"FBC" (space) message & send to 7575

ڈر تولگتا ہی ہے

انگارے ہیں کہ کبھی ان کی آنچ مدھم ہونے میں ہی نہیں آتی۔دوچار دن گزرتے نہیں کہ کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ نیا مسئلہ پچھلے تمام مسائل پر گرد ڈال دیتا ہے اور نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ ہمیشہ ہی بے یقینی کی سی کیفیت رہتی ہے‘ جس نے وقت کے ساتھ سب کو ہی بے یقین کردیا ہے۔ اس کیفیت کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں ‘ بہت سیدھا سا اصول ہے کہ ہم خود اپنی ذات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ کوئی ہم پر اعتبار کرتا ہے نہ ہم کسی پر اعتبار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیشہ ایک گومگو کی کیفیت موجود رہتی ہے جس میں سے کسی بھی وقت کچھ بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ معلوم نہیں کیسی بپتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتے ہوئے اچانک ہی سب کچھ تلپٹ ہوجاتا ہے‘ اُلٹ پلٹ ہوجاتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر ہم ایسی ہی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔ ہیجان خیزی اتنی بڑھ جائے تو ڈر محسوس ہونا فطری تقاضوں کے مطابق ہے‘ سو آج بھی ویسا ہی ڈر محسوس ہورہا ہے جو ہمارے اردگرد ہمیشہ ہی موجود رہتا ہے۔ 
سب مانتے اور کہتے ہیں کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہونی چاہیے ۔حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات ہمارے جیسے ممالک میں قانون اور انصاف کے تقاضے متعدد دیگر مصلحتوں کے تابع بھی ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے سامنے بھی سرتسلیم خم کہ کوئی فیصلہ اپنی مرضی کے مطابق آجائے ٹھیک ورنہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سلسلہ پانامہ پیپرز سے بھی شروع کرلیا جائے تو بہت کچھ عیاں ہوجاتا ہے۔ پانامہ پیپرز کیس کی لپیٹ میں آنے والے اقتدار میں تھے توگردن میں سریے کا عارضہ لاحق رہا۔ اسی عارضے کے باعث قومی اداروں کے خلاف ڈھول پیٹنے کی روش اپنائی گئی۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خصوصا ایسے معاملات پر تو انتہائی احتیاط برتی جاتی ہے جن کا تعلق قومی سلامتی سے ہو‘لیکن ہوتا کیا رہا کہ اہم ترین اجلاسوں کی روداد بھی اخبارات کی زینٹ بنتی رہی۔ انہیں حرکتوں کے باعث جب پانامہ پیپرز کا مسئلہ پیدا ہوا تو پھر جنہیں ملال تھا ‘ اُنہوں نے بھی اِسے مکمل انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔کوئی یہ ماننے کے لیے کہاں تیار تھا کہ ساٹھ دنوں میں رپورٹ مرتب ہوسکتی ہے‘ لیکن یہ انہونی ہوکررہی۔ دہائیوں تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے پہلے جیل پہنچے اور اُس کے بعد اُن کی منزل انگلینڈ ٹھہری۔ یہ ایک سبق بھی ہے کہ جن کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا جاتا ہے‘ اُن کے ساتھ الجھاؤ اچھا نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہ جب قسمت مہربان ہو تب بھی ہرقدم پھونک پھونک کررکھنا چاہیے۔ وہ بھی ان حالات میں کہ یوں توکہیں بھی وقت بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی‘ لیکن ہمارے ہاں وقت بدلنے کی رفتار بھی کافی تیز ہے۔وقت کی اس تیز رفتاری کے دوران اگر ہیجان خیزی بھی بہت بڑھ جائے تو ڈر کا محسوس ہونا عین بشری تقاضوں کے مطابق ہے۔
اس دوران اور بھی بہت کچھ ہوتا رہا۔ اقتدار ایک جماعت کے ہاتھ سے نکل کر دوسری جماعت کی جھولی میں جا گرا۔ جو برسراقتدا رآئے ‘ وہ بھی ابھی تک ہاتھ پاؤں ہی ماررہے ہیں‘ لیکن اونٹ ہے کہ کسی کروٹ بیٹھنے میں نہیں آرہا۔ ایک وقت میں جن کی خوبیاں ہی خوبیاں سامنے آرہی تھیں‘ آج اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ آخر کرناکیا ہے‘بس مشیروں اور وزیروں کی ایک فوج ظفر موج ہے جو اپنے تئیں سب اچھا اچھا دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس سے پہلے جس حکومت کا بوریا بستر گول ہوا تھا‘ اُس کی متعدد دوسری وجوہات ضرور تھیں‘ لیکن کچھ نہ کچھ کردار وزیروں اور مشیروں کو بھی رہا تھا۔ نام لینا مناسب نہ ہوگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ تب سب کے سب اونچی ہواؤں میں اُڑ رہے تھے۔ جن مسائل کو دانشمندی سے با آسانی سلجھایا جاسکتا تھا ‘ اُن میں بھی ہم غلیل نہیں ‘ دلیل والوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘ جیسے بیانات دے کر مزید اُلجھا دیا جاتارہا۔ یہی وہ اُلجھاؤ رہے جن کے باعث پھر بات کبھی ہاتھ نہ آسکی۔ دومختلف اداروں میں پختہ ہوجانے والی صف بندی کے باعث بالآخر حکومت کو اپنا بوریا بستر گول کرنا ہی پڑا۔ بعد میں کئی ایک مواقع پرمشیروں کی بلاجواز باتیں ماننے پر پچھتاوے کا اظہار بھی سامنے آتارہا‘ لیکن جب چڑیاں چگ جائیں کھیت تو پھر بھلا کیا ہوسکتا ہے۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے مشیروں کی باتیں سننا اس لیے بھی اچھا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ سننے والوں کے مطلب کی بات ہی کرتے ہیں۔ خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ اس وقت اقتدار کے مزے لوٹنے والی حکومت کے پاس بھی ایسے قابل وزرا اور مشیروں کی کمی نہیں جو اعلیٰ ترین قیادت کو ہرا ہرا ہی دکھا رہے ہیں۔ ان کی طرف سے بھی موقع بہ موقع ایسی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں جن کا سرے سے کوئی سرپیر ہی نہیں ہوتا۔ زبان کھلتی ہے تو بے یقینی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ کوئی اندازہ تو لگائے کہ اس وقت بھی بے یقینی کا کیا عالم ہے۔ ایسی بے یقینی ہو تو ڈرنا تو بنتا ہی ہے۔
بیرونی محاذوںسے بھی اچھی خبریں نہیں آرہیں۔ کوالالمپور سمٹ نے ہمارے ملک کو ناقابل تشریح مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ شرکت کریں تو انتہائی قریبی دوست ناراض اور اگر نہ کریں تو قریبی دوست ناراض۔ پاکستان کے بعض قریبی دوستوں کو یہ خدشہ پیدا ہوچکا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس کہیں او آئی سی کی جگہ نہ لے لی۔ دوسری طرف سے بظاہر ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش تو کی گئی ، لیکن کوئی خاطرخواہ تنائج برآمد نہیں ہوئے۔ برآمد ہوبھی نہیں سکتے کیونکہ ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں‘ جن کا تحفظ اُن کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر وقت جھولی پھیلائے کھڑے رہنے والے ممالک کے معاملات قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ اُن کے لیے ہمیشہ ایک ہی آپشن باتی بچتا ہے کہ وہ ایسے دوستوں کاانتخاب کریں جن سے کچھ معاونت کی توقع ہوتی ہے۔ تو بس پھر گلہ کیسا کہ ہم نے بھی یہی راستہ اپنایا ہے۔
ان حالات میں جو نیا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ‘ اُس نے تو ڈر اور خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ انصاف وقانون کی بالادستی اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کا آمنے سامنے آنا یقیناقابل تشویش ہے ۔ بدقسمتی سے ایسا کوئی پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا۔ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اب وقت اور حالات ماضی کی نسبت بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔اب بظاہر تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ کوئی پی سی او آجائے اورمرضی پر چلنے کے لیے رضامند نہ ہونے والے ججوںکو گھر بھیج دیا جائے۔ اس حقیقت کو جھٹلانا بھی ممکن نہیںکہ اداروں کی تذلیل کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا ۔ عجیب سی صورتحال ہے جس میں سبھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی صورت بنے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی ذی ہوش یہی بات کرے گا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے جس سے اداروں کا وقار مجروح ہو۔ہرکسی کی یہی خواہش ہوسکتی ہے کہ اللہ کرے معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ پہنچ جائیں۔ یقینا جو غصے میں ہیں وہ بھی حالات کی انتہائی خرابی ہرگز نہیں چاہیں گے۔ سبھی کو اپنا ملک عزیز تر ہے اور سبھی اس کی بہتری چاہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ جب سب ہی اس کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر کیوں انگارے ہمیشہ سلگتے رہتے ہیں۔ کیوں یہ سلگتے انگارے ہلکی سی مزید آنچ ملتے ہی شعلوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوتا ہے کہ انگاروں کو شعلے بنتے دیر نہیں لگتی اور نتیجہ سب کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ وقت اور حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق چلنے میں ہی دانشمندی ہوتی ہے ورنہ پھر بے یقینی ختم ہوتی ہے نہ ڈر ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں