"FBC" (space) message & send to 7575

افغانستان کا نیا یوم آزادی

افغان صدر اشرف غنی ساڑھے تین سال کے وقفے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد اپنے وطن واپس روانہ ہوچکے ۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو افغانستان کا دورہ کرچکے۔ اپنے دورے کے دوران اُن کی طرف سے ایک مرتبہ پھر یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کے لیے تیار ہے۔اس حوالے سے اُنہوں نے پاکستان کی طرف سے بھی عملی اقدامات اُٹھائے جانے کی اُمید ظاہر کی‘ اسی دوران بھوربن پاکستان میں افغان رہنماؤں کی کانفرنس بھی منعقد ہوچکی اور اب وزیراعظم عمران خان کا دورہ امریکہ بھی فائنل ہوچکا۔اس دورے کے دوران امریکی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے دوران افغان مسئلہ بھی زیربحث آئے گا۔ اس معاملے پر جو اُمور ابھی تک حل طلب ہیں‘ اُن پر بات چیت ہوگی ۔گویا ‘افغانستان سے امریکہ افواج کے انخلا کا حتمی مرحلہ قریب آرہا ہے۔یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد افغانستان کئی دہائیوں بعد غیرملکی افواج سے مکمل طور پرآزاد ہوجائے گا‘ اسی تناظر میں بڑی طاقتوں کے علاوہ علاقائی قوتیں بھی خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہیں‘ کیونکہ یہاں ایران‘ پاکستان اور بھارت سبھی کے مفادات ہیں۔اس ملک میں امن تو سبھی کو عزیز ہے کہ وسطی ایشیاء کی منڈیوں کے راستے افغانستان سے ہی ہوکر گزرتے ہیں‘لیکن امن کے ساتھ ساتھ سبھی طاقتوں کی یہ خواہش بھی ہے کہ یہاں اُن کے مفادات کو کوئی زک نہ پہنچے۔ اس مقصد کے لیے سبھی یہاں زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے اور کررہے ہیں۔ افغانستان میں معاملات زیادہ گمبھیر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ دوڑ بھی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ یہ حقیقت سبھی جان چکے کہ یہاں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے افغانیوں سے اچھے روابط قائم کرنا ہی سے واحد راستہ ہے ‘کیونکہ طاقت کے زور پر کوئی بھی اس ملک کو زیادہ دیر تک اپنے زیرنگین نہیں رکھ سکا۔ گزشتہ صدی کی سب سے بڑی طاقت انگلینڈ نے بھی اسے طاقت کے زور پر اپنے ماتحت رکھنے کی کوشش کی تھی‘ لیکن بالآخر 19اگست 1919ء کو اُس نے افغانیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے یہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ انگریزوں کے انخلاکے اسی دن کو افغانستان کا یوم آزادی منایا جاتا ہے۔اب یہاں سے امریکہ افواج کے حوالے سے جو صورت حال سامنے آرہی ہے‘ تو شاید اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ افغانیوں کا ایک اور یوم آزادی قریب ہے۔ دراصل ایک طرف افغانیوں کی مزاحمت ہے ‘تو دوسری طرف امریکہ کیلئے اس جنگ کو اب جاری رکھنا ممکن بھی نہیں رہا۔ آخر ہرسال 45ارب ڈالر خرچ کرنا کوئی آسان بات تو نہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ اب امریکیوں کیلئے فتح کی اُمید بھی ختم ہوچکی ہے۔
اسی اُمید کے ساتھ1979ء میں سوویت یونین نے بھی افغانستان میں قدم رکھا تھا‘ جس کے بعد اس ملک کے لیے ابتلا کا نیا دور شروع ہوا تھا۔اس دوران6لاکھ باون ہزارمربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر محیط اس ملک نے کیا کیا ظلم و ستم نہیں سہے ۔ہمیشہ سے آزادی کے خوگر رہنے والے افغانیوں کو روسیوں کی آمد ایک آنکھ نہ بھائی‘ جنہوں نے مزاحمت کا آغاز کردیا۔ مزاحمت شروع ہوئی تو روسیوں کے مظالم میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا‘جس میں بلاشبہ انہیں افغان حکومت اوراس کے وفاداروں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ ظلم و ستم سے بچنے کیلئے بے شمار افغانیوں نے ایران میں پناہ لی‘ تو 40لاکھ سے زائد افغانیوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ اتنی بڑی تعداد میں افغانیوں کی آمد نے پاکستان کے لیے بھی بے شمار مسائل پیدا کردئیے‘ لیکن پھر بھی اہل پاکستان نے حق میزبانی خوب ادا کیا۔ اہل پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کردئیے۔افغانستان میں 9برسوں تک ابتلا کا یہ دور جاری رہا‘ جس کے بعد بالآخر سوویت یونین کو دریائے آمو پار کرکے واپسی کی راہ لینا ہی پڑی۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ روسیوں کو اس چھوٹے ملک سے نکالنے کے لیے کس نے کیا کیا پاپڑ بیلے؟اس میں بلاشبہ پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس پوری جنگ کی تاریخ ‘اس کے تکنیکی پہلوؤں اوراس میں پاکستان کے کردار کو سمجھنا ہو تو اس کے لیے شاید‘ بریگیڈئیر(ریٹائرڈ)محمد یوسف کی کتاب شکست روس (اُردو ترجمہ) بہترین رہنمائی فراہم کرسکتی ہے۔بریگیڈئیر(ریٹائرڈ)محمد یوسف افغان جنگ کے دوران آئی ایس آئی میں افغان ڈیسک سے وابستہ تھے۔بہت عرصہ پہلے یہ کتاب نظر سے گزری تو اس میں پیش کیے جانے والے حقائق سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔افغانیوں کے بارے میں ہمیشہ سے یہ تاثر موجود رہا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے خود مالک ہوتے ہیں۔ کسی غیر کی حکمرانی اور چوہدراہٹ قبول نہیں کرتے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسی قوم سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا کس قدر مشکل ہوسکتا ہے۔بریگیڈئیریوسف نے نا صرف افغانیوں کی فطرت کے بارے میں صحیح تصویر پیش کی ‘بلکہ اُن مشکلات کا بھی احسن انداز میں احاطہ کیا ‘جو افغان جنگجوؤں سے معاملات کے حوالے سے درپیش رہیں۔ان سے نمٹنا یقینا آسان نہیں تھا ‘لیکن ایسا کرنا ضروری بھی تھا کہ اپنے وقت کی بہت بڑی طاقت افغانستان کے راستے پاکستان کی سرحدوں تک آن پہنچی تھی ۔ دوسری طرف افغانیوں کا اپنا مزاج تھا‘ جس کے مطابق چل کر ہی سوویت یونین کو پاکستانی سرحدوں سے پرے دھکیلا جاسکتا تھا ۔ پاکستان کے متعلقہ اداروں نے اپنا یہ کردار بخوبی نبھایا۔اندازہ لگائیے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تھی تو اس کا رقبہ 2کروڑ24لاکھ 22سو مربع کلومیٹر تھا اور یہ ملک بہت بڑی فوجی طاقت بھی تھا۔ اتنی بڑی طاقت کو نا صرف اپنی‘ بلکہ افغان سرحدوں سے بھی پرے دھکیل دیا جانا بلاشبہ بڑا کارنامہ تھا۔اسی جنگ کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کی ابتدا بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اس جنگ کے حوالے سے متعدد دوسری آرا بھی پائی جاتی ہیں‘ جیسے کہ ایک روسی جرنیل محموت احمد کی کتاب ''میری آخری جنگ ‘‘کے مطالعے کا موقع ملے تو اس میں وہ افغان جنگ
کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اُن کے مطابق؛ امریکہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت افغانستان میں مذہبی انتہا پسندوں کو مضبوط بنانے کا عمل شروع کیا تھا۔ انہی عناصر کی سرکوبی کے لیے افغان حکومت نے روس کی طرف دیکھنا شروع کردیا‘ جس کا نتیجہ سوویت مداخلت کی صورت میں نکلا۔جنگ کے نتیجے میں چودہ ہزار سے زائد سوویت فوجی اور تقریباً پندرہ لاکھ افغانی اپنی جان سے گئے۔ ہمارے ملک میں بھی یہ بحث ہوتی رہی کہ ہم دراصل امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اتنی بڑی طاقت پاکستان کی سرحدوں تک آن پہنچی تھی تو پھر پاکستان کے لیے اس خطرے کو ٹالنے کے علاوہ دوسرا کیا راستہ باقی رہ جاتا تھا؟ کیا پاکستان اتنے بڑے خطرے کا مستقل بنیادوں پر سامنا کرنا افورڈ کرسکتا تھا؟یہ الگ بحث کے اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کوبھی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا ‘جن کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔قرار دیا جاسکتا ہے کہ افغان جنگ کا ایک شاخسانہ یہ بھی رہا کہ خطے میں آج تک حالات معمول پر نہیں آسکے۔سوویت انخلا کے بعد افغانستان میں اثرورسوخ حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوئی تو معاملات مزید گمبھیر ہوگئے۔ اس دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت آگئی ‘جس پر دنیا کے طاقتور ممالک کو بھی تحفظات تھے۔ نائین الیون ہوا تو طالبان کی ایک مخالف طاقت امریکہ کو بہانہ مل گیا جس نے اس ملک پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت کو ختم کردیا۔ امریکہ‘ آج بھی افغانستان میں موجود ہے‘ لیکن اب 18سال بعد افغانستان میں صورت حال ایک مرتبہ پھر تبدیل ہونے جارہی ہے ۔امریکہ کی طرف سے یہاں سے انخلا کے واضح اشارے سامنے آ چکے۔ ممکنہ طور پر امریکہ رواں سال‘ ستمبر تک افغانستان سے نکل جائے گا۔اس مقصد کے لیے امریکہ کے اب تک افغان طالبان سے بات چیت کے کم از کم پانچ دور ہوچکے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ ایک تو طالبان سے امریکہ افواج کے محفوظ انخلا کی ضمانت اور دوسرے یہ یقین دہانی حاصل کی جائے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان ‘ افغانستان کو کسی قسم کی دہشت گردی کا مرکز نہیں بننے دیں گے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ امریکہ طالبان سے یہ دونوں یقین دہانیاں حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے ۔گزشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ افغان جنگ کو سمیٹنے کی کی سنجیدہ کوششیں کررہا ہے۔ گویا افغانستان ایک مرتبہ پھر غیرملکی طاقت کے تسلط سے آزاد ہونے جارہا ہے۔ صدیوں کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی جارہی ہے اور افغانستان کا نیا یوم آزادی قریب قریب ہے۔اُمید رکھی جانی چاہیے کہ امریکی انخلا کے بعد علاقائی طاقتیں یہاں امن قائم رکھنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گی کہ افغانیوں کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں