"FBC" (space) message & send to 7575

گلستاں ‘جنگل تو بن ہی چکا

ہمارا گلستاں‘ جنگل تو بن ہی چکا۔خود سیکھنے اور اپنے بچوں کو بھی اخلاقیات کے سبق پڑھانے کے زمانے لد چکے۔ بے شک زندہ رہنے کے لیے معاشروں کواُمید کی مشعل درکار ہوتی ہے۔ یہ مشعل بھی عرصہ ہوا ‘ پہلے ٹمٹماتی رہی اور اب جیسے بجھ سی چکی ہو۔ عجب تو نہ ہوگا ‘اگر کل کو خیر کی خبریں آنے لگیں کہ زیادہ نظر تصویر کے روشن رخ پر ہی رکھنی چاہیے۔ ابھی تو سب کچھ دل ہی دہلائے دیتا ہے۔گروہ کے گروہ بے نقاب ہوئے جاتے ہیں ‘لیکن مجال ہے بھلائی کی کوئی اُمید پیدا ہوئی ہو۔بس پکڑ دھکڑ ہے اور حاصل وصول کچھ بھی نہیں ۔ اوپر سے یہ فرمایا جانا کہ عوام بے صبری کا مظاہرہ کررہی ہے ‘ صرف 13 ماہ بعد ہی پوچھا جارہا ہے کہ نیا پاکستان کدھر ہے۔ عوام کی بے صبری ہرگز نہ بڑھتی نہ وہ اتنی جلدی پوچھتے کہ نیا پاکستان کدھر ہے؟اگر کہیں سے اُمید کی کوئی کرن دکھائی دینے لگتی تو...اب تو ایسے ہی ہے کہ؎
شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو
نا آشنا ہے قاعدۂ روزگار سے
مولانا فصل الرحمن ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ آزادی مارچ کرکے ہی رہیں گے۔ توقع ہے اُنہیں کہ لیت و لعل سے کام لینے والی اپوزیشن جماعتیں بھی جلد اُن کے ساتھ ہوں گی۔ بقول مولانا کے اب ‘حکومت کو زیادہ وقت نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس نے پورے ملک کو زیروزبر کرکے رکھ دیا ہے۔ہرسیاسی رہنما کی طرح گمان اُن کا بھی یہی ہے کہ بائیس کے بائیس کروڑ عوام ‘ جسمانی طور نہ سہی کم از کم ذہنی طور پر ضرور اُن کے ساتھ شامل ہوچکے ہیں۔ آپ کسی بھی سیاسی رہنما کا بیان پڑھ لیجئے‘ ہرکوئی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے کہ پورے ملک کے عوام صرف اُس کے ساتھ ہیں۔ حکومتی حلقوں سے کوئی بیان سامنے آئے تو دعوی یہی ہوتا ہے کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام حکومت کے ساتھ ہیں۔ اپوزیشن بیان دے تو اُس کا اختتام بھی اسی پر ہوتا ہے کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام حکومت سے بیزار ہوچکے ہیں۔ایک ہوتے تھے‘ ڈاکٹر فقیر حسین ساگا‘ جنہوں نے مور ڈانس کے حوالے سے بہت شہرت حاصل کی تھی۔ پندرہ ‘ بیس سال پہلے کے اُس دور میں مہاراج کتھک کا بھی بڑا نام ہوا کرتا تھا۔ دونوں کے درمیان کچھ پیشہ ورانہ نوک جھونک بھی چلتی رہتی تھی۔ مہاراج کتھک اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ آدھی دنیا میری شاگرد ہے۔اس پر ڈاکٹرفقیر حسین ساگا بہت چہ بجبیں ہوا کرتے۔ دیکھو سہیل صاحب ‘مہاراج کہتے ہیں کہ آدھی دنیا اُن کی شاگرد ہے تو کیا تین ارب لوگ اُن کے شاگر د ہیں؟ کیا یہ تین ارب لوگوں کو ڈانس سکھا چکے ہیں؟ کبھی کبھی ہم نے ساگا صاحب سے یہ کہنا کہ آپ یہ بات براہ راست مہاراج کتھک سے ہی کیوں نہیں بول دیتے؟ تو اُن کا جواب عموماً یہی ہوتا تھا؛ چھوڑو اب کون اُن کے ساتھ بحث کرے۔ان دونوں کے درمیان اس طرح کی بحث اکثر چلا کرتی تھی ۔ ہمارے سیاستدانوں کے حوالے سے بھی یہی صورت حال ہے کہ اب کیسے اُن سے پوچھا جائے کہ حضور! آپ کس فارمولے کے تحت یہ جان لیتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہیں؟
اچھی بات تو یہی قرار دی جاسکتی ہے کہ حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں بائیس کروڑ عوام کو اپنے ساتھ ملانے کی بجائے ‘ خوداُن کے ساتھ مل جائیں۔عالم یہ ہوچکا کہ تاجر حضرات آرمی چیف سے مل کر اُن کو اپنی درخواستیں پیش کررہے ہیں۔اندازہ ہے کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کم از کم 20سے 25لاکھ افراد بے روز گار ہوچکے ہیں۔ بے شمار انڈسٹری بند ہوچکی۔ سابق دورحکومت میں شروع ہونیوالے بے شمار میگا پراجیکٹس وہیں کے وہیں رکے ہوئے ہیں ۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سب سے بڑا اورنج لائن ٹرین منصوبہ جیسے ٹھپ ہی ہوچکا۔ جب یہ منصوبہ شروع ہوا تو تب اِس کی لاگت کا تخمینہ 1.62ارب ڈالر لگایا گیا تھا ‘جس کی لاگت آج 2.70ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ملکی معیشت میں جو جمود طاری ہے‘ اُس کے ختم ہونے کے آثار بھی نظرنہیں آرہے ۔مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ان حالات میں مولانا نے آزادی مارچ کا ڈول ڈال دیا ہے۔اس سے کچھ حاصل وصول ہوتا ہے یا نہیں؟عوام کے لیے مزید مشکلات ضرور پیدا ہوجائیں گی۔ ملک کے حالات مزید دگرگوں ہوں گے۔ یہ بات تحریک انصاف کو تو سمجھ میں نہیں آسکی تھی‘ جس کے 126روزہ دھرنے نے پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا اور پوری قوم ٹک ٹک دیدم ‘ دم نہ کشیدم کی صورت نظرآتی رہی تھی۔کئی روز تک پاکستان عوامی تحریک نے بھی کندھے سے کندھا ملایا‘ لیکن پھر ایک رات خاموشی سے واپسی کی راہ لی۔ بعد میں امپائر کی انگلی نہ اُٹھنے پر تحریک انصاف نے بھی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔اب قوم کو ایک اور دھرنے کا خمیازہ بھگتنے کے لیے خود کو تیار کرلینا چاہیے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جنہوں نے خود 126دنوں تک دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ اب‘ اُن کی طرف سے مولانا کے مارچ کو ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا جارہا ہے۔ہرروز وزرا کے بیانات اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنتے ہیں۔ وفاقی وزیرفواد چوہدری قرار دیتے ہیں کہ مولانا کے آزادی مارچ کے دومقاصد ہیں‘ اپنی سیاسی حیثیت کی بحالی اور مدرسہ اصلاحات کو روکنا۔ دونوں وفاقی وزرا کی طرف سے والدین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکیں۔اس دھرنے کو بہت تواتر سے ملک کے لیے نقصان دہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔اب‘ کوئی تو پوچھے کہ جناب جب آپ نے اسلام آباد میں تماشا لگایا تھا تو تب یہ ملک کے لیے فائدہ مند تھا؟جو مردوحضرات 126دنوں دھرنے میں تھے‘ وہ کسی اور ملک کے باشندے تھے؟بعد میں حساب کتاب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس دھرنے کے باعث ملکی معیشت کو547ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔تب کی حکومت نے دعوی کیا تھا کہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کوبھی 36کروڑروپے اضافی ادا کرنا پڑے تھے۔ ملکی دارالحکومت کے تاجروں کا دعویٰ رہا کہ اُنہیں 10ارب روپے کا نقصان ہوا۔شہری جس مصیبت میں گرفتار رہے‘ وہ ایک الگ کہانی ہے۔
تحریک انصاف کے 2014ء میں جاری رہنے والے 126دنوں کے طویل دھرنے کو آج تکjustify نہیں کیا جاسکا۔ اُس دھرنے نے سب کچھ زیروزبر کرکے رکھ دیا تھا۔ اب‘ مولانا فضل الرحمن حکومت کی بساط لپیٹنے کی نیت سے اسلام آباد کی طرف پابہ رکاب ہورہے ہیں ۔ویسے ہی جیسے 2014ء والوں نے بھی یہی مقصد لے کر اسلام آباد کا رخ کیا تھا۔ کیسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نیا دھرنا کیا رخ اختیار کرے گا؟ کیا ستم ڈھائے گا؟اتنا ضرور ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی پھول تو کھلیں گے نہیں۔ آج ؛اگرچہ مولانا کے آزادی مارچ کو حکومت کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ قرار دیا جارہا ہے کہ آزادی مارچ کا مقصد سیاسی مقاصد کا حصول ہے ۔ پوچھنا تو بنتا ہے کہ 2014ء کے دھرنے کا مقصد بھی تو سیاسی مقاصد کا حصول ہی تھا۔ اگر آپ نے وہ راستہ اختیار کیا تھا تواب کسی دوسرے کو اس سے روکنے کا بظاہر تو کوئی اخلاقی جوا ز نہیں بنتا ۔
اگر تب بھی دوسروں کی نصیحت اور مشوروں پر کان دھر لیے جاتے تو کم از کم آج مولانا کے پاس یہ جواز تو نہ ہوتا کہ میں بھی تو وہی کچھ کررہا ہوں جو کچھ آپ نے کیا تھا۔نقصان اُس دور میں بھی ہوا تھا اور نقصان اب بھی ہوگا۔ یہ بات نہ 2014ء والوں نے سمجھی اور نہ 2019ء والے سمجھنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمارا گلستاں جنگل تو بن ہی چکا‘ جہاں سب کی اپنی اپنی بولیاں ہیں ‘سو بولی جارہی ہیں۔
الغرض ہمارا گلستاں‘ جنگل تو بن ہی چکا۔خود سیکھنے اور اپنے بچوں کو بھی اخلاقیات کے سبق پڑھانے کے زمانے لد چکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں