"FBC" (space) message & send to 7575

بلے بلے واہ واہ !!

مخالفین کو کرپٹ ثابت کرنے کا چلن‘ خود کو ہمیشہ ایماندار ترین انسان کے طور پر پیش کرنے کی روش اوربلے بلے ‘ واہ واہ کی خواہش جیسے ذائقوں سے کڑھتی ہوئی ایک دیگ ہمیشہ ہمارے ہاں پکتی رہتی ہے ۔ اس کے ذائقوں میں ریکوڈک جرمانے کی صورت میں نئے ذائقے کا اضافہ ہوا ہے۔تین برسوں تک پوری قوم نے منتیں ترلے کرکے آئی ایم ایف سے بمشکل چھ ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے میں کامیاب حاصل کی تھی۔موجودہ حالات میں تو قرض ملنے کو بھی خوشخبری کے طور پر ہی لیا گیا تھا‘ لیکن دشمنوںکو ہماری خوشی ایک آنکھ نہیں بھائی۔ٹھیک ڈیڑھ ہفتے بعد عالمی بینک کے ایک ثالثی ٹریبونل نے ہماری تمام خوشیاں غارت کردیں۔ ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی پاداش میں 5.9ارب ڈالر جرمانے کاپروانہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے۔اب یا تو جرمانے کے طور پر اتنی بڑی رقم ادا کی جائے گی یا پھر ریکوڈک کے معدنی حقوق ٹیتھیان کے پاس رہن رکھوانے پڑیں گے پلے تو پہلے ہی کچھ نہیں اور معدنی حقوق رہن رکھوانے کا آپشن اختیار کرنابھی حکومت کے لیے کانٹوں بھرے راستے کو طے کرنے کے مترادف ہوگا۔کہاں تو یہ خوشی تھی کہ ریکوڈک منصوبے کی تکمیل کے بعد ہمیں یہاں سے اندازاً چھ ارب ٹن خام تانبا تو حاصل ہوگاہی ‘ اس کے ساتھ ساتھ چھ لاکھ ٹن سونا ہاتھ لگنے کا بھی امکان تھا۔ اب‘ یہ غم کہ حاصل وصول تو ابھی تک کچھ ہانہیں سکا ‘اُلٹا اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنے کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک گئی ہے۔
اب‘ وزیراعظم عمران خان کے نوٹس پر تحقیقاتی کمیشن اس تمام معاملے کی تحقیقات کرکے ‘ ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔شنید تو یہ بھی ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے بھی سوال و جواب ہوں گے۔ کمیشن اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گا کہ جناب فلاں فلاں جگہ پر غلطیاں ہوئیں ‘جن کی پاداش میں ہمارے دنوں کا چین اور راتوں کا سکون غارت ہوکر رہ گیا ہے۔برا ہوٹیتھیان کمپنی کا ‘جو معاہدے کی خلاف ورزی کو لے کر16ارب ڈالر ہرجانے کا دعوے کے ساتھ اقوام متحدہ کے ثالثی کمیشن میں جا پہنچی ۔ نہ وہ یہ اقدام اُٹھاتی ‘نہ ہمیں اتنی پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا۔ موقف اس کمپنی نے یہ اختیار کیا تھا کہ معاہدے کو بغیر کسی وجہ کے منسوخ کیا گیا‘لہٰذا اُسے ہرجانے کے طور پر 16ارب ڈالر دلوائے جائیں ۔ دلائل سننے کے بعد ثالثی کمیشن نے جرمانے کی رقم طے کری۔ دیکھا جائے‘ تو سچی بات تو یہی ہے کہ بظاہر معاہدہ منسوخ کیے جانے کی کوئی خاص وجہ دکھائی بھی نہیں دیتی‘ سوائے بلے بلے اور واہ واہ حاصل کرنے کے۔ڈر تو لگتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ حکومت کی طرف سے یہ اقدام ‘ سپریم کورٹ کے احکامات پر اُٹھایا گیا تھا ‘لیکن حقیقت یہی ہے ۔ اب ‘سب سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس مشکل صورت حال سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
صرف تین ماہ پہلے تیل کی دولت بھی ہمارے ہاتھ لگتے لگتے رہ گئی تھی ۔ پوری قوم اس انتظار میں تھی کہ بس سمندر سے تیل آج نکلا ‘جس کے بعد وارے نیارے ہوجائیں گے‘ لیکن وہ خواب ٹوٹ گیا۔چار سال پہلے پنجاب کے شہر چینیوٹ میں سونا ‘ چاندی ‘ تانبا اور دیگر معدنیات دریافت ہونے کی باتیں تو خیر اب کافی پرانی ہوچکی ہیں‘ اوراب معدنی ذخائر بھی ہاتھ آتے آتے پھسل گئے۔اب کمیشن اس تمام معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد جو بھی رپورٹ مرتب کرے‘ سو کرے‘ گیا وقت تو ہاتھ آئے گا نہیں۔یوں بھی ہمارے ہاں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ جس معاملے کو لٹکانا ہو‘ اُس پر کمیشن یا کمیٹی بنا دینی چاہیے۔یہاں تو ملک کا مشرقی حصہ الگ ہوگیا ۔ اُس پر بھی توحمود الرحمان کمیشن بنا تھا۔ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا تھا‘ لیکن اگر کسی کو یاد ہو تو ہمیں بھی بتا دے کہ ان میں سے کتنے ذمہ داروںکو سزا ہوئی تھی؟سزا کا دیا جانا تو دور کی بات ‘ دہائیوں تک اس رپورٹ کوسامنے ہی نہیں آنے گیا۔ 2003ء میں معلوم نہیں کس ترنگ میں آکر ‘ اُس وقت کی حکومت اس کا کچھ حصہ سامنے لے آئی‘ لیکن حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کا بڑا حصہ آج بھی خفیہ ہی ہے۔ڈرلگتا ہے کہتے ہوئے کہ ملک میں پیش آنے والے متعدد دیگر اہم ترین واقعات یا سانحات پر بھی متعدد کمیشن بنے‘ جن کی رپورٹیں کبھی منظرعام پر آئیں اور نہ ہی آئیں گی۔فہرست بنائی جائے‘ تو عقل دنگ رہ جائے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا کھلواڑ کیے جاتے ہیں۔ یوں بھی اب تو ان سانحات نے سینوں میں اتنی صلیبیں گاڑ دی ہیں کہ مزید کے لیے جگہ ہی نہیں بچی ۔ ایک آتا ہے ‘تو وہ جانے والے کے تمام اقدامات کو بیک جنبش قلم منسوخ قرار دے دیتا ہے۔
یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے جانے والے کسی اور دیس کے باسی تھے۔کوئی بھی اپنے مخالفین کو اپنی طرح محب وطن سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔ بس‘ ایک تماشہ گاہ ہے‘ جس میں ہرروز کوئی نہ کوئی نیاتماشہ دیکھنے کو ملتا ہے‘جس کا تماشہ جتنا زیادہ جاندار‘ اُس کے لیے اُتنی ہی بلے بلے اور واہ واہ ‘ چاہے یہ واہ واہ حاصل کرنے کے لیے تمام قوانین اور اُصولوں کو بالائے طاق ہی کیوں نہ رکھنا پڑے یا پھر اس کے لیے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہی کیوں برداشت نہ کرنا پڑے۔ انہیں رویوں کی وجہ سے صرف چار برسوں کے دوران عالمی سطح پر ملک کے خلاف مختلف مقدمات کی تعدادچھ سے بڑھ کر پینتالیس ہوچکی‘ موجودہ حکومت بھی ان مقدمات کی سماعت کے لیے وکلا کو تقریباً ایک کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرچکی۔یہ صحیح ہے کہ ایسے معاملات دیگر ممالک کے ساتھ بھی چلتے رہتے ہیں‘ لیکن جان بوجھ کراپنے لیے مشکلات پیدا کرنے کو کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟ 
ہم یہ سوچنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ جب ہم اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو گویا مشکلات کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔صرف ایک رٹا رٹایا جملہ بول دیا جاتا ہے کہ جو کیا ملک کے بہترین مفاد میں کیا۔غلطی کرکے بھی ہم اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔بس ‘ہمارا زور دوسروں کو غلط ثابت کرنے پر صرف ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے ایک وزیرصاحب ہر موقع پر دانت پیس پیس کر اپنے سابقہ دوستوں کے لتے لیتے رہتے ہیں۔ اُن کا نام لیتے ہی وزیرصاحب کے چہرے پر عجیب سی کرختگی آجاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں جب یہ خود اپوزیشن میں تھے تو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر حکومت سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ داغتے رہتے تھے۔اب‘ ان کی دس ‘ گیارہ ماہ کی وزارت کے دوران ٹرینوں کوکوئی 79حادثات پیش آچکے ‘ لیکن استعفیٰ دینے کی بات پر فرماتے ہیں کہ جب میرا ضمیرا بوجھ محسوس کرے گا تو استعفیٰ دے دوں گا۔یہی تو مصیبت ہے کہ ہمارا ضمیر بوجھ ذرا کم کم ہی محسوس کرتا ہے؛اگر ‘ہمارا ضمیر ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس دلانے لگے تو معاملات کیوں کر بہتری کی طرف گامزن نہیں ہوجائیں گے۔معلوم نہیں ہم نے اپنے ضمیروں کو کون سی دوا دے کر سلایا ہوا ہے کہ بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ایک اور قصہ یاد آرہا ہے کہ 2001ء میں لاہور کی بہترین کینال روڈ پر واقع‘140ایکڑ رقبے پر محیط رائل پام کلب کو صرف دوکروڑ روپے سالانہ میں ٹھیکے پر دے دیا گیا تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ جس کنسورشیم کو یہ کلب ٹھیکے پر دیا گیا تھا‘ اُس نے ٹینڈر کے لیے پری کوالیفائی ہی نہیں کیا تھا۔خفیہ طور پر معاہدے میں تبدیلیاں کی گئیں‘ لیز کا دورانیہ تیس سال سے بڑھا کر 49سال کردیا گیا۔ معاہدے کے مطابق ‘کنسورشیم کو 103ایکڑاراضی دی جانی تھی‘ لیکن اُسے 140ایکڑ اراضی سے نواز دیا گیا۔ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا؟گزشہ دنوں سپریم کورٹ کے حکم پر اس کنٹریکٹ کو منسوخ کردیا گیا ہے‘ جس کے بعد یہ کلب دوبارہ ریلوے کو مل گیا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ جب یہ معاہدہ طے پایا تھا تو تب ریلوے کے وزیرکون تھے؟کبھی کسی طرف سے یہ آواز آئی ہو کہ یہ معاہدہ کرنے کے ذمہ داروں سے بھی تحقیقات ہونی چاہیں تو ہمیں بھی بتا دیجئے ۔سو‘ نکلے گا‘ ریکوڈک کمیشن کی تحقیقات میں سے بھی کچھ نہیں۔ بس‘ منت ترلہ ہی ہے؛ اگر ٹیتھیان مان جائے تو...!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں