"FBC" (space) message & send to 7575

حقیقت کی سنگلاخ زمین

جذبات میں حقیقت کو نظرانداز کردینے کے کبھی بھی اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے۔اگر ایک مشکل درپیش ہو تو جذبات کی رو میں بہہ جانے سے مشکلات میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔بدقسمتی سے ہم ایسی جذباتی قوم ہیں‘ جسے حقائق سے نظریں چرانے کا بہانہ ملنا چاہیے۔سب کچھ نہیں تو بہت کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی صرف اپنی واہ واہ کیلئے ایسی ایسی باتیں کردی جاتی ہیں کہ بعد میںاُن کی justification مشکل ہوجاتی ہے۔وزرا کا رویہ اور گفتگو دیکھ لیں تودوچار کو چھوڑ کر اکثریت کی گفتگو میں سنجیدگی کا عنصر دور دور تک نظر نہیں آتا۔دیگ کا ذائقہ معلوم کرنے کیلئے ایک دانہ ہی چکھ لیتے ہیں۔ ذرا اُن کا حال دیکھ لیں‘ جن سے محکمہ ریلوے تو ٹھیک ہونہ سکا اور باتیں ایسی ہیں کہ جیسے دوسروں کو دھرتی سے ہی نیست و نابود کردیا جائے گا۔منہ سے اُڑتا ہو کف اور چڑھی ہوئی آستینیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس گفتگو ختم کرنے کے بعدیہ موصوف ہمسائیوں پر حملے کیلئے چل دیں گے۔
یہ سچ ہے کہ کشمیر ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ یہ بھی سچ کہ ہماری مسلح افواج اور عوام ملک کے دفاع کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہیں۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ خدانخواستہ ملک پر کوئی برا وقت آئے اور کوئی ایک پاکستانی بھی پیچھے رہ جائے ۔ یہ بھی حقیقت کہ آج تک کشمیریوں کیلئے مضبوط ترین آوازیں ہمیشہ پاکستان سے اُٹھتی رہیں اور اُٹھتی رہیں گی۔ پاکستانیوں نے کشمیریوں کو کبھی تنہا چھوڑا ‘نہ چھوڑیں گے‘ لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ بہت سے معاملات میں جذباتی باتیں کرکے ‘ہم خود کو تو بے و قوف بنا سکتے ہیں‘ دوسروں کو نہیں۔جیسے ان دنوں کچھ دوست عرب ممالک کے حوالے سے جذباتی باتیں زوروشور سے چل رہی ہیں۔ان ممالک کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کو اعزازات سے نوازے جانے سے ہماری دل آزاری تو ہوئی ہے ۔ کم از کم کشمیر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہم دوستوںکی طرف سے اس اقدام کی توقع نہیں رکھتے تھے‘لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ریاستوںکیلیے اپنے مفادات سب سے اہم ہوتے ہیں اور ان کے تحفظ کو بھی یقینی بنا یا جاتا ہے۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہم اس وقت پوری دنیا کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ہم نے بجا طور اپنے دوست عرب ممالک کی طرف دیکھاہے‘لیکن اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا کہ ہر کسی کے اپنے مفادات ہوتے ہیں‘ جن کا تحفظ اُس کا حق ہوتا ہے۔معاملات کو سمجھنے کیلئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔کچھ عرصہ پہلے جب اوآئی سی کا اجلاس ہوا تھا تو تب اس میں شرکت کیلئے بھارت کو بھی بطور مبصر دعوت دی گئی‘ پاکستان کی طرف سے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا‘ لیکن بات پھر بھی نہ بن سکی۔اتنا ضرورہوا کہ بھارت کی شرکت کے باوجود اس اجلاس کے دوران کشمیر کے حق میں قراردادمنظور کرلی گئی تھی۔ بھارت بھی خوش اور پاکستان بھی خوش۔اب پیدا ہونیوالی صورتحال کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی قیادت میں ان ممالک میں جانے والے وفد کا دورہ احتجاجاً منسوخ کردیا گیا۔ ایسا کرتے ہوئے یہ بات بھلا دی گئی کہ سفارتکاری میں کبھی بھی دروازے بند نہیں کیے جاتے ۔ موجودہ حالات میں ہمیں دوسروں تک پہنچ کر اپنی بات پہنچانی چاہیے‘ نہ کے دورے منسوخ کرکے گھر میں ہی قیام کیا جائے۔یقینا اس وقت حکومت دنیا بھر میں کشمیریوں کی آواز پہنچانے کیلئے وہ سب کچھ کررہی ہے ‘جو کچھ اُس کے بس میں ہے۔ہماری ان آوازوں پر کسی نے ہمارا ساتھ دیا تو کسی نے بے اعتنائی کارویہ اختیار کیا۔ان حالات میں ہمارے لیے بھی سوچ و فکر کر بہت سا مواد موجود ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں تنہائی محسوس ہورہی ہے؟یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری ہمیشہ سے دوسروں کی طرف سے دیکھنے کی عادت کے باعث ہمیں زیادہ تکلیف ہورہی ہو۔
آج تک برصغیر پر جتنے بھی غیرملکی مسلمان بادشاہوں نے حملہ کیا‘ اُن سب کو ہم آج بھی اپنا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ایک ہزار سال تک برصغیر پر حکمرانی کرنیوالے مغل بھی ہمارے اپنے ہیں۔وہ جن کے نزدیک بقائے اقتدار کیلئے اپنے ہی خونی رشتہ داروں کو تہہ تیغ کردیا جانا عام سی بات تھی۔اکبر کی اولاد میں خونی جنگ ہوئی اور بالآخر جہانگیر اپنے پانچ بھائیوں کو قتل کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔جہانگیر کے چار بیٹے برسوں برسرپیکار رہے اور آخر کارشاہ جہاں شہنشاہ ہند قرار پایا۔ ان کا صاحبزادہ اورنگ زیب عالمگیر‘ داراشکوہ سمیت اپنے پانچ بھائیوں کو قتل کرکے مسند اقتدارپر بیٹھا اور باپ کو اُس کی موت تک قید میں رکھا۔ تب بھی بقائے اقتدار اور ریاست کیلئے جذبات تو کیا‘ بہن بھائیوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیا جاتا تھا۔کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی یہی چلن رائج ہے اور رہے گا۔ان حالات میں دوسروں پر تنقید کے نشتر چلانے کی بجائے حقیقت کا ادراک کرنا ضروری ہے۔
اُس فرق کو سمجھنا بھی ضرور ی ہے ‘جو جمہوریت اور بادشاہت کے درمیان پایا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ ایک طرف جہاں ہمیں اپنے کچھ دوست ممالک سے گلہ ہے تو وہیں پاکستان کے بعد مسئلہ کشمیر پر سب سے زیادہ آوازیں مغرب سے بلند ہوئی ہیں۔حکومتوں کے ردعمل سے ہٹ کر مغربی ممالک میں عوامی سطح پر بھارت کی کھل کر مذمت کی گئی ہے۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم پر بات کی گئی ہے۔اِن میں Genocide watch جیسی تنظیموں کی طرف سے بلند ہونے والی آوازوں کے اثرات تو بھارت نے محسوس بھی کیے‘اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر جانے اور پھر وہاں سے واپس آنے والی کویتا کرشنن جیسی ہندوخاتون نے نئی دہلی میں بیٹھ کر کشمیر کے بارے میں وہ حقائق بیان کیے ‘جس نے دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔کویتا اور اُس کے ساتھیوں کی طرف سے بتایا گیا کہ کسی طرح سے کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔باہمی رابطوں پر پابندی ہے اور نوجوانوں کو قید کیا جارہا ہے۔ اس رپورٹ کا آج تک بھارتی حکومت کی طرف سے جواب سامنے نہیں آسکا اور نہ ہی آسکے گا۔ بھارتی اپوزیشن کے اہم رہنما بھی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے سرینگر پہنچے‘ یہ الگ بات کہ انہیں وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے‘ لیکن اگر تصویر کا صحیح رخ پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو دوسری قباحتیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خلیجی ممالک کی طرف سے مودی کو ایوارڈ زسے نوازے جانے سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں ‘لیکن تنقید کے زیادہ نشتر برسانا بھی درست طرز عمل نہیں۔ اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہماری آواز اتنی طاقتور ہونی چاہیے کہ کوئی اسے نظرانداز نہ کرسکے ۔ اب اپنی آواز میں مضبوطی تو ہم خود ہی لاسکتے ہیں‘ دوسروں کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے اپنی غلطیوں پر بھی نظردوڑانی چاہیے۔سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم دنیا میں تنہا تو نہیں ہوتے جارہے۔اگر ایسا ہے تو کہیں نہ کہیں تو جاکر اس کا سراملتا ہوگا۔ماضی میں ہم کئی ایک مواقع پر ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوچکے‘ لیکن وہ جو کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس سے سبق کوئی نہیں سیکھتا ۔تاریخ کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی جائے تو گویا ایک پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔اسے کھولنے کی بجائے بہتر تو یہی ہے کہ ہم حقیقت کا ادراک کرنا شروع کردیں۔انفرادی سطح پر بھی اور قومی سطح پربھی۔ ہروقت دوسروں کی طرف جھولی پھیلائے دیکھتے رہنے کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔
یقینا یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں کہ باتوں سے عمل ہمیشہ زیادہ مشکل ہوتا ہے ‘لیکن یہی حقیقت کی سنگلاخ زمین ہے ‘جس پر ہمیں قدم رکھنا ہی پڑے گا ‘ ورنہ خیالات کی رومانوی دنیا میں ہم تو ہمیشہ سے زندہ ہیں ہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں