"FBC" (space) message & send to 7575

دل دکھتا ہے

ممکن نہیں کہ حقیقت کا ادراک کیے بغیراصلاح کے عمل کا آغاز ہوسکے۔ناممکن ہے کہ مخصوص عینک سے معاملات کو دیکھا جائے اور بہتری کی توقع بھی رکھی جائے۔حقیقت سے کیوں کر نظریں چرائی جاسکتی ہیں؟دل دکھتا ہے کہ آج‘ اسی نکتے کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا جارہا ہے۔حقائق سے نظریں چرانے اور غلط بیانی کی جڑیں مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ قصور اپنا ہی ہو تو پھر کسی سے کیسا گلہ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
عام آدمی کو روٹی چاہیے اور کاروبارمملکت چلانے کے لیے پیسہ درکار ہے ۔ صورت حال ایسی کہ عام آدمی کے منہ اور نوالے کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جارہا ہے‘ تو حکومت کے لیے کاروبارمملکت چلانا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔سنتے ہیں کہ آئندہ سال کوئی20ارب ڈالر کے قرضے اوران کا سود واپس کرنا ہے ۔یہ رقم کہاں سے آئے گی؟ حکومت ‘اسی فکر میں دبلی ہورہی ہے ۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے غریب اور متوسط طبقات کی جدوجہد تیز تر ہوتی جارہی ہے۔آنے والے دنوں میں اس جدوجہد میں مزید تیزی آئے گی۔اس کے لیے ہمیں ابھی سے کمر ہمت مزید کس لینی چاہیے اور اپنے حوصلوں کو مضبوط کرلینا چاہیے۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے۔ حکومت کی طرف سے مسلسل دہائی دی جارہی ہے کہ خزانہ خالی ہے۔آنے والا وقت مزید سخت ہوگا ۔ آئی ایم ایف سے قرض لیے بنا ‘بات بنے گی نہیں اور جو قرض ملے گا تو پھر دینے والے کی شرائط بھی ماننا ہوں گی۔بیل آؤٹ پیکیج مل گیا تو 6سے 8ارب ڈالر کی آمد کا آغاز ہوجائے گا۔اس کے ساتھ ہی ممکنہ طور پر پہلے سے 10فیصد تک پہنچ جانے والی مہنگائی میں مزید اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔اس کے کچھ اشارے تو مسلسل مل بھی رہے ہیں۔ممکن ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔مختلف مدات میں دی جانے والی سبسڈی میں مزید کمی کر دی جائے۔فکر لاحق ہے کہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو معاملات زندگی کیوں کر آگے بڑھ پائیں گے۔مہنگائی کے رونے دھونے میں تو پوری قوم ہی یک زبان ہوکر نوحہ کناں ہے‘ لیکن؎
عکس کچھ نہ بدلے گا آئینوں کو دھونے سے
آذری نہیں آتی پتھروں پہ رونے سے
مہنگائی کو ایک طرف رکھتے ہیں۔کسی اور حوالے سے بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آتی۔بس یہ سنتے ہیں کہ ہمارا ملک اہم ترین خطے میں واقع ہے ۔ یہ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے‘ وغیرہ وغیرہ‘ لیکن معلوم نہیں ان خوابوں کی تعبیر کیوں نہیں مل پاتی۔دنیا کے سامنے ہم ترلے لیتے رہتے ہیں کہ خدارا ہماری باتوںکو تسلیم کرو‘ لیکن مجال ہے کسی کے کان پر جوں رینگتی ہو۔نئی ویزہ پالیسی کے تحت ملک کو دنیا بھر کے لیے کھول دیا گیا ہے‘ لیکن یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی کہ کوئی یہاں کیوں آئے گا؟گندگی‘ ٹریفک کا اژدھام یا پھر ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھنے کے لیے آئے گا؟وہ وقت بیتے تو زمانہ ہوگیا جب ہمارے ہاں بھی ثقافتی سرگرمیاں عروج پر ہوا کرتی تھیں۔ بنیاد پرستی نام کی کسی چڑیا کو یہاں پر مارنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اختلافات ضرورتھے‘ لیکن اُسی حد تک جس حد تک ہونے چاہیں تھے۔دل دکھتا ہے‘ یہ لکھتے ہوئے کہ کہنے کو ہم مہرگڑھ‘ موئنجوداڑو اور ہڑپہ جیسی قدیم ترین تہذیبوں کے مالک‘کہنے کو ہمارے شمالی علاقہ جات جنت نظیرتو بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے مقدس بھی‘ کہنے کو ہمارے پاس کٹاس راج بھی ہے‘ جہاں جانا ہرہندو کی اولین خواہشات میں سے ایک خواہش ہوتی ہے‘ لیکن عملًا انہیں دیکھنے کے لیے مقامی لوگ بھی جانے سے گھبراتے ہیں۔ غیرملکی اپنی جانوں کا رسک کیوں لیں گے۔آج سے تقریباً تین سال پہلے ضلع چکوال میں واقع کٹاس راج جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر دل پر آرے چل گئے کہ یہاں واقع دنیا کے قدیم ترین آثار قدیمہ کے عین بیچوں بیچ سے سڑک نکال دی گئی تھی۔ اس سڑک پر دن رات ٹریفک رواں دواں رہتی ہے اور آثار قدیمہ بے بسی کی تصویر بنے نظرآتے ہیں۔دراصل یہ شعبہ کبھی ہماری ترجیحات میں شامل رہا ہی نہیں۔آجا کے 1970ء کی دہائی کو اس حوالے سے کسی حد بہتر قرار دیا جاسکتا ہے جب سیاحت کے لیے بڑی تعداد میں غیرملکی یہاں آیا کرتے تھے۔ اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میںجب کبھی شالامار باغ جانا ہوتا تو وہاں غیرملکی سیاحوں کے جتھوں کے جتھے ملتے تھے ۔ اپنی جیبوں میں انہوں نے چھوٹی چھوٹی چاکلیٹس اور سویٹس رکھی ہوتی تھیں۔جو بھی بچے اُن کے ساتھ تصاویر بنواتے تو اُنہیں چاکلیٹس اور سویٹس ملتیں۔یہاں سے یہ سیاح واہگہ بارڈر کراس کرکے بھارت چلے جاتے۔جی ٹی روڈ پر کثرت سے غیرملکی سیاحوں کی گاڑیاں دیکھنے کو ملا کرتی تھیں‘پھرہم دوسروں کی جنگ کو گھسیٹ کر اپنے ملک میں لے آئے اور سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا۔وہ حالات رہے نہ رونقیں۔؎
پیاسی دھرتی جلتی ہے‘ سوکھ گئے بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں ‘ نگری نگری کال پڑا
دل دکھتا ہے‘ کڑھتا ہے۔کیا یہ ہمارا ہی پاکستان ہے؟ جہاں اب سوائے جھوٹ ‘ اقربا پروری رشوت اور بدعنوانی کے کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ہاتھ پھیلانے کا جو سلسلہ ضیا دور میں شروع ہوا تو پھر ہمارے ہاتھ سے کشکول کبھی چھوٹ ہی نہیں سکا۔ نگرنگر ہم ہاتھ پھیلائے پھرتے ہیں ۔ڈالروں کے عوض اپنے ہی شہریوں کو بیچتے پھرتے ہیں‘ پھر اگر کوئی ہماری عزت نہ کرے تو کسی سے کیا گلہ۔دل دکھتا ہے کہ قوم کی عزت گئی تو حکمران بھی بے وقعت ہوکر رہ گئے۔ وزیراعظم عمران خا ن کے دورہ ٔچین کی ایک تصویر دیکھی تو پھر یہ کئی روز تک نظروں کے سامنے سے ہٹی نہیں۔ وزیر اعظم چار روزہ حالیہ دورے پر چین کے دارالحکومت بیجنگ پہنچے تو شہر کی میونسپل کونسل کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اُن کا استقبال کیا۔ بے اختیار نظروںمیں 2018ء کے وہ دن گھومنے لگے جب دشمن ملک کے مکاراور معلوم نہیں کیا کیا۔نریندرمودی دورۂ چین پر گئے تھے۔ان کے شاندار استقبال کی تصاویر اور خبروں نے عالمی میڈیا میں پذیرائی حاصل کی تھی۔ نریندرمودی ‘ بھارت اور چین کے درمیان ہونے والے ڈوکلام تنازعے کے بعد چین پہنچے تھے‘ لیکن اس کے باوجود ان کا بہت اچھا استقبال کیا گیا۔ دوسری طرف ہمارے وزیراعظم چین گئے تو ان کے استقبال کے انداز نے سبھی کا دل دکھایا۔ان سے پہلے جب نواز شریف چین گئے تھے تو اُن کا استقبال بھی کچھ اس ڈھنگ سے کیا گیا تھا۔اس حوالے سے یہ ضرورکہا جاسکتا ہے کہ ہر ملک کا اپنا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور وہ اسی کے مطابق غیرملکی مہمانوں کا استقبال کرتا ہے ‘تو کیا ہمارا بھی ایسا کوئی طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ہیں کہ صرف پیسے کے لیے ایک ولی عہد کا استقبال کرنے کے لیے وزیراعظم کو ائیرپورٹ پر بھیج دیتے ہیں۔
دل دکھتا ہے یہ دیکھ کر بھی کہ حالات کا ادراک کرنے کی بجائے ہماری آپس کی رنجشوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ سیاستدان و حکمران باہم دست و گریباں ہیں تو عوام کون سا اُن سے پیچھے ہیں۔بات بات پر ایک دوسرے کا گلا کاٹ دینا‘ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا‘ قبضے کرنا اور کچھ نہیں تو گالم گلوچ کرنا۔ کوئی تو اچھی عادت ہو ‘جس کی مثال دی جاسکے۔ قدیم عرب کا نقشہ مولانا حالیؔ نے کچھ یوں بیان کیا تھا۔؎
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا‘ کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا‘کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
ہم اپنے حالات دیکھیں تو قدیم عرب کے اس نقشے میں شاید آج بھی قطع و برید کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔تبدیلی سرکار کے بعد دل میں ایک اُمنگ پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب صورت حال میں بہتری آنا شروع ہوجائے گی‘ شاید تھانوں میں جانے والے سائلین کا کام بغیر رشوت کے ہی ہونے لگے گا۔پٹواری سے فرد کا حصول بہت آسان ہوجائے گا۔شاید اب کسی فائل کو پہئے نہیں لگانے پڑیں گے ‘ شاید کسی جج کے ریڈرکی مٹھی گرم کیے بغیر ہی مقدمے کی سماعت ہوسکے گی ‘ لیکن ہوا یہ کہ ہر کام کے ریٹ دگنے ہوچکے ہیں ۔ پہلے جو فرد پانچ ہزار میں مل جایا کرتی تھی‘ اب اُس کا ریٹ بیس ہزار تک پہنچ چکا ہے۔بہانہ یہ کہ بہت سختی ہوگئی ہے۔ آپ بھی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا یہ سب باتیں دل دکھانے والی نہیں ہیں؟ہم جو ہروقت حکمرانوں کو کوستے رہتے ہیں ‘ کیا پہلے ہمیں خود کی اصلاح نہیں کر نی چاہیے ‘لیکن ہم کریں گے نہیں۔ ہمارا صرف ایک ہی کام ہے کسی بھی صورت اپنے مفادات کا تحفظ ۔اس کے لیے صرف حکمرانوں کو ہی موردِ الزام ٹہرانا چھوڑ دینا چاہیے ‘ کچھ اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔؎
دل دکھتا ہے‘ آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بن میں آگ جلے‘ دل دکھتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں