"FBC" (space) message & send to 7575

اک المیہ تازہ

سوچ بچار پر تو کبھی بھی پہرے نہیں رہے ‘اپنے گریبان میں جھانکنے پر بھی کبھی کوئی پابندی نہیں رہی ‘پھر بھی ہم سوچتے ہیں‘ نہ ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ زندگی سلیقے سے سنورتی ہے‘ بے ہنگم پن اور افراتفری سے نہیں۔ حقیقت کو جھٹلاتے رہنے اور صرف بیان بازی سے کبھی کبھار تو کام چل سکتا ہے ہمیشہ نہیں‘ بدقسمتی سے اس نکتے کو ہم نے کبھی درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا۔؎
نظر کی موت اک المیہ تازہ ہے
اور اتنے میں نظارہ مر رہا ہے
2014ء والوں نے حکومت کو ہٹانے کیلئے جو ہنگام برپا کیا ‘ اُس نے گویا پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھا۔ سب نے سمجھایا ‘ بتایا‘ لیکن مرغے کی ایک ٹانگ ہی رہی ۔ اب‘ 2019ء والوں نے بھی کمرکس لی ہے کہ کسی بھی قیمت پر اسلام آباد پہنچ کرہی پاؤں رکابوں سے نکالیں گے۔چند روز پہلے تک تو مولانا کے آزادی مارچ کو لہوگرم رکھنے کا بہانہ ہی قرار دیا جارہا تھا‘ لیکن بدلتی صورتحال نے مارچ کو ہنسی مذاق میں لینے والوں کو سنجیدہ ضرورکردیا ہے۔مارچ والوں سے مذاکرات کیلئے حکومتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے کہ معاملات میں بہتری لائی جاسکے۔ ابہام پایا جاتا تھا کہ معلوم نہیں مسلم لیگ ن ‘ آزادی مارچ میں مولانا کا دست بازو بنے گی یا نہیں؟ کہا تو یہ بھی جاتا رہا تھا کہ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے دونوں بڑوں میں خونی رشتہ ہونے کے باوجود اختلافات موجود ہیں۔ بادی النظر میں یہ گمان غلط بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا‘ لیکن میاں نواز شریف کے جیل سے لکھے گئے خط کے بعد اُڑتی گرد بیٹھ گئی۔ واضح کردیا گیاکہ مسلم لیگ ن ‘ آزادی مارچ میں بھرپورشرکت کرے گی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ خیالات کے فرق کے باوجود چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو مایوس نہیں کیا۔یہ کہانی تو 1992ء سے ہی چل رہی ہے‘تب سے لے کراب تک ایک سے زائد مواقع پر ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے میاں شہباز شریف کوآگے بڑھنے کے اشارے ملے۔روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا کہ میاں شہباز شریف کیلئے آگے بڑھنے کی پیشکش ہر دور میں بھی موجود رہی‘ تو بعض حلقوں کے مطابق یہ پیشکش اُن کیلئے جنرل مشرف کے دور میں بھی موجود رہی۔میاں شہباز شریف نے ہربار بڑے بھائی کو پیٹھ دکھانے سے گریز کیا ۔ اب‘ آزادی مارچ کے معاملے پر بھی اُنہوں نے نواز شریف کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ تادم تحریر ‘ جماعت اسلامی کو مارچ میں شرکت پر آمادہ کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ پیپلزپارٹی مارچ کی حمایت تو کررہی ہے‘ لیکن وہ دھرنے میں شرکت کے لیے آمادہ نہیں۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے بہت واضح موقف اپنایا گیا ہے کہ وہ کسی بھی جمہوری حکومت کو غیرجمہوری طریقے سے حکومت کو ہٹانے کے حق میں نہیں۔اگر پیپلزپارٹی آزادی مارچ میں شرکت نہیں بھی کرتی تو بھی بہرحال مولانا کے ساتھ ہی ہے۔
گویا بظاہر 2014ء جیسے مناظر ایک مرتبہ پھر دکھائی دینے کے تمام عناصر دستیاب ہوچکے ہیں۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے کے اندر اندر ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ہرطرف سے حکومت مخالف آوازیں اُٹھ رہی ہیں؟اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو دھرنوں کیلئے مٹی کو زرخیز حکومت نے ہی بنایا ہے۔ صورت ِحال میں بہتری کے حوالے سے صرف بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہی سنائی دیتا ہے ۔ عملاً کوئی ایک شعبہ زندگی بھی مطمئن نظر نہیں آرہا ۔ ملکی اقتصادیات میں ریڑھ کی ہڈی قرار دئیے جانے والے تاجروں نے ایک مرتبہ پھر ملک گیرہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔مان لیتے ہیں کہ حکومت معاشی سرگرمیوں کو مکمل ڈاکیومینٹیشن کی طرف لانا چاہتی ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کے لیے واضح نظام وضع کیا جائے‘ اگر ایسا ہی کرنا مقصود ہے تو اس کام کو دھیرے دھیرے بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔ اب ‘یہ عالم ہوچکا کہ تاجرملک گیر ہڑتال کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب میں ہونیوالی تاجروں کی ایک پریس کانفرنس کے دوران تاجروں کے تمام دھڑوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کافی حیرانی بھی ہوئی ۔
سب کے سب ہڑتال پر متفق دکھائی دئیے۔پنجاب بھر میں ڈاکٹر ہفتے بھر سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ پیرامیڈیکس سٹاف بھی ڈاکٹروں کے شانہ بشانہ ہے۔ سب کے سب ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف ہڑتا ل پر ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ سے نظام صحت میں بہتری آئے گی۔ ہڑتالی کہتے ہیں کہ اس سے علاج معالجہ مزید مہنگا ہوجائے گا۔ ڈاکٹروں کیلئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ دونوںکے دلائل میں ہی وزن ہو‘اس سے قطع نظر حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ہسپتالوں میں ہڑتال کے باعث مریض شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے میوہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر مریضوںکو انتہائی تکلیف دہ حالت میں خود دیکھا۔ ان میں فاروق آباد سے آیا ہوا مریض شکیل احمد بھی تھا۔مثانے کا آپریشن ہوا‘ لیکن انفیکشن ہوجانے کی وجہ سے اُسے دوبارہ ہسپتال میں آنا پڑا ‘لیکن وہاں کوئی پرسان حال نہیں تھا۔انہیں مریضوں میں بچوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات مل رہی ہیں۔ کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کی مکمل ہڑتال کے باوجود مریضوں کو تمام سہولیات مل رہی ہیں؟ایک کروڑ نوکریاں تو کیا ملتیں ‘ اُلٹا لاکھوں کو اُن کے روزگار سے محروم کیا جاچکاہے۔
اِن حالات میں اگر مولانا نے مارچ کا ڈول ڈالا ہے‘ جس کو عوامی سطح پر اگر بہت پذیرائی نہیں ملی تو اس کی بہت زیادہ مخالفت بھی دیکھنے میں نہیں آئی‘جو کچھ خود کیا جاتا رہا‘ آج دوسروں کو اُس سے منع کیا جارہا ہے۔بلاشبہ دھرنوں کی سیاست کسی بھی جمہوری معاشرے میںزیب نہیں دیتی ‘لیکن جب ایک مرتبہ کوئی روایت ڈال دی جائے تو پھر آنے والے وقتوں میں دوسرے بھی اس کی پیروی کرسکتے ہیں‘اگرآج مولانا فضل الرحمن ‘اسی روایت پر عمل کرنے جارہے ہیں تو پھر اتنا واویلا کیوں؟ چارسو اداروں کی بندش کی ‘خوشخبری‘سنانے والے وفاقی وزیر فواد چوہدری گمان کرتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی حیثیت کی بحالی اور مدارس میں کی جانے والی اصلاحات کو روکنا چاہتے ہیں۔ بعض یہ دور کی کوڑی بھی لائے ہیں کہ آزادی مارچ سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے ‘ وغیرہ۔
اِس بات کی بھی دہائی دی جارہی ہے کہ مارچ اور دھرنے کے باعث پہلے سے ڈانواںڈول معیشت کو مزید جھٹکے لگیں گے‘ اگر یہ بھی بتا دیاجاتا کہ 2014ء میں دھرنوں کے باعث معیشت کو کتنے جھٹکے لگے تھے توبہت اچھی بات ہوتی۔حساب کتاب کرنے والے خود ہی حساب کتاب کرلیتے کہ اب کے معیشت پر کتنا بوجھ پڑے گا؟ حکومت کو سوائے اپنے وزراء کے کسی دوسری طرف سے ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی ‘ان وزرا میں میں اُن کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے‘ جو اس سے پہلے بھی کئی ایک حکومتوں کو ٹھنڈی ہوا دے چکے ہیں ۔ یقین جانئے اگر کچھ فیصلے سوچ سمجھ کر کیے گئے ہوتے تو صورت حال اتنی جلدی کبھی بھی اِس نہج پر نہ پہنچتی ‘جس پر پہنچ چکی ہے ۔اتنی جلدی حکومت کے خلاف اتنی آوازیں اُٹھنا شروع نہ ہوتیں‘ جتنی جلدی یہ اُٹھ رہی ہیں۔اسی لیے تو مٹی زرخیز ملی ہے تو مولانافضل الرحمن نے بھی فصل بونے کا ارادہ کرلیا ہے۔ ڈٹ گئے ہیں کہ حکومت ختم کیے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں لوٹیں گے‘ نہ 2014ء والے باز آئے تھے اور نہ 2019ء والے باز آنے کے لیے تیار نظر آرہے ہیں ۔ ؎
نظر کی موت اک المیہ تازہ ہے
اور اتنے میں نظارہ مر رہا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں