"FBC" (space) message & send to 7575

شکر ہے ہم بچ گئے!

پاکستان کے لگ بھگ ایک چوتھائی رقبے کے برابرایک ملک گیانابھی دنیا میں پایا جاتا ہے۔ یہ جنوبی افریقہ کا نیم خودمختارسا ملک ہے۔ نیم خود مختار اس لیے کہ یہاں بھی امریکہ بہادر کاکافی اثرورسوخ ہے ‘جس کے پنجے اس ملک میں کافی گہرے ہیں۔ ملک میں ہرجگہ غربت کے جا بجا آثار دکھائی دیتے ہیں۔سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت جارج ٹاؤن میں بھی غربت کے نظارے کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں‘ لیکن اب یہ سب کچھ قصہ ٔپارینہ بننے والا ہے۔ وجہ‘ اس کی یہ ہے کہ چند ہی روز قبل اس چھوٹے سے غریب ملک کے سمندر سے پانچ اعشاریہ پانچ ارب بیرل پر مشتمل تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔بس ‘قریباً پانچ ‘ چھ سال کی بات ہے کہ اس کی جی ڈی پی 3سوفیصد سے 1000فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ بس‘ پھر اُس کے بعد تو موجاں ای موجاں‘ کیونکہ یہ ممکنہ طور پر یہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہوجائے گا۔
گیاناوہ ملک ہے‘جس نے اپنے قیام کے بعد سے آج تک غربت ہی غربت دیکھی ہے ‘ لیکن اب امیر ترین ملک بننے جارہا ہے۔یہ الگ بات کہ یہ سب کچھ سامنے آنے کے بعد سے وہاں کرپشن میں اضافے کی شکایات بھی تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔وہی سب کچھ جوتیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔ اس ملک میں پہلے بھی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے‘ لیکن اب دولت کی ریل پیل ہونے سے پہلے ہی زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کیلئے کمرکسی جارہی ہے۔مطلب یہ کہ ممکنہ طور پر اس ملک کیلئے جنوبی امریکہ کے ایک دوسرے ملک وینزویلا جیسی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ایسا ملک ہے ‘جہاں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں ۔ اندازہ ہے کہ یہاں تیل کے کنوؤں میں کوئی 3لاکھ 9سو ملین بیرل تیل محفوظ ہے۔ یہ تیل سعودی عرب کے ذخائر سے بھی زیادہ ہے‘ لیکن حالت یہ ہے کہ یہاں کے باشندے دووقت کی روٹی کے لیے بھی ترستے ہیں۔قریباً 3کروڑ نفوس پر مشتمل اس ملک کے بیشتر باشندے روزی روٹی کیلئے قریبی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ کام کاج کی تلاش میں جانے والوں میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہوتی ہے۔ حالت اُس وقت سے بھی زیادہ ابتر ہوچکی ‘جو تیل کے ذخائر ملنے سے پہلے تھی۔بس ‘خدشہ یہی ہے کہ کہیں گیانا بھی اسی صورت حال کا شکار نہ ہوجائے۔ نائیجریا کی مثال بھی تو سب کے سامنے ہیں ‘جہاں تیل کے وسیع ذخائر شاید وہاں کے باشندے ایک دوسرے کو جلانے کیلئے ہی استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال یہ سب باتیں اپنی جگہ‘ لیکن تیل کے اتنے وسیع ذخائر کا ملنا تو اس ملک کیلئے یقینا بہت اچھی خبر ہے ۔ یہاں کی حکومت نے ایک اور اچھا کام کیا‘ وہ یہ کہ جب سمندر میں ڈرلنگ کا کام شروع ہوا تواس کی کوئی بہت زیادہ تشہیر نہیں کی گئی‘پھر جب تک تیل کے ذخائر کے ملنے کے مکمل طور تصدیق نہ ہوگئی ‘ تب تک عوام کو سبز باغوں سے دور ہی رکھا گیا ‘ ورنہ تیل نہ ملنے کی صورت میں ان بیچاروں کی حالت بھی ہماری جیسی ہوتی۔
بیچاروں کے دل ویسے ہی ٹوٹتے جیسے کیکڑا ون مشن کی ناکامی کے بعدہمارے دل جو ٹوٹے ہیں‘ تو ابھی تک جڑنے میں نہیں آرہے۔یہ غالباً 18مئی کی بات ہے‘ جب وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ گہرے سمندر میں کنواں کھودا جارہا ہے‘ ہوسکتا ہے‘ اتنا بڑا ذخیرہ مل جائے کہ کم از کم نصف صدی تک تو گیس درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اتنی بڑی خبر سن کر دل بلیوں اُچھلنے لگا۔واہ رے قسمت کچھ ہاتھ نہ لگ سکا اور پانچ ہزار میٹر سے زائد ڈرلنگ کرنے کے بعد کام بند کردیا گیا‘ کیونکہ یہاں سے کچھ بھی ہاتھ لگنے کی تمام توقعات ختم ہوگئی ہیں۔ ایک بات اُس وقت بھی سمجھ میں نہیںآئی تھی اور آج بھی حل طلب ہے کہ ڈرلنگ کرنے والی کمپنیوںکی طرف سے تو ایسی کوئی توقع ظاہر نہیں کی گئی تھی تو پھر وزیراعظم کو یہ اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ایسا اعلان‘ جس نے پوری قوم کو باغ و بہار کردیا تھا۔شاید تیل مل جانے کے مفروضے کی بنا پر ہی وفاقی وزیر فیصل واڈا نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں بڑے وثوق سے کہا تھا کہ بس چند ہی روز کی بات ہے ‘پھر نوکریاں بہت ہوں گی ‘لیکن نوکریوں کے خواہشمند تلاش کرنے سے بھی نہیں مل پائیں گے۔ ایسا نہ ہوا تو بے شک میری تکہ بوٹی کردیجئے گا۔ اتنی بڑی بڑی باتیں سن کر عوام بیچارے وہ دکھ بھولنا شروع ہوگئے تھے‘ جو اُنہیں سابق وزیراعظم کے ایسے ہی کچھ اعلانات نے پہنچائے تھے۔
یہ غالباً 2015ء کی بات ہے‘ جب اعلان ہوا کہ چینوٹ کے قریب رجوعہ سادات میں سونے اور تانبے کے اتنے بڑے ذخائر ملے ہیں‘ جو کم از کم دوہزار مربع میل کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بس‘ ان دھاتوں کو نکالنے کا عمل شروع ہونے کی دیر ہے‘ پھر ملک کے تمام مسائل راتوں رات حل ہوجائیں گے۔ عوام تو بیچارے لڈیاں ڈالنے لگے تھے کہ بس اب اچھا وقت آیا ہی چاہتا ہے ‘لیکن تب بھی ایسے ہی گھاؤ برداشت کرنا پڑے تھے‘ جو تیل نہ ملنے کا اعلان سن کر لگے۔ سنتے ہیں کہ ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے کے حکمرانوں کی طرف سے بھی گاہے بگاہے ایسے اعلانات سامنے آتے رہے تھے‘ لیکن نتیجہ ان کا بھی وہی نکلتا‘ جو کیکڑا ون نے نکالا۔اس سے اتنا ضرور ہوا کہ چاہے وقتی طور پر ہی سہی عوام بیچارے خوش تو ہوئے۔ جب تک خواب ٹوٹ نہیں گئے‘ تب تک بہرحال دل بلیوں اُچھلتے رہے۔ہمارے ہاں یوں بھی اچھی خبروں کا ہمیشہ قحط ہی رہا ہے تو چلیں ‘دل تو بہلتا رہا‘ خواب دیکھتے ہوئے کچھ وقت تو اچھا گزرا؛اگر یہ سب کچھ بھی نہ ہو تو زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوجائے؟ 
ایسی مثالوں پر کرنل محمد خان مرحوم کی تحریریں بے ساختہ یاد آتی ہیں ۔ اپنی ایک کتاب ''بجنگ آمد‘‘ کا ایک اقتباس آپ کی نذر ہے ''جب فوج میں کمیشن کیلئے سلیکٹ ہونے کے بعد تربیت کیلئے اکیڈمی پہنچے تو وہاں انگریز کیڈٹس کو بھی بڑی تعداد میں موجود پایا‘ اب ہوتا یہ تھا کہ جب اُستاد کوئی سوال پوچھتا‘اگر تو ہمیں اُس کا جواب نہ آتا تو ہم اِدھر اُدھر منہ چھپاتے پھرتے تھے اور اگر جواب آتا ہوتا تو مختلف حرکات کرکے اُستاد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کرتے تھے‘ دوسری طرف انگریز کیڈٹس کا یہ حال تھا کہ جب اُستاد اُن سے یہ سوال پوچھتا تو وہ پہلے اطمینان سے اپنا پائپ صاف کرتے‘ ایک آدھ کش لگاتے اور اگر جواب آتا ہوتا تو جواب دیتے‘ ورنہ کمال اطمینان سے نو کہہ کر بات ختم کردیتے‘ اُن کے اس روئیے کو دیکھ کر سچی بات ہے کہ ہمیں اُن پر رشک آتا تھا۔‘‘یہی سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا کہ وقت سے پہلے حکمرانوں کی بے چینی نے پوری قوم کو ہی بے چین کرکے رکھ دیا تھا۔بلاشبہ بڑے عہدوں والوں کی ذمہ داریاں بھی بھاری ہوتی ہیں‘ جنہیں نبھانے کا فن آنا چاہیے۔ پنجابی کی ایک مثال ہے کہ کالہاں اَگے ٹوئے(جلدبازی کے آگے گڑھے)سنتے تو یہی آئے ہیں کہ بڑوں کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اُٹھانا چاہیے کہ اگر وہ گر جائیں تو اس کے اثرات پوری قوم کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کوبولنا چاہیے کہ گل کیندی اے توں میں مینوں مونہوں کڈ تے میں تینوں پنڈوں کڈنی آں(بات کہتی ہے کہ تم مجھے منہ سے نکالو اور منہ تمہیں گاؤں سے نکالتی ہوں)۔
گیانا کی قسمت چمکی ہے تو یہ سب باتیں بھی یاد آگئیں۔ہم تو ویسے بھی ہمیشہ سے کسی چمتکار کے ہی انتظار میں رہتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر من وسلویٰ ملتا رہے تے موجاں ای لگیاں رہن۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ تیل کے ذخائر نہ ملنے میں بھی بہرحال اطمینان کا ایک پہلو تو موجود ہی ہے کہ ہمارے ہاں تو خیر سے پہلے ہی بدعنوانی اور کرپشن کے چہاردانگ عالم چرچے ہیں‘جنہیں حکومت بھی زورشور سے ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ایسے میں اگر تیل مل جاتا توخدانخواستہ ہمارے ہاں بھی وہی خدشات پیدا ہونا شروع ہوجاتے جو گیانا کے بارے میں پیدا ہورہے ہیں‘یعنی ہماری کیا صورت حال ہوتی؟ہم تو ایک دوسرے کو کاٹ ہی کھاتے۔ شکر ہے‘ ہم بچ گئے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں