"FBC" (space) message & send to 7575

دعا … عمر نے یہی سب محسوس کیا ہوگا

19سالہ دعا منگی کراچی کے علاقے ‘ درخشاں تھانے کی حدود میں چہل قدمی کررہی تھی۔ اُس کا ایک ساتھی حارث سومرو بھی اُسکے ہمراہ تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا‘لیکن یکایک جیسے سب کچھ تلپٹ ہوکر رہ گیا۔ اچانک ایک گاڑی میں سوار چار‘ پانچ افراد آئے اور دعا کو اغوا کرلیا۔ ساتھی حارث سومرو نے مزاحمت کی کوشش کی تو اُسے گولی مار کر زخمی کردیا گیا۔ اغوا کی فوٹیج وائرل ہوگئی۔ میڈیا پر بھی اس واقعے کو بھرپور کوریج ملی۔ واقعہ ہی ایسا تھا کہ سب کے سامنے لڑکی کو اغوا کرلیا گیا اور کوئی کچھ بھی نہ کرسکا۔گویا اب یہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا‘اسی پریشانی نے درد دل رکھنے والوں کو باہر نکلنے پر مجبور کیا۔ کئی ایک مقامات پر احتجاج ہوا تو پولیس پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا۔ پولیس اپنی سی کوشش کرتی رہی‘ لیکن تمام تر ذرائع استعمال کرنے کے باوجود سرا ہاتھ نہ آیا۔ اس کے بعد پس پردہ جو کچھ ہوتا رہا‘ وہ ایک الگ داستان ہے ‘لیکن بالآخر دعامنگی کسی بھی طرح محفوظ طور پر اپنے گھرواپس پہنچ گئی۔ اندازہ لگانا کہاں مشکل ہے کہ دعا کے اہل خانہ پر کیا قیامت نہیں گزری ہوگی؟ اس دوران دعا پر بھی جو بیتتی رہی ہوگی؟اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتی ہے۔اُس نے محسوس ہونے والے اپنے درد کو اب‘ سب کے سامنے رکھ دیا ہے‘آپ نہیں جانتے کہ جو لوگ اغوا ہوتے ہیں‘ اُن کو آپ کی دعاؤں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے؟ اس صورت حال کے دوران اپنے اعصاب پر قابو رکھنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔اب‘ بھی میں کسی کے اغوا کی خبر سنتی ہوں تو میرا سانس رکنے لگتا ہے۔ 
دعا نے یہ دعا بھی کی ہے کہ اغوا ہونے والوں کی مشکلات ختم ہوں اور وہ جلد اپنے گھروں کو پہنچیں۔ہم سب اُس کی اس دعا میں شریک ہیں کہ یہ دکھ وہی جانتے ہیں ‘جن کے پیارے کسی کی قید میں ہوتے ہیں۔ ستم بالائے ستم تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اُن کے بارے میں کچھ خبر بھی تو نہیں ملتی کہ وہ کس حال میں ہیں‘ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔کوئی بیچارگی سی بیچارگی ہوتی ہے۔ دعا منگی نے اغوا کی اذیت تو برداشت کی‘ لیکن اُن کے اہل خانہ اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت رہیں کہ بخیروعافیت اپنے گھر واپس آگئی‘لیکن ‘پانچ سالہ عمر راٹھور‘خوش قسمت نہیں تھا۔اُف میرے خدا ‘ کوئی فرشتوں جیسی معصومیت رکھنے والے عمر راٹھور کو سخت ہاتھ لگا نے کی ہمت بھی کرسکتا تھا؛ چہ جائیکہ اُسے موت کی نیند سلا دیا جائے۔بچے تو اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہوتے ہیں‘ جو اُن کے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں۔ انہیں کے دم سے تو دنیا میں رنگا رنگی دکھائی دیتی ہے۔یہ نہ ہوں تو سب کچھ ہی بے رونق ہوکررہ جاتا ہے۔ یہی تو وہ ہوتے ہیں ‘جو بڑھاپے میں اپنے والدین کا سہارا بنتے ہیں۔ معلوم نہیں وہ کون سے درندے ہوتے ہیں ‘جو دوسروں سے اُن کا سب کچھ چھین لیتے ہیں۔
21دسمبر کو اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو کے علاقے سے اغوا ہونے والے عمر کی خبراور تصویر نظروں سے گذری تو جیسے سیدھا کلیجے پر ہاتھ پڑا۔ بے اختیار دل سے دعا نکلی کہ یا الٰہی اس بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے ‘ یہ خیر سے اپنے گھر واپس آجائے ‘ورنہ تو اُس کے والدین زندہ درگور ہوجائیں گے‘اسے کچھ ہوگیا تو اس کے والدین کی تو دنیا ہی اندھیر ہوجائے گی۔ افسوس کہ کسی کی دعا بھی قبول نہ ہوسکی۔ اغوا کرنے والوں نے تو ستم ہی ڈھا دیا‘ جو چند روز ہی قبل عمر راٹھور کی لاش مل گئی ہے۔یہ سب کیا بھی بچے کے کزن نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مل کر۔ پولیس کی گرفت میں آنے کے بعد ملزمان نے بتا یا تھا کہ اُنہوں نے عمر کو ایک کرائے کے مکان میں رکھا ہوا ہے۔پولیس جب مکان پر پہنچی تو وہاں جیتا جاگتا عمر ایک لاش کی صورت میں پڑا تھا۔ سنگدلی کا اندازہ تو لگائیے کہ بچے کو تین روز تک بھوکا پیاسا رکھا گیا‘ وہ بھی اس حالت میں کہ اُس کے پورے جسم کو ٹیپوں کے ساتھ جکڑ اگیا تھا‘ اُسے بے ہوشی کے انجیکشنز بھی لگائے جاتے رہے ۔ پانچ سال کا معصوم بچہ اپنے ہی کزن کی اس درندگی کو کہاں تک برداشت کرتا؟ سو‘ زندگی کی جنگ ہار گیا۔اب ‘عمر کو اغوا کرنے والے اپنے انہیں کالے چہروں کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہوں گے ۔اس سنگدل شہر میں اب سے کچھ عرصہ پہلے بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک افغانی بچی کو اغوا کرکے پہلے کئی دنوں تک قید میں رکھا گیاتھا۔ کتنے ہی دنوں تک وہ اغوا کرنے والے کی درندگی کو سہتی رہی اور پھر ایک روز اُس کی بھی لاش مل گئی۔ بدقسمتی سے اِس واقعہ میں بھی قریبی عزیز ہی ملوث پایا گیا۔
عمر کی موت نے ایسے کتنے ہی زخموںکو پھر سے تازہ کردیا ہے۔ کتنے ہی معصوم چہرے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ہیں۔ یہ تو اب جنت میں ہیں ‘لیکن ہمارے لیے عمر بھر کی شرمندگی چھوڑ گئے ہیں کہ ہم اپنے پھولوں کی حفاظت نہ کرسکے۔وہ زینب سمیت قصور کی متعدد دوسری بیٹیاں ہوں یا پھر چونیاں کا فیضان‘ علی حسنین اور دوسرے بچے ۔ حویلیاں کی فریال ہویا پھر نوشہرہ کی نوسالہ بچی ہویاپھرملک کے دوسرے علاقوں میں درندوں کی درندگی کا نشانہ بننے والے بچے ہوں۔ اب تو ایسے واقعات میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ دل دہلائے دیتا ہے۔ کیسے لوگ ہیں ہم ‘ کیا چاہتے ہیں ‘ کس ڈگر پرچل پڑے ہیں کہ ہمیں اللہ کا کوئی خوف ہی نہیں رہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر ایسے واقعات میں پولیس کی کارکردگی کو قابل تحسین قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا کہ کیا ایسا کرنے والے کچھ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا قیامت ڈھانے جارہے ہیں۔ جانتے ہیں ‘ سب جانتے ہیں ‘لیکن معلوم نہیں اُن کی آنکھوں پر کون سی پٹی بندھ جاتی ہے‘ کون سی طاقت اُن کی عقل سلب کرلیتی ہے کہ وہ درندگی کی آخری حدوں کو چھو لیتے ہیں۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ بحیثیت ِمجموعی والدین کی بڑی تعداد بھی بچوں کی حفاظت سے غفلت برتتی ہے۔ گلی محلوں میں بچوں کو اس اعتماد کے ساتھ دکانوں پر بھیج دیا جاتا ہے کہ یہاں سب ہمارے اپنے ہیں۔سب ہمارے اپنے نہیں ہوتے ۔ بچوں کے اغوااور قتل جیسے بیشتر واقعات میںہمارے اپنے ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ راندہ درگاہ ہوتے ہیں‘ جنہیں پھولوں جیسی معصومیت رکھنے والے بچوں اور بچیوں پر رتی برابر بھی ترس نہیں آتا۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ ایسے واقعات میں اکثر قانون بھی تب حرکت میں آتا ہے‘ جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
یاد پڑتا ہے کہ بہت سے دوسرے اعلانات کی طرح وزیراعظم عمران خان نے اکتوبر میں میرا بچہ ایپ متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اعلان کے مطابق ‘اس ایپ پر بچوں کے خلاف جرائم کی رپورٹ درج کرانے کے لیے والدین کو تھانے جانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ شکایت کی تمام تفصیلات خود کار نظام کے تحت تمام متعلقہ افسران تک پہنچ جاتیں اور وغیرہ ‘ وغیرہ‘ اگر میں غلط ہوں تو میری لاعلمی کو درگزر کردیجئے گا کہ میرے علم کے مطابق ‘ابھی تک یہ اعلان ‘ اعلان کی حد تک ہی محدود ہے۔شاید تب یہ ایپ دوہفتوں کے اندر اندر متعارف کرانے کا حکم بھی دیا گیا تھالیکن ‘ بس لیکن جب اعلیٰ ترین سطح سے سامنے آنے والے اعلان پر بھی عمل کے حوالے سے سنجیدگی کا یہ عالم ہو تو پھر کسی اور سے کیا شکوہ کرنا۔ بچوںکے حوالے سے ہماری یہی غیر سنجیدگی ہی تو ہے ‘جس نے ہمارے معاشرے میں بچوں کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔ معلوم نہیں کب کون سا بچہ اُس دلدل میں دھنس جائے‘ جہاں سے واپسی کی کوئی راہ ہی سمجھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا محسوس ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جب عمر راٹھور کو ٹیپوں میں جکڑ کر‘ بھوکا پیاسا رکھنے کے بعد الماری میں بند کیا گیا ہوگا تو اُس کی سانس بھی رکتی رہی ہوگی۔ اُس کے اعصاب بھی قابو میں نہیں رہے ہوں گے ‘ اُسے تو یہ بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہوگا کہ اُس کے ساتھ یہ سب کچھ کیا کیوں جارہا ہے‘جس طرح دعامنگی نے اغوا کے حوالے سے اپنے محسوسات کو شیئر کیا ہے‘ عمر کے ساتھ ساتھ‘ سنگدلوں کی سنگدلی کا نشانہ بننے والے سبھی بچوں کے یہی محسوسات یہی محسوسات رہے ہوں گے‘ لیکن کوئی کچھ بھی نہ کرسکا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں