"FBC" (space) message & send to 7575

جب لاد چلے گا بنجارہ

کسی کو طاقت اور اختیار مل جانے سے وہ تبدیل نہیں ہوجاتا ‘ بس اُس کا اندرآشکار ہوتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ اندر کا باہر آناعالی ظرف اور ادنیٰ کے فرق کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ عالی ظرف کو طاقت اور اختیار ملے تو وہ مخلوق خدا کی بھلائی کرتا ہے‘ ادنیٰ اُس کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔طاقت اور اختیار کے نشے میں اندھا ہوجاتا ہے۔تکبر اور گھمنڈسے چور تباہی اور بربادی کے راستے پر بگٹٹ بھاگتا ہے۔ دم رخصت آن پہنچتا ہے تو حیرانی و پریشانی جکڑ لیتی ہے کہ اتنی جلدی اُسے موت نے آن لیا ہے۔؎
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
کچھ کام نہ آوے گا تیرے‘ یہ لال زمرد سیم و زر
جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
پر ہم سے پہلے جانے والے سمجھے‘ نہ ہم سمجھیں گے۔ملک کے تمام ادارے ایسے ہی تو زوال کا شکار دکھائی نہیں دیتے۔ طویل عرصے بعد ملک بھر میں اپنی نوعیت کے اکلوتے‘ کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ جانے کا اتفاق ہوا ‘تویہی سب کچھ دل میں آتا رہا۔ معلوم نہیں کہ ہم خود سے بھی کب مخلص ہوں گے؟ بس اختیارات کا حصول ‘ اُن کا بے دریغ استعمال اورمفادات کی تکمیل ہی ہمارا مطمح نظر ٹھہرا ۔ یوں ہی توہمارے ملک کے بیشتر ادارے زوال کا شکار نہیں ہیں۔ سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے‘ سب کا ایک ہی تو نوحہ ہے۔ 30دسمبر1973کو کس آن ‘ بان اور شان سے ملک کے پہلے فولاد ساز کارخانے کا افتتاح ہوا تھا۔ 18ہزار 6سو ایکٹر رقبہ‘ بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ۔وہ دور بھی آیا‘ جب 26ہزار ملازمین ہونے کے باوجود یہ منافع میں چل رہا تھا‘پھر اقربا پروری ‘ بدانتظامی اور بعض مقامی طاقتور گروہوں کی اجارہ داری نے اسے بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ کہاں 30لاکھ ٹن کی پیداواری صلاحیت اور کہاں صرف دس لاکھ ٹن کی پیداوار۔ملازمین کو تنخواہیں مل جائیں‘ تو غنیمت جانا جاتا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن بھی تو ایک شاندار ادارہ ہوا کرتا تھا۔ آج بھی اس بات پر خوشی محسوس کی جاتی ہے کہ ہماری ائیرلائن نے متعدد دوسری ائیرلائنز کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔اور تو اور ایمریٹس جیسی شاندار ائیرلائن بھی اپنی پرواز کے لیے پی آئی اے کی ہی شکرگزار ہے۔پاکستان ریلویز بھی ایک شاندار ادارہ ہوا کرتا تھا‘ لیکن پھر جو بھی آیا ‘ اُس نے اسے برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔موجودہ وزیرریلوے نئی ٹرینیں چلانے کے بہت شوقین ہیں۔بہت دھوم دھڑکے سے نئی ٹرینیں چلا تو دی جاتی ہیں‘ لیکن دوچار ماہ بعد اُن کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔اِن اداروں کی بربادی کی تاریخ تو بہت طویل ہے ۔اب تو حال یہ ہوچکا کہ یہاں وہ ادارے بھی محفوظ نہ رہے‘ جن کا فنکشنل ہونا ‘ انسانی زندگیاں بچانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ 
پی کے ایل آئی میںگھومتے ہوئے‘ وہ دن بھی نظروں میں گھومنے لگے‘ جب پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نے اس کا افتتاح کیا تھا۔22ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی تکمیل پریہاں جگر کی ماہانہ چار پیوندکاریاں کی جانی تھیں۔ گویا ایک سال کے دوران 48انسانوں کو نئی زندگی ملتی۔ اُن اخراجات کی بچت بھی ہوتی‘ جو بیرونی ممالک میں جا کر علاج کرانے پر اُٹھتے ہیں۔ اندازہ تھا کہ جگر کی پیوند کاری کے ایک کیس پر بیس سے پچیس لاکھ روپے روپے لاگت آئے گی ۔ بیرون ملک جا کر یہ علاج کرنے میں بعض صورتوں میں 60سے 70لاکھ روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔قدرے سستا علاج دستیاب ہونے پر بیشتر افراد بھارت جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پہلے تو حصول ویزہ کے لیے دھکے کھانے پڑتے ہیں اور اُس کے بعد وہاں جا کر بھی خود کو زیادہ محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا‘ اسی تناظر میں ادارے کے قیام کا بیڑا پہلے پہل تو ڈاکٹرسعید اختر اور اُن کے ساتھیوں نے اُٹھایا تھا ۔معروف یورالوجسٹ ڈاکٹرسعید اختر طویل عرصے سے امریکہ میں پریکٹس کررہے تھے ۔خواہش تھی کہ اپنے ہموطنوں کے لیے بھی کچھ کریں۔یہ سوچ ادارے کے قیام کی وجہ بنی۔ پہلے یہاں صرف گردوں کے امراض کا علاج کیا جانا تھا ‘لیکن 2013ء میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ ڈاکٹر سعید اختر کی ایک ملاقات نے سب کچھ تبدیل کردیا۔ڈاکٹرسعید اختر اور اُن کی ٹیم کو پیشکش کی گئی کہ جگہ اور فنڈز حکومت پنجاب فراہم کرے گی ‘لیکن آپ کڈنی کے ساتھ لیور ٹرانسپلانٹیشن کو بھی منصوبے میں شامل کریں ۔ اس کے بعد منصوبے پر کام شروع ہوگیا۔ہدف یہ بھی تھا کہ 2030ء تک ملک سے ہیپاٹائٹس بی اور سی کا بھی خاتمہ کردیا جائے گا۔یہی وہ امراض ہیں ‘جو جگر کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔اندازہ ہے کہ ملک بھر میں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ افراد کی تعداد دوکروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ ایک مخصوص مدت کے بعد یہاں مستحق افراد کو علاج کی مفت سہولیات بھی فراہم کرنا شروع کی جانی تھیں ‘اسی دوران منصوبے کے حوالے سے اقربا پروری کی شکایات بھی سامنے آتی رہیں۔ خصوصاً اُس وقت کے سیکرٹری ہیلتھ اور ایک ممبر پی اینڈ ڈی کا نام تواتر سے سامنے آتا رہا‘ لیکن منصوبے پر کام بہرحال جاری رہا۔
2018ء میں منصوبے پر ازخود نوٹس آگیا اورجو کام جہاں تک وہیں ٹھپ ہوگیا اور کچھ قطع و برید کے ساتھ آج بھی وہیں رکا ہوا ہے۔ ازخود نوٹس لیے جانے کے بعد جو کچھ ڈاکٹر سعید اختر اور اُن کی ٹیم کے ساتھ ہوتا رہا‘ یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ جس ادارے میں جگرکی ماہانہ چار پیوندکاریوں کی جانی تھیں‘وہاں آج تک صرف تین افراد میں جگر کی پیوند کاری کی جاسکی ہے۔ ہسپتال کے کچھ ذمہ داران سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اب جگر کی پیوند کاری کا عمل بالکل رک چکا ہے‘ جس کے بحال ہونے کے زیادہ آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔خیال آیا کہ جب ہم اپنے ہی محسنوں سے یہ سلوک کریں گے تو یہ سب تو ہوگا۔ حکومت کی تبدیلی کے فوراً بعد ڈاکٹرسعید اختر کو اُن کے عہدے سے الگ کرکے اُن کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔محکمہ اینٹی کرپشن کو اُن کے خلاف تحقیقات کے احکامات صادر کردئیے گئے۔اُن دنوں کے دوران ایک آدھ مرتبہ اُن سے سرسری سی ملاقات بھی ہوئی۔ پریشانی اُن کے چہرے سے عیاں تھی۔ کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی تھا کہ واپس اپنے وطن آکر کام کرنے کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔اُنہیں خدشہ تھا کہ کہیں اُنہیں جیل نہ بھیج دیا جائے۔یہ خدشہ کچھ بے جابھی نہیں تھا‘ کیونکہ ہمارے سابق چیف جسٹس صاحب کی عدالت میں ہرپیشی پر اُن کے ساتھ جو کچھ ہوتا تھا‘وہ اس خدشے کو تقویت پہنچانے کے لیے کافی تھا۔ وہ صرف اس بات کے متقاضی نظرآئے کہ کسی طرح وہ اس مشکل سے نکل آئیں اور واپس امریکہ چلے جائیں۔اللہ اللہ کرکے جان چھوٹی اور اس کے ساتھ ہی پی کے ایل آئی منصوبے کے تارپود بھی بکھر گئے ‘جو ابھی تک بکھرئے ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہوا‘ جو کڈنی فیلئیر میں دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ آنے والے دنوں میں ہمارے ہاں گردے کے امراض میں اضافہ ہی ہوگا ‘ کمی نہیں آئے گی۔ نہ ہم نے اپنا لائف سٹائل تبدیل کرنا ہے‘ نہ ایسے امراض میں کمی آنی ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہوا‘ جس کے تقریباً دوکروڑ باشندے ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے ۔ اندازہ ہے کہ ہرروز 360سے 420افراد ہیپاٹائٹس اور اس کے باعث پیدا ہونے والے دوسرے امراض سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ تو ہے کہ وہ پی کے ایل آئی کو مکمل طور پر فعال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ان دعووں کی صداقت‘ اگر ٹھپ ہوئے پڑے دوسرے منصوبوں کے تناظر میں پرکھی جائے‘ تو بات کچھ ڈانواڈول ہی نظرآتی ہے۔ مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہی ہوگا تو پھر بھی ابھی تک ادارے کے فعال نہ ہونے کی وجہ سے جن افراد کی زندگیاں گئیں‘اُن کا کیا قصور تھا؟جن لوگوں نے اپنی لگی لگائی کمائیاں چھوڑ کر اپنے وطن کا رخ کیا تھا‘ کیا اُن کا حال دیکھ کر دوسرے لوگ سبق نہیں سیکھیں گے؟ سیکھیں گے ضرور سیکھیں گے۔اب نہ وہ رہے‘ جنہوں نے منصوبے پر کام شروع کیا تھا‘ بلے بلے واہ واہ سمیٹ کر اُنہوں نے بھی اپنی راہ لی‘ جنہوں نے خوب سبق پڑھایا۔ کوئی نہ کوئی تو یہ سب ہونے کا قصور وار ہے۔ کچھ وقت اور گزرتا ہے کہ؎ 
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
کچھ کام نہ آوے گا تیرے‘ یہ لال زمرد سیم و زر
جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں