"FBC" (space) message & send to 7575

ایک بار پھر ریاست حیدرآباد دکن کا نوحہ

انفرادی سطح پر بھی اور قومی سطح پر بھی‘ ہم خوش گمانیوں کی فصل بوتے ہیں ‘ اسی کو کاٹتے ہیں اور حقیقت کی دنیا کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ گمان کرتے ہیں کہ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا‘ تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں گے ۔ خوش فہمی کی فصل بوتے ہیں کہ جلدہی کوئی نہ کوئی تو آئے گا اور دہائیوں سے بگڑے ہوئے نظامِ انصاف کو درست کردے گا‘لیکن بھول جاتے ہیں کہ بغیر محنت اور نیک نیتی کے ایسے معجزے اب ہوتے ہیں نہ پہلے ہوا کرتے تھے۔ بھول جاتے ہیں کہ دنیا بنانے والے نے دنیا چلانے کے حوالے سے کچھ اصول و ضوابط مقرر کردئیے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ بڑے بول بولنے سے کامیابی ملتی ہے نہ حقیقت کو نظرانداز کرنے سے اور نہ ہی جذباتیت کے سمندر میں غوطے کھا کر۔
گزرے ماہ کے دوران موقع ہی نہ مل سکا ایک مرتبہ پھر ریاست حیدرآباد دکن کا نوحہ پڑھنے کا۔18ستمبر گزشتہ ماہ ہی تو گزرا ہے جس روز آج سے ستر سال پہلے ریاست حیدرآباد دکن قصہ پارینہ بن گئی تھی۔برصغیر کی سب سے بڑی ‘ شاندار اور مالدار ترین ریاست‘جس کے سقوط نے یہاں پر مسلمانوں کے ساڑھے چھ سوسالہ اقتدار کا بھی خاتمہ کردیا تھا۔ہندوستان کے عین قلب میں واقع‘ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اٹلی اور برطانیہ سے بھی بڑی۔اپنا ٹیلی فون اور ڈاک کا نظام رکھنے والی ریاست۔ اُس دور میں بھی اس ریاست میں ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ہندوستان بھر کی واحد یونیورسٹی ‘ جامعہ عثمانیہ اسی ریاست میں واقع تھی۔ ریاست کے ساتویں اور آخری نظام میر عثمان علی خان کی دولت کا تخمینہ اُس وقت کوئی2.5ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا تھا۔ ہم نے اپنے دوست ماہر معاشیات ڈاکٹر زکریا رسول سے درخواست کی کہ ذرا حساب لگا کر بتائیں کہ آج کے دور میں یہ رقم کتنی بنتی ہوگی‘ تو جواب ملا: تقریبا 35.2ارب ڈالر۔1947ء میں ہندوستان کی آزادی کے تقریبا ایک سال بعد ہندوستان کی للچائی ہوئی نظریں اس پر پڑنے لگی تھیں۔ریاست کے اندر بے چینی پیدا کی گئی تو جواباً اتحاد المسلمین کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آگئی۔ تنظیم کے قائد مولانا قاسم رضوی نے اپنی شعلہ بیانی سے پوری ریاست میں آگ لگا دی ۔نظام حیدرآباد کو یقین دلا دیا کہ حملے کی صورت میں دشمن کو نیچا دکھا دیا جائے گا۔یہ سب کچھ کہا جاتا رہا‘ زمینی حقائق کا ادراک کیے بغیر۔مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے صائب مشورہ دیا تھاکہ ریاست کی طاقت اس قابل نہیں جو وہ بھارت کا مقابلہ کرسکے ‘بہتر ہوگا کہ کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا جائے ‘ بھارت نے حملہ کیا تو حکمران اپنی جان ومال بچا لے گا‘ لیکن عوام پس جائیں گے‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ریاست کے اندر ہندوؤں کے جان و مال کے تحفظ کو بہانہ بنا کر12اور 13ستمبر 1948ء کی درمیانی رات کو پولیس ایکشن کے نام پر حملہ شروع ہوا اور 18ستمبر کو سب کچھ ختم ہوگیا۔یہ الگ بات کہ پولیس ایکشن کے نام پر ہونے والے اس حملے میں ایک لیفٹیننٹ جنرل‘تین میجر جنرل اور پورا آرمرڈ ڈویژن شریک تھا۔
کبھی موقع ملے توریاست کے صدراعظم رہنے والے میرلائق علی خان کی کتاب ''ٹریجڈی آف حیدرآباد‘‘ کا مطالعہ کیجئے ‘ معلو م پڑے گا کہ ریاست کے ساتھ پیش آنے والے اس سانحے میں صرف مکار اور طاقتور دشمن ہی قصور وار نہ تھا‘ بلکہ درون خانہ بھی بہت کچھ خراب چل رہا تھا۔لکھتے ہیں کہ ریاست کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں بدانتظامی نہ پائی جاتی تھی‘ حملہ شروع ہوا تو معلوم پڑا کہ ہماری تو کوئی جنگی تیاری ہی نہیں تھی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ر یاست میں الفاظ کی آگ لگانے والے بھی غائب ہوگئے اور ریاست کا ختم ہونا طے ہوگیا۔ریاست کا خاتمہ ہوا تو نظام حیدرآباد آسمان سے زمین پر آرہے۔ ریاست کی مسلمان آبادی شدید مشکلات میں گھر گئی۔بے شمار مسلمان اپنی جانوں سے گئے۔اپنے زورخطابت کے زور پر زمین آسمان ایک کردینے والے مولانا قاسم رضوی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا‘ جہاں وہ نو سال تک قید رہے۔یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ3جون 1947ء کو برطانوی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے منصوبۂ آزادی ہند کے تحت ریاست حیدرآباد کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار تھا۔ اس قانون کے تحت اُس وقت برصغیر کی پانچ سو سے زائد دوسری ریاستوں کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا گیا تھا۔اسی قانون کی رو سے ریاست بہاولپور نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ دیر‘ چترال اور پاکستان میں واقع دوسری متعدد ریاستوں نے بھی پاکستان سے الحاق کرلیا۔ اسی طرح میسور‘ گوالیار اور متعدد دیگر ریاستیں ہندوستان میں ضم ہوگئیں۔ نظام حیدرآباد‘ ریاست کی خود مختار حیثیت برقرار رکھنا یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ نظام حیدرآباد خود تو مسلمان تھے اور ریاست میں آبادی کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ لامحالہ یہ ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی۔ریاست کا محل وقوع بھی اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں بڑی رکاوٹ تھا۔دوسری طرف ہندوستان ہرقیمت پر اس ریاست کو خود میں ضم کرنا چاہتا تھا۔ اسی کے لیے اُس نے جان بوجھ کر ریاست میں بے چینی پھیلائی‘ فسادات کو ہوا دی ۔یوں تو طاقتور کو کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ لیکن دکھاوا بہرحال ضروری ہوتا ہے۔ خود اپنے بھی اس صورت حال کو نہ سمجھ سکے اور جانے انجانے میں بے چینی کو بڑھاوادیتے رہے۔دشمن کی سازش کو سمجھے بغیر‘ جانے انجانے میں اُس کے آلہ کار بنے رہے۔حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ہندوآبادی کے تحفظ کو بہانہ بنا کرحملہ کردیا گیا۔
ہندوستان کی مکاری و عیاری یہاں بھی پوری طرح سے عیاں رہی۔ ریاست حیدرآباد دکن کے حوالے سے اُس کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ ریاست کی ہندواکثریتی آبادی ہندوستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے‘ اس لیے اُس کی خواہشات کا احترام کرنا ہندوستان کی ذمہ داری ہے۔دوسری طرف ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے اُس نے بالکل ہی متضاد موقف اپنایا۔ کشمیر پر حملے کے حوالے سے اُس نے موقف اپنایا کہ ایسا ریاست کے راجہ ہری سنگھ کی درخواست پر کیا گیا ہے۔بھارت کا یہ دوغلا پن ہر جگہ ہی دکھائی دیتا رہے ہے اور دکھائی دے رہا ہے۔ریاست حیدرآباد دکن میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ۔جموںو کشمیر کے مسلمان تو آج بھی ہندوستان کے ظلم و ستم کا سامنا کررہے ہیں‘ لیکن پوری دنیا کے ہونٹوں پر چپ کی مہر لگ چکی ہے۔ریاست حیدرآباد دکن پر حملے کے دوران اور پھر اس کے بعد دسیوں ہزارشہری اپنی جان سے گئے ۔اُس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرونے ریاست میں ہونے والے کشت وخون کی تحقیقات کے لیے دکھاوے کا ایک کمیشن بھی بنایا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی حکومت کو پیش کی تھی‘ لیکن بھارتی حکومت نے اسے سامنے لانے سے گریز کیا۔ 2013ء کے دوران اس رپورٹ کے کچھ حصے سامنے آئے تھے‘ جن سے پتہ چلا کہ فسادات کے دوران 28ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ غیرسرکاری تخمینوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔بھارتی فوجی خود بھی اور اس کی ایما پر ریاست کی اکثریتی آبادی ‘ اقلیتی آبادی کا قتل عام کرتی رہی۔
یوں تو ہم سانحات سے سیکھنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہیں‘ ہمیں تو سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ بھی بیدار نہیں کرسکا ‘تو پھر ریاست حیدرآباد دکن کس کھیت کی مولی ہے۔ بہرحال ایسے واقعات سے ایک سبق ضرور ملتا ہے کہ طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ تمام اصول و ضوابط اور قوانین اُس کے سامنے ہیچ ہوتے ہیں۔ طاقتور دشمن کا مقابلہ صرف طاقت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔کسی بھی معاملے میں زمینی حقائق کا مدنظر رکھا جانا انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جب بھی کسی معاملے میں صرف جذباتیت سے کام لیا جائے تو حالات مختلف ہوسکتے ہیں‘چاہے یہ سب کچھ اجتماعی سطح پر ہویا انفرادی سطح پر ۔خوش گمانیوں کی پوری فصل بونے سے بہتر ہے کہ حقیقت کا کوئی ایک ہی پودا لگا لیا جائے‘ اُس کی آبیاری کی جائے اور اُسے پروان چڑھایا جائے۔یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بہادری صرف چیخ وپکاراور اظہارِبرہمی کو قرار نہیں دیا جاسکتا‘ ورنہ صرف بیچارگی باقی رہ جاتی ہے۔بات سے بات نکلتی ہے تو پھر نکلتی ہی چلی جاتی ہے۔آج برصغیر کی شاندارترین ریاست کے سقوط کو تقریبا ستر سال گزرچکے ‘ جو کبھی امارت اور ادب پروری کا نمونہ ہوا کرتی تھی ۔ جانے والا وقت تو کبھی واپس نہیں آیا اور نہ آسکتا ہے‘ لیکن اس پر گاہے گاہے نظر ضرورڈالتے رہنا چاہیے کہ اس میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں