"FBC" (space) message & send to 7575

سبق اسباق

مہنگائی کیخلاف 15نومبرکو ایران میںشروع ہونیوالے مظاہروں کی شدت تواب ختم ہوچکی‘ لیکن بے چینی بدستور موجود ہے۔ مظاہرے شروع ہونے کی بنیادی وجہ حکومت کی طرف سے ایندھن کی قیمتوں میں 2 سوفیصد تک اضافہ کرنا بنی ۔ ایک ایسا ملک‘ جو 150ارب بیرل تیل کے تصدیق شدہ ذخائر رکھتا ہو‘ نیز گیس کے ذخائر رکھنے میں بھی یہ دنیا میں دوسرے نمبر پر براجمان ہو‘ وہاں کے عوام کا ا یندھن کے نرخ کم کروانے کیلئے سڑکوں پر آنا‘ حیران کن ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں‘ بلکہ مظاہروں کے دوران حکومت کی تبدیلی کے نعرے بھی لگتے رہے ؛حتی کہ ملک کے سپریم رہنما کے خلاف بھی نعرہ بازی ہوتی رہی۔ ان مظاہروں کی شدت بھی ماضی میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں سے کافی زیادہ رہی۔ اس دوران ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں ایرانی حکومت کی طرف سے تو کوئی اعد ادوشمار جاری نہیں کیے گئے؛ البتہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق قریباً 106افراد کو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس مرتبہ مظاہرین ‘ مظاہرے ختم کرنے کیلئے تیار تھے‘ نہ حکومت کی طرف سے کوئی نرمی برتی گئی ‘جس کے نتیجے میں مظاہرے بہت پرتشدد صورت اختیار کرگئے۔
مظاہروںکے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ اُن علاقوں میں اس کی شدت زیادہ رہی‘ جو اقتصادی طور پر زیادہ محروم علاقے تھے۔ گویا یہ قراردیا جاسکتا ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافے کو ناقابل برداشت گردانتے ہوئے عوام سڑکوں پر آگئے ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ عوامی غم وغصہ ملک کے قصبوں تک پھیل گیا اور حکومت کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ملک میں جہاں افراط زر 40فیصداور بیروزگاری کی شرح پہلے ہی 15فیصد تک ہو‘ وہاں اگر مزید مہنگائی کردی جائے تو عوام کا بے چین ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ یہی کچھ ہمارے ہمسائیہ ملک میں بھی ہوااور کئی روز تک پورے ملک میں بے چینی پھیلی رہی۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو انٹرنیٹ سروسز تک بند کرنا پڑیں ۔ ایرانی حکومت نے اگرچہ ان مظاہروں پر قابو پانے میں کامیابی تو حاصل کرلی ہے‘ لیکن یہ اپنے پیچھے بہت سے سوالات بھی چھوڑ گئے ہیں۔ ان میں نا صرف وہاں کی حکومت ‘بلکہ ہمارے لیے بھی سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
ان مظاہروں نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ڈھڈنہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں(پیٹ میں روٹی نہ ہو تو سب کچھ بے کار لگتا ہے)۔ اب‘ یہ الگ بات کہ ایرانی حکومت کی طرف سے ان مظاہروں کو ملک کے دشمنوں کی کارستانی قرار دیا گیا ۔ اس کے لیے امریکہ ‘ اسرائیل اور ایک اہم اسلامی ملک کو موردِالزام ٹہرایا گیا‘ اسی تناظر میں مظاہرے ختم ہونے کے بعد ایرانی صدر کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ دشمن کے منصوبوں کے خلاف فتح حاصل کرلی گئی ہے۔ یہ بھی عجب روش ہوتی ہے کہ اپنی غلطیوں کے لیے دشمنوں کو موردِ الزام ٹہرا کر چھٹکارا حاصل کرلیا جائے‘ اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ خود ہمارے ملک میں بھی یہ چلن بہت عام ہے‘ جس کے ساتھ کوئی اختلاف ہوا‘ اُسے ملک دشمن قرار دے دیا۔ حال ہی میں مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے ایسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ہرکسی کو احتجاج کا حق ہوتا ہے‘ لیکن جب احتجاج کیا جائے تو پھر الزامات کی بھی بھرمار ہوجاتی ہے۔ متعدد حکومتی حلقوں کی طرف سے قرار دیا گیا کہ مولانا کا آزادی مارچ ‘ کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے لیے ہے۔ کوئی ذی شعور تصور کرسکتا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی کشمیر کاز کو نقصان پہنچا سکتا ہے؟سیدھی اور واضح بات ہے کہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو وعدے کیے تھے‘ وہ اُنہیں عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوپارہی۔
معیشت بھی لڑکھڑا رہی ہے ‘جس کے نتیجے میں مہنگائی کی شدید لہر نے عام آدمی کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ ایسے ہی عوامل نے مولانا کے لیے میدان ہموار کیا ‘جو اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے میدان میں نکل آئے۔ یہ سوچنے کی بجائے کہ آخر ایسی کیا غلطیاں ہوئی ہیں کہ ایک سال میں ہی حکومت مخالف جذبات میں اتنا زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ آخر کوئی کب تک صرف دعوؤں پر ہی اکتفا کرسکتا ہے۔ بہتری کے وہی دعوے جو تسلسل سے حکومتی حلقوں کی طرف سے سامنے آرہے ہیں۔ سچی بات تو یہی ہے کہ ان کی کوئی تعبیر ابھی تک دکھائی نہیں دے رہی۔اس پر سوچ بچار کرنے کی بجائے قرار دے دیا گیا کہ اپوزیشن کی جماعتیں ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ 
یہی کچھ ہمارے ہمسایہ ملک کی حکومت نے بھی کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایران کی ابتر اقتصادی حالت کی بڑی وجہ امریکی پابندیاں ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہاں کے عوام نے موجودہ حکومت سے جو اُمیدیں وابستہ کی تھیں‘ وہ بھی پوری نہیں ہوسکیں۔ ایسے میں حکومت کی طرف سے مظاہرین کو ملک دشمنوں کا آلہ کار قرار دینا عجیب سا ہی محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہی عوام ہیں‘ جنہوں نے پہلوی اقتدار کا خاتمہ کرنے کے لیے دینی قوتوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کی تھی۔ جان ومال کی بے تحاشا قربانیاں دی تھیں۔ اُس کے خلاف جو نصف صدی تک حکومت کرنے کے بعد گمان کرتا تھا کہ اب ‘ایران میں اُس کے خاندان کی بادشاہت کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ وہ جس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ظلم وستم کی شرمناک داستانیں رقم کی تھیں۔وہ جس نے 1925ء میں ملک سے قاچار خاندان کے آخری فرمانروااحمد شاہ قاچارکے اقتدار کا خاتمہ کرکے خود کو ملک کا طاقتور ترین شخص ثابت کیا تھا۔ وہ جو خود کو ایران کے قدیم بادشاہوں کا جانشین تصور کرتا تھا‘ اسی زعم میں اُس نے 1971ء میں فارسی شہنشاہیت کے اڑھائی ہزار سال مکمل ہونے پر شاندار جشن بھی منایا تھا؛ اگرچہ اس دور ان وہ خطے کا اہم ملک سمجھا جاتا تھا۔ ترقی بھی ہورہی تھی اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بھی بہت بہتر تھے۔اس سب کے دوران مغرب کے ساتھ قریبی تعلقات کے باعث ایران میں مغربی طرزِ زندگی کو فروغ دیا گیا۔ یہ بھلا دیا گیا کہ ایران بہرحال اسلامی ملک ہے اور عوام اسلام سے محبت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُن کیلئے ناقابل قبول تھا‘اسی کے نتیجے میں ایرانی عوام نے امام خمینی کی قیادت میں ملک میں انقلاب برپا کردیا۔ آج‘ اگر وہی عوام حکومتی پالیسیوں کیخلاف مظاہرے کرتے ہیں تو دشمن قوتوں کے آلہ کار قرا ر پاتے ہیں۔
صرف ایران کی حد تک ہی کیا موقوف۔ بدقسمتی سے بیشتر اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں بھی ہرروز یہی سب کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ وہی مارچ اور دھرنا ‘جو 2014ء میں جائز ہوتا ہے‘ وہ 2019میں ناجائز قرار پاتا ہے۔ پہلے سڑکوں پر نکلنا ملک و قوم کی بقا کیلئے ضروری قرار دیا جاتا ہے اور بعد میں یہ ملکی مفادات کے خلاف قرار پاتا ہے۔ کمال ڈھٹائی سے اس سب کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔ وہ وزرا جو پہلے بھی تین ‘ تین ‘ چار ‘ چار حکومتوں کا تحفظ کرچکے‘ بڑھ چڑھ کر حکومتی مخالفین کے لتے لے رہے ہوتے ہیں۔ کیامہنگائی کیخلاف ہونیوالے خونریز مظاہروں میں ہمارے لیے کوئی سبق پنہاں نہیں ؟کیا یہ سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے کہ حکومت مخالفین کو ملک دشمنوں کا آلہ کار قرار دے دینے سے بات نہیں بنتی۔ 
مشکل صرف اتنی سی ہے کہ طاقتوروں کیخلاف آواز اُٹھانے کیلئے بہت ہمت درکار ہوتی ہے۔یہ ہمت کرنے کی کوئی ہمت کربھی بیٹھے تو شاید ہی کبھی انجام بخیر ہوا ہو۔ بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ مثالیں رقم بھی اسی لیے کی جاتی ہیں کہ دوسرے محتاط رہیں۔ اِن حالات میں کہ جب ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ ہمارے بولنے سے کچھ ٹھیک تو ہونے والا نہیں ‘ آواز بلند کرنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔ویسے بھی جہاں روٹی کا نوالہ حاصل کرنے کیلئے دن رات محنت ِ شاقہ کرنا پڑتی ہو‘ وہاں کسی کو اتنی فرصت کہاں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں