار تھے۔اس حکومتی اقدام نے ہرطرف مایوسی ہی پھیلا دی اور واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ اگر انتخابات کرا بھی دئیے گئے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات سے دور ہی رکھا جائے گا۔بالآخر 2015ء میں انتخابات منعقد کراہی دئیے گئے ۔پنجاب کے بیشتر بلدیاتی اداروں میں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار اوں کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ بلدیاتی نمائندے منتخب ہونے والوں کا جوش وخروش دیدنی تھا‘ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کے ہاتھ میں ڈگڈگی تھما دی گئی ہے ۔ اسے بجاتے رہو اوراسی میں خوش رہو کہ تم بلدیاتی نمائندے منتخب ہوچکے ہو‘پھر جب تک مسلم لیگ ن کی حکومت رہی یہ نمائندے حصول اختیارات و فنڈز کے لیے اپنی ہی جماعت کے بڑوں کے سامنے یہ ڈگڈگی بجاتے رہے ۔کبھی ماڈل ٹاؤن جا کر مظاہرہ کیا جاتا تو کبھی پنجاب اسمبلی کے سامنے مظاہرے ہوتے رہے۔ متعدد بار ان کی طرف سے استعفے کی دھمکیاں بھی سامنے آئیں ‘لیکن اختیارات ملنے تھے نہ ملے اور پھر مسلم لیگ ن کی حکومت کا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
2018ء کے عام انتخابات کی مہم کا آغاز ہوا تو تحریک انصاف نے بھی برسراقتدار آنے کی صورت میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنایاجانا اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ انتخابی مہم کے دوران مسلسل گردان کی جاتی رہی کہ بلدیاتی اداروں کو صحیح معنوں میں عوامی خدمت کے مراکز میں تبدیل کردیا جائے گا ۔انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی تو دوسرے بہت سے وعدوں کی طرح اس وعدے کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔اختیارات و فنڈز نہ ملنے پر مسلم لیگ کے خلاف سراپا احتجاج بنے رہنے والے بلدیاتی نمائندے اب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے۔نمائندوں کے احتجاج کو پس پشت ڈالتے ہوئے حکومت نے موجودہ بلدیاتی اداروں کا بوریا بستر ہی لپیٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔نئے بلدیاتی نظام کا حتمی مسودہ مرتب کیا جاچکا۔ممکنہ طور پر رواں سال ستمبر میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا ارادہ بھی ہے‘ جس کیلئے ابھی سے تقریباً 4ارب روپے مختص کردئیے گئے ہیں۔ انتخابات کے لیے فنڈز مختص کردئیے گئے‘ لیکن بلدیاتی نمائندوں کو ابھی تک ایک روپے کے فنڈز بھی جاری نہیں کیے گئے۔ اسے موجودہ بلدیاتی نمائندوں کی بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ 2015ء سے لے کر اب تک وہ اپنے اختیارات ہی حاصل نہیں کرسکے۔لیگیوں نے ان کا ہاتھ تھاما‘ نہ موجودہ حکومت اِن کے سر پر دست شفقت رکھنے پر تیار ہے۔
منگل کو لاہور کے چیئرنگ کراس چوک پر بلدیاتی نمائندے اپنے اسی دکھ کا اظہار کرنے کیلئے جمع تھے۔ کیا یہ اچھی بات نہ ہوتی کہ موجودہ اداروں کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی۔جو فنڈز انتخابات کیلئے مختص کیے گئے ہیں ‘وہ گلی محلوں میں کاموں کیلئے بلدیاتی نمائندوں کو دئیے جاتے ۔لوگ حکومت کی جان کو رو رہے ہیں۔ گلی محلوں کی بات تو ایک طرف رہنے دیں ‘ بڑی شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہیں۔2015ء میں منتخب ہونے والے تو بلدیاتی نمائندوں کا تو اب گھروں کا جانا تقریبا طے ہوچکا ‘ لیکن نئے آنے والوں کو بھی شاید ڈگڈگی بجانے پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں