"FBC" (space) message & send to 7575

سیاسی پب جی

پب جی موبائل پر کھیلی جانے والی موجودہ دور کی مقبول ترین گیم ہے۔ یہ گیم پہلی مرتبہ 2017ء میں ریلیز کی گئی تھی‘ جسے صرف کمپیوٹر پر ہی کھیلا جاسکتا تھا۔ ریلیز ہونے کے ابتدائی چار ماہ کے دوران ہی اسے تقریبا ً10ملین افراد کھیل چکے تھے۔ اس کی مقبولیت بڑھی تو گزشتہ سال کمپنی نے اس کا موبائل ورژن بھی ریلیز کردیا ۔ماردھاڑ والایہ کھیل کھیلنے والوں کو ایک مخصوس فیلڈ میں زیادہ سے زیادہ افراد کی جان لینا ہوتی ہے اوراس کے ساتھ خود کو بھی بچانا ہوتا ہے۔مخالفین کو مارنے کیلئے ہرطرح کے ہتھیار استعمال کیے جاسکتے ہیں‘ جنہیں مخصوص مقامات پر چھپانے کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے۔ اس کھیل کے دوران کامیابی اُسی کا نصیب بنتی ہے ‘جو زیادہ سے زیادہ دشمن ختم کرنے کے ساتھ خود کو بچانے میں بھی کامیاب رہے۔ مسلسل ایک سسپنس برقرار رہتا ہے‘ جو میدان میں موجود سبھی قوتوں کا خون خشک کیے رکھتا ہے۔ یہ اس کھیل کی سب سے بڑی کشش بھی ہے۔اس گیم کو بیک وقت لاکھوں افراد کھیل رہے ہوتے ہیں‘ جسے یوٹیوب اور فیس بک پر لائیو بھی نشر کیا جاسکتا ہے۔ یہ اِسی کا اعجاز ہے کہ جہاں لاکھوں افراد یہ گیم کھیلنے میں مصروف ہوتے ہیں تو وہیں اُتنی ہی تعداد میں لوگ اِسے دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔یہ گیم ڈیزائن کرنے والی کمپنی نے گزشتہ سال پب جی کا عالمی مقابلہ بھی منعقد کرایا تھا‘ جس میں جیتنے والوں کو قیمتی انعامات سے نوازا گیا تھا۔ حیرت انگیز طور پر اس کھیل میں حصہ لینے والوں میں لڑکیوں کی تعداد بھی لڑکوں سے کم نہیں۔گویا یہ گیم ہرطرف اپنی مقبولیت کے پنجے گاڑھ چکی ہے۔ اس میں دلچسپی رکھنے والوں سے‘ اگر یہ پوچھا جائے کہ آخر اس میںایسی کیا بات ہے‘ جو نوجوان نسل اس کی دیوانی ہوئی جاتی ہے۔ اس سوال پر اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ اس گیم میں خصوصی دلچسپی رکھی گئی ہے۔ اس گیم میںٹارگٹس مسلسل سامنے آتے رہتے ہیں اور یہ گیم کھیلنے والے اُنہیں نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس گیم میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اکثر اسے کھیلنے والے خود بھی جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔
معلوم نہیں کیوں اس گیم کے خدوخال کا جائزہ لے کر یہی احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے ہاں بھی سیاسی سطح پر بھی پب جی ہی کھیلی جارہی ہے۔آج سے نہیں‘بلکہ تب سے ہی جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے۔ ہروقت کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے ۔ ہروقت انجانے سے اندیشے ستاتے رہتے ہیں۔ہروقت ایک سسپنس سا برقرار رہتا ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کس واقعہ کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں ۔ جو کچھ بھی ہورہا ہوتا ہے‘ وہ بالکل ویسا نہیں ہوتا جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ بہت بعد میں معلوم میں پڑتا ہے کہ فلاں واقعہ کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے اور اس کے پیش آنے کی اصل وجوہ کیا تھیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے پب جی میں ہوتا ہے۔ وہاں بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کون کس بل سے نکل آئے اور کس کو نشانہ بنا لے‘ اگر پھر بھی اندازہ نہیں ہوپارہا تھا تو گزشتہ دنوں میانوالی میں کی جانے والی وزیراعظم عمران خان کی تقریر کو بغور پڑھ لیں ۔
کہتے ہیں کہ جب اُن تک سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی رپورٹ پہنچی تو اُس میں لکھا ہوا تھا کہ سابق وزیراعظم کو پندرہ بیماریاں ہیں۔ لکھا ہوا تھا کہ مریض کا اتنا برا حال ہے کہ اگر اُسے فوری طور پر باہر نہ بھیجا گیا تو وہ مر جائے گا۔ بعد میں جب وزیراعظم صاحب نے میاں نواز شریف کے سفر کے رنگ ڈھنگ دیکھے تو حیران ہوئے‘ اِسی حیرانی کی بابت اپنی تقریر میں اُنہوں نے کہا ؛جب میں نے میاں نوازشریف کو جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گیا‘اللہ تیری شان ہے یہ جہاز کا کمال تھا کہ لندن کی ہوا لگنے سے مریض اتنی جلدی ٹھیک ہوگیا‘ اس پر تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اندازہ لگائیے کہ میاں نواز شریف کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان خود کو بڑی حد تک اندھیرے میں محسوس کررہے ہیں‘ اگر اُن کے شکوک درست ہیں تو پھر میڈیکل بورڈز کی رپورٹس‘ میڈیا پر ملنے والی بے تحاشا کوریج اور ایسے ہی دیگر معاملات کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟جواب ملے گا؛ سب سوالات کا جواب ملے گا‘ لیکن تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا۔ کہنے کو اس معاملے پر دورکی کوڑیاں لائی جاسکتی ہیں‘ لیکن بہتر یہی ہوتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک جاننے کے لیے درست وقت کا انتظار کیا جائے۔ 
میاں نواز شریف بیرون ملک جاچکے ہیں اور آصف علی زرداری ہسپتال میں بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ شاید اُن کی تھوڑی بہت بچت ہوجاتی ‘لیکن نون لیگی رہنماؤں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسے جانے کے بعد یکطرفہ احتساب کا شور بلند ہورہا تھا۔ ابھی تک یہی محسوس ہورہا ہے کہ آصف علی زرداری تو بس چیزیں بیلنس رکھنے کی پالیسی کی بھینٹ چڑھ گئے‘ ورنہ تو کمالات زمانہ نے سینیٹ انتخابات میں آگ اور پانی کو پی ٹی آئی‘ پیپلزپارٹی کی صورت یکجا کردیا تھا۔ نواز شریف اور زرداری کے بعداب مائنس عمران فارمولے پر بھی باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ سیاسی پب جی کے اس کھیل میں کچھ عرصہ پہلے تک یہ سب قوتیں ایک دوسر ے کو مشکلات میں مبتلا دیکھ کر خوش ہورہی تھیں۔ جب نواز شریف کو مائنس کرنے کے باتیں شروع ہوئیں تو اس پر پیپلزپارٹی کے اعلیٰ ترین رہنما خوش دکھائی دئیے۔ دوستوں کی طرف سے سمجھائے جانے کے باوجود نہ سمجھ سکے کہ نواز شریف کے بعد اُن کی باری بھی آئے گی۔تب اُنہیں گمان تھا کہ مائنس نواز شریف کے بعد اُن کا راستہ روکنے والا کون ہوگا۔ اب‘ آصف علی زرداری بھی منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی یہی راستہ اپنایا کہ جب نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسی بڑی رکاؤٹیں دور ہوجائیں گی تو پھر راوی ہرطرف چین ہی چین لکھے گا۔ شاید فراموش کربیٹھے کہ چیزیں بنتی بگڑتی رہیں تو کاروبار زندگی چلتا رہتاہے۔اب دیکھ لیجئے کہ وہ وقت بھی آن پہنچا ہے ‘جب مائنس عمران خان کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر وزیراعظم خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔ ملبہ عدلیہ کے سر ڈالنے کی کوشش کی ۔ برملااظہار کیا کہ وہاں کمزوروں کو بھی ویسا ہی انصاف ملنا چاہیے‘ جیسا امیروں کو ملتا ہے۔ معلوم نہیں یہ سب کچھ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ شاید انسان جب خود کو بند گلی میں جاتے ہوئے دیکھنے لگتا ہے تو ہاتھ پاؤں بھی چلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ 
میاں نواز شریف کے معاملے پر جس طرف وزیراعظم صاحب کی انگلی اُٹھی تو اُس طرف سے بھی بھرپورطور پر وضاحت سامنے آگئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی طرف سے واضح کیا گیا کہ عدلیہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے‘عدلیہ کے نزدیک طاقتور اور کمزور کی ایک ہی حیثیت ہے۔ اُنہوں نے بجا طور پر یہ بھی قرار دیا کہ سابق وزیراعظم کو بیرون ملک بھجوانے کا فیصلہ حکومت کا ہے‘ عدلیہ نے تو صرف طریقہ کار طے کیا ہے۔ اس معاملے پر حکومت کو سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔ اب ‘اعلیٰ ترین سطح سے اس معاملے کی شفافیت پر شکوک کا اظہار کرنا بہت کچھ واضح کررہا ہے۔ اس میں بے بسی نظرآتی ہے تو بہت سے ایسے حقائق بھی واضح ہورہے ہیں ‘جن کے خدوخال مزید واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ اب تو فارن فنڈنگ کیس کی بازگشت بھی بڑے زوروشور سے سنائی دینے لگی ہے۔ جیسے پب جی گیم میں ہتھیاروں کو مناسب مقامات پر چھپانے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے‘ جنہیں مناسب وقت پر نکال کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی فارن فنڈنگ اور ایسے ہی دوسرے ہتھیار ہاتھ میں رکھے جاتے ہیں‘ جنہیں بوقت ضرورت استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ وہی کیس ہے‘ جو پانچ برس سے الیکشن کمیشن میں پڑا ہے۔ اب‘ اس کی گرد جھاڑی جارہی ہے۔ حسب ِمنشا نتائج حاصل ہونے کے بعد اسے پھر کسی ریک کی زینت بنا دیا جائے گا۔میاں نواز شریف تو بیرون ملک جاچکے۔ آصف علی زرداری بھی منظر سے غائب ہیں تو پھر جو کچھ ہورہا ہے ‘ کیا یہ ایک قسم کی سیاسی پب جی تو نہیں کھیلی جا رہی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں