"FBC" (space) message & send to 7575

یہ ہمارے بچے ہیں

وہ شکل و صورت کا بہت اچھا تھا۔ پڑھا لکھا بھی بہت تھا۔ خیبرپختونخوا میںگورننس اینڈ پالیسی پراجیکٹ میں بطورِ کنسلٹنٹ اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔ہرماہ‘ مراعات کے علاوہ 3لاکھ 45ہزار روپے تنخواہ بھی وصول کررہا تھا۔ مطلب یہ کہ بظاہر زندگی میں کوئی کمی نہیں تھی‘ لیکن پردے سرکے تو سب کچھ دھڑم سے زمیں بوس ہوگیا۔ ایک بچے کے والد کی شکایات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُس کے گرد گھیرا تنگ کیا ۔ تحقیقات آگے بڑھی‘ تو اُس کے خلاف معصوموں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کے بے شمار واقعات کی کڑیاں ہاتھ لگ گئیں۔مناسب شواہد ہاتھ لگنے پر پولیس نے بظاہر شاندار شخصیت کے مالک سہیل ایاز کو گرفتارکرلیا۔ اُس کی رہائش گاہ سے سینکڑوں کی تعداد میں فحش تصاویر اور درجنوں کی تعداد میں ویڈیوز ہاتھ لگیں‘ جنہوں نے اُس کا تمام کچا چٹھا کھول کررکھ دیا۔ تحقیقات آگے بڑھیں‘ تو اس درندہ صفت انسان نے کم از کم 30بچوں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کا اعتراف کرلیا۔ یہ ہوشربا حقائق بھی سامنے آئے کہ وہ پاکستان میں گرفتار ہونے سے پہلے‘ اسی جرم میں برطانیہ اور اٹلی میں بھی سزائیں کاٹ چکا ہے۔جب وہ برطانیہ میں پکڑا گیا ‘تو اُسے سزائے قید سنائی گئی‘ جس کے پورا ہونے پر اُسے ڈی پورٹ کردیا گیا۔ برطانیہ سے وہ اٹلی چلا گیا ‘لیکن فطرت کہاں تبدیل ہوتی ہے۔ وہاں بھی اُس نے اپنی گھناؤنی حرکتیں جاری رکھیں‘ جن کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر قانون کی گرفت میں آگیا۔ سزا بھگتنے کے بعد جب اُسے وہاں سے ڈی پورٹ کیا گیا تو وہ پاکستان آگیا۔ یہاں آکر اُس نے نومبر 2017ء میں بطور کنسلٹنٹ گورننس اینڈ پالیسی پراجیکٹ میں ملازمت اختیار کرلی ۔ اُس کا یہ کنٹریکٹ چار سال کا تھا۔ ایک اچھے ادارے میں اچھے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اُس نے یہاں بھی اپنی گھناؤنی حرکتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ وہ اپنی بنائی گئی ویڈیوز کو ایک بین الاقوامی گروہ کے ہاتھوں فروخت کرتا اور اُس کے عوض وہ اُن سے بھاری رقوم حاصل کرتا۔اب‘ یہ شخص قانون کی حراست میں ہے ‘جس کے خلاف تین مختلف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تحقیقات مکمل ہونے کے بعدیہ درندہ اپنے کیے کی جو سزا بھگتے گا‘ وہ تو بھگتے گا ہی‘ لیکن اُن بچوں کا بچپن اُنہیں کون واپس دلا سکتا ہے؟کوئی نہیں کیوں کہ یہ کسی کے بس کی بات ہے ہی نہیں۔ وہ اس لیے بھی کھل کھیلتا رہا کہ اُس کی سماجی حیثیت کے پیش نظر اُس پر دھیان ہی نہیں جاتا ہوگا۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملازمت حاصل کرتے وقت کسی نے اُس کا ماضی کھنگالنے کی زحمت کیوں گوارہ نہ کی؟اگر یہ کوشش کرلی جاتی تو اُس کا تمام کچا چٹھا سامنے آجاتا۔ معلوم ہوجاتا کہ وہ بیرون ملک قیام کے دوران کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ اُس کا ماضی کھنگالنے کی زحمت قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے بھی ضروری تھی۔ اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر اُس سنگین مسئلے کی سنگینی کو پوری طرح سے اُجاگر کیا ہے‘ جو ہمارے معاشرے میں سرایت کرتا جارہا ہے۔اس سے پہلے قصور میں پے درپے پیش آنے والے واقعات اور پھر زینب کیس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ احتجاج کے بعد پولیس نے کوشش کرکے عمران نامی شخص کو گرفتار کیا‘ جس کا جرم ثابت ہونے پر اُسے سزائے موت دے دی گئی‘ پھر چونیاں میں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اور اُن کو قتل کردئیے جانے کے واقعات نے سنسی پھیلا دی تھی۔اب‘ ان واقعات کا ملزم بھی پکڑا جاچکا ہے۔ قصور اور چونیاں میں پیش آنے والے واقعات کو مثال بناتے ہوئے یقین کرلیجئے‘ ‘یقین کرلیجئے کہ اگر وہاں وسیع پیمانے پر احتجاج نہ ہوتا تو یہ درندے شاید مزید کافی عرصے تک قانون کی گرفت میں نہ آتے۔ قصور میں کم از کم سات بچیوں کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔ اِس دوران جب پولیس پر دباؤ بڑھا‘ تو اُس نے ایک رکشہ ڈرائیور کومقابلے میں پار کردیا۔ اس نوجوان کی ہلاکت کو پولیس نے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا۔ جب اصل درندہ عمران پکڑا گیا ‘تو پولیس مقابلے کی حقیقت بھی کھل گئی۔ اندازہ لگائیے کہ رکشہ ڈرائیور کے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی‘ ایک تو اُن کا جوان بیٹاگیا اور وہ بھی ایک گھناؤنے الزام میں؛اگرچہ بعد میں متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا‘ لیکن ایسے مقدمات کا پہلے کبھی کچھ بنا ہے جو ‘اب بنتا ہے۔ سو‘ نوجوان کے اہل خانہ بھی رودھوکر چپ ہورہے اور اِس وقت تمام ذمہ دار پولیس اہلکار نا صرف بحال ہوچکے ہیں ‘بلکہ بخیروخوبی اپنے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں‘اسی بنا پر چونیاں کیسز میں پکڑے جانے والے ملزم کی گرفتاری پر بھی سوالات اُٹھے تھے‘ جنہیں اعلیٰ سطح سے دور کرنا پڑا تھا۔؎ 
اُڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کر بچپن کے زمانے نہیں آتے
اگر ان پرندوں کے اُڑنے سے پہلے ہی ان کی اُڑان کا گلا گھونٹ دیا جائے تو ...تو کوئی بھی صاحب ِدل ایسا نہیں ہوگا‘جس کا دل خون کے آنسو نہیں روتا ہوگا‘ پھر بھی ہمارے ہاں ان معصوموں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آرہا ۔یہ توصرف چند ایک مثالیں ہیں‘ ورنہ تو یہ معاشرتی برائی بہت تیزی سے معاشرے میں اپنی جڑیں پھیلاتی جارہی ہے۔ اب‘ تو ہروقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ آخر ہم سب بال بچوں والے ہیں۔ کیا معلوم کہ کب کون سا درندہ ہمارے بچوں کو بھی اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا لے۔اس برائی سے شاید ہی کوئی قصبہ ‘ کوئی شہر‘ کوئی علاقہ محفوظ رہا ہو۔کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے‘ لیکن بات کو سمجھنے کے لیے سامنے نظرآنے والے حقائق کو بہت کھول کر بیان کرنا بھی شاید مناسب عمل نہیں ہوگا۔بدقسمتی تو دیکھئے کہ ایسے واقعات میںزیادہ ترخاندان کے قریبی افراد بھی ملوث ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جن پر یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو اپنے بچے سمجھتے ہیں۔ ہم گمان کرتے ہیں کہ وہ وہ ہمارے بچوں کی حفاظت بھی اپنے بچوں کی طرح کریں گے۔ اندازہ لگانے کی کوشش تو کیجئے کہ یہ واقعات اپنوں پر کئے گئے اعتماد کو بھی کس طرح کرچی کرچی کررہے ہیں۔زندگی میں ہمیں بے شمار افراد پر اعتماد کرنا پڑتا ہے‘ لیکن جب یہ اعتماد اس گھناؤنی صورت میں ٹوٹے تو دل کی کرچیاں کیسے کیسے نہیں بکھرتی ہوں گی؟ رواں سال کے آغاز پر ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال ملک بھر میں بچوں سے زیادتی کے 4139واقعات رپورٹ ہوئے۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب میںرپورٹ ہوئے‘ جن کی تعداد 1089تھی۔ ان واقعات میںبااثر افراد کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف سامنے آیا تھا۔ یہ صرف و ہ واقعات ہیں ‘جو رپورٹ ہوئے‘جو رپورٹ نہیں ہوئے‘ اُن کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا تو شاید مشکل ہے‘ لیکن وہ بہرحال رپورٹ ہونے والے واقعات سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ 
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے دیہات اس قباحت سے محفوظ ہیں تو وہ بھی غلطی پر ہے۔ اندازہ ہے کہ ایسا 70فیصد واقعات دیہاتوں میں پیش آتے ہیں۔ وہاں‘ چونکہ سماجی دباؤ زیادہ ہوتا ہے ‘ اس لیے علم ہوجانے کے باوجود اکثر والدین خاموش رہتے ہیں۔ یہ خاموشی بھی اکثر ملزموں کے حق میں جاتی ہے۔اس خاموشی سے ملزموںکو حوصلہ بھی ملتا ہے۔شہروں میں اس طرح کے واقعات زیادہ تر بے گھر بچوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ گھروں سے بھاگے ہوئے بچے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگ جاتے ہیں ۔ انہیں پناہ اور کھانے کا لالچ دے کر بھی مسلا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے ہوئے تو عرصہ ہوچکا کہ یہ قباحت مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ ضرور ہے کہ ہماری کوششیں اور توجہ ایسے واقعات میں کمی ضرور لاسکتی ہیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھیں۔ اُن کے ساتھ وقت گزاریں۔صرف اُن کے ساتھ وقت گزارنے کے دوران ہی اُن کی حرکات اور روئیے میں تبدیلی کی بابت جانا جاسکتا ہے‘جانا جاسکتا ہے کہ وہ کہیں کسی کرب سے تو نہیں گز ر رہے۔متعدد صورتوں میں والدین جان ہی نہیں پاتے کہ اُن کا بچہ کس قباحت کا شکارہورہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ وقت نہ گزارنا ہی ہوتی ہے۔ فحش ویب سائٹس تک رسائی کو جتنا مشکل بنایا جاسکتا ہے‘ بنایا جانا چاہیے۔ فحش ویب سائٹس تک آسان رسائی تو ہمارے ہاں خطرے کی حد سے بھی آگے جاچکی ہے ۔ ڈارک ویب کا معاملہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ بچوں کے حوالے سے کسی بھی صورت‘ کسی پر بھی ایک حد سے زیادہ اعتماد ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔یہ ہمارے بچے ہیں۔ ہمارا مستقبل ان سے ہی وابستہ ہے۔
''میرے رونے کا جس میں قصہ ہے‘عمر کا بہترین حصہ ہے ‘‘ عمر کے اس بہترین حصے کو خوب صورت ہی ہونا چاہیے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں