"FBC" (space) message & send to 7575

کنفیوژن

الفاظ کے ہیر پھیر سے صورت حال کی سنگینی تو بہرحال کم نہیں ہوپاتی۔زمینی حقائق کو نظرانداز کردینے سے وقتی طور پرہی سب کچھ ہرا ہرا دکھائی دے سکتا ہے کہ مسائل حل کیے جانے سے ہی حل ہوتے ہیں۔شاید ہم ہمیشہ ہی گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں‘اسی لیے تو اب اچھی خبروں کا فقدان نظرآتا ہے۔
ملکی حالات کے حوالے سے جو باتیں ایک عرصے سے عوامی سطح پر ہورہی تھیں‘ اب تواپوزیشن سے ہٹ کر ‘ اعلیٰ ایوانوں میں بھی ان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ملک کے منصف اعلیٰ نے بجا طور پر زمینی حقائق کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ کہیں سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہیں۔اُن کا یہ کہنا بجا کہ عوامی نمائندوں کا ایوان ہو‘ کرکٹ کا میدان ہو یا پھر ادارہ جاتی حالات‘ہرطرف شور شرابا ہی سنائی دے رہا ہے۔گویا ملکی حالات پرسبھی کو تشویش ہے ‘جو سدھار کی طرف جاہی نہیں رہے۔قابل ِتشویش بات تو یہ بھی ہے کہ اندرونی حالات تو جو ہیں ‘سو ہیں‘ بیرونی محاذوں پر بھی حالات زیادہ اچھے نظر نہیں آتے۔حالات تو یہ ہوچلے کہ ہم اپنے ہمسائے بھارت کو مذاکرات کی دعوتیں بھیج بھیج کر تھک چکے ‘ لیکن دوسری طرف وہی مرغے کی ایک ٹانگ والا معاملہ ہے۔
وقتی طور پر کچھ ہرا ہرا دکھایا گیا تھا کہ کچھ روز پہلے ملکی وزارت خارجہ کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ بھارت نے مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ‘لیکن جلد ہی حالات نے کروٹ لے لی اور بھارت کی طرف سے فورا تردید سامنے آگئی ۔ دراصل بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے پر پاکستان کی طرف سے مبارکباد کا جو پیغام بھیجا گیا‘ اُس کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے مبارکباد کے ان پیغامات کا جواب دیاگیا ۔ ان جوابات کو بنیاد بنا کر ہماری وزارت خارجہ نے اعلان کردیا کہ بھارت نے مذاکرات شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ بغلیں بجائی گئیں کہ بالآخر پاکستان کو سفارتی طور پر اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے‘لیکن دوسرے ہی روز بھارت کی طرف سے اس کی تردید آگئی ۔بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے واضح طور پر یہ اعلان سامنے آیا کہ بھارت کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا‘ گویا بات وہیں کی وہیں ہے۔اس صورت حال پر کیوں کر ماضی آنکھوں کے سامنے نہ آن کھڑا ہو کہ جب بھارتی وزرائے اعظم خود پاکستان آتے تھے ۔کنفیوژن یہ ہے کہ تب کیا ایسے حالات تھے کہ بھارتی وزرائے اعظم کی پاکستان آمد پر واویلا بپا ہوجاتا تھااور اب خود دعوتیں دی جارہی ہیں۔
1999ء میں واجپائی‘ دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے تو ایک مذہبی جماعت نے پورے لاہور میں شدید احتجاج کیا۔ بعد میں بھی پاک ‘ بھارت تعلقات کے حوالے سے حالات نے جو رخ اختیار کیا‘ وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ۔نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ہمسائیوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی اُمیدیں پھر دم توڑ گئیں۔نریندرمودی آئے توفضا مودی کا جو یار ہے غدار ہے کہ نعروں سے گونج اُٹھی۔ اب حالات میں ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ ہم مذاکرات شروع کرنے کی دعوتیں دیتے دیتے تھک چکے‘ لیکن دوسری طرف سے مسلسل خاموشی ہے۔ اتنی بار مذاکرات کی پیشکش کرنے کے بعد بھی ؛اگر بھارت یہ رویہ تبدیل نہیں ہورہا تو پھر اچھی بات نہیں ہے کہ خاموشی ہی اختیار کرلی جائے۔
ایک خوشی ‘اس بات پر بھی منائی جارہی ہے کہ فی الحال ہمارا ملک‘فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں آنے سے بچ گیا ہے۔ یہ خطرہ بھی ابھی پوری طرح سے ٹلا نہیں‘ بس کچھ مہلت مل گئی ہے ۔گرے لسٹ میں تو ہم ابھی تک شامل ہیں۔اس معاملے میں بھی پاکستان کے کچھ دوست ممالک ہماری مدد کو آئے‘ ورنہ بات بہت بگڑ جاتی ۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ‘دنیا کے بڑے ممالک کی ایماپر بنایا جانے والا ایک ایسا ادارہ ہے‘ جو دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھتا ہے‘ پتہ لگاتا ہے کہ دہشت گردی کو کہاں سے سرمایہ مہیا کیا جاتا ہے اور پھر وہ ایسا کرنے والوں کے خلاف پابندیوں کی سفارش کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کو رواں سال جنوری میں ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا ‘جن پر نظر رکھی جاتی ہے۔ بلاشبہ یہ ہمارے لیے کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا رواں ماہ ایک اور اجلاس ہوا‘ جس دوران خدشہ یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ کہیں ہمارے ملک کو بلیک لسٹ میں شامل نہ کرلیا جائے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ فی الحال یہ مصیبت ٹل گئی ہے۔خدانخواستہ ایسا ہوجاتا تو ہمیں بین الاقوامی سطح پر معاشی حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔اس کیلئے ہمیں اپنے دوست ممالک ‘ترکی ‘ ملائیشیا اور چین کا شکرگزار ہونا چاہیے‘ جن کی مخالفت کی وجہ پاکستان کیلئے حالات بہتر ہوئے ۔ ان تینوں ممالک نے ہمارے لیے جارحانہ مہم چلائی‘ جس کے باعث خطرات وقتی طور پر ٹل گئے ۔کسی بھی ملک کو بلیک لسٹ سے بچنے کیلئے 36ممالک کے نمائندوں پر مشتمل اس فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے کم از کم تین نمائندوں کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ یہ حمایت ہمیں چین‘ ترکی اور ملائیشیا کی صورت میں ملی ۔ گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ہمیں کم از کم 15ووٹ درکار ہیں۔
بعض حلقوں کے مطابق صرف گرے لسٹ میں شامل ہونے پر ہمیں سالانہ کم از کم 10ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ۔کنفیوژن یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت ہی کیوں آئی کہ ہم پہلے گرے لسٹ میں شامل ہوئے اور اب بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے خطرے سے دوچار ہیں؟ہم تو دہشت گردی کے خلاف 70ہزار جانوں کی قربانی دے چکے۔ پورا ملک ایک عرصے تک دہشت گردی کا شکار رہا۔ملکی معیشت کو اس عفریت کی وجہ سے زیربار ہونا پڑا۔پچھلے 14برس کے دوران ہمیں دہشت گردی کی وجہ سے کم از کم 87کھرب روپے سے زائد کا نقصان اُٹھانا پڑا۔اس کے باوجود‘ اگر ہم گرے لسٹ میں شامل ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں‘ تو اس بڑا لمحہ فکریہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
ایک خوشی‘ اس بات کی بھی منائی جارہی ہے کہ اقوام متحدہ نے ہمارے ملک کو طویل عرصے کے بعد اپنے نمائندوں کیلئے فیملی سٹیشن قرار دے دیا ہے۔بہت عرصہ ہوا جب ہمارے ملکی حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان کو نان فیملی سٹیشن ملک قرار دے دیا گیا تھا۔ مطلب یہ کہ یہاں اقوام متحدہ کے جوبھی مبصرین اور نمائندے تعینات ہوتے تھے‘ وہ اپنے اہل خانہ کو اپنے ہمراہ یہاں نہیں رکھ سکتے تھے۔اب‘ پاکستان کو مطلع کیا گیا ہے کہ پاکستان کو اب فیملی سٹیشن قرار دے دیا گیاہے۔ بلاشبہ یہ بین الاقوامی ادارے کی طرف سے ہمارے ملک کے حالات میں بہتری کا اعتراف بھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے ہاں سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہورہی ہے۔اس سے یہاں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ بھی ہموار ہوگی ‘ لہٰذا اس پر ہمارا خوش ہونا بنتا بھی ہے ‘لیکن ڈر یہ لگتا ہے کہ کہیں بعد میں حالات کچھ اور صورت اختیار نہ کرجائیں کہ پھر کوئی کنفیوژن پیدا ہوجائے۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ اندرونی اور بیرونی سطح پر غیریقینی کی ایسی صورت حال پہلے شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو‘جس وجہ سے کنفیوژنز نے ہمارے ہاںمستقل ڈیرے ڈال دئیے ہیں۔
ادھرملک کے اندرمہنگائی کی جاری لہرنے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے تو حکومت کی تان صرف ‘ نہیں چھوڑیں گے‘ سب کو جیل بھیجیں گے پر ہی آن کو ٹوٹتی ہے۔ ضرور پکڑیں‘ جس جس نے کرپشن کی ہے‘ اُسے اُلٹا لٹکا دیں‘ لیکن کچھ ڈیلیور بھی تو کریں۔ بیرونی ممالک کے رویوں میں تو چلیں وقت کے ساتھ ہی بہتری آئے گی ‘لیکن ایسی بھی کیا بپتا آن پڑی کہ آج ہماری کرنسی‘ افغانستان سے بھی کمزور ہوچکی۔یاد رکھیں ہماری شناخت‘ اسی پیارے پاکستان سے ہے ‘لیکن کنفیوژن یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی‘ ہم حالات کا ادراک کرنے کیلئے تیار کیوں نہیں ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں