"FBC" (space) message & send to 7575

شرمندگی

گوروں کے بھی معلوم نہیں کیا معاملات ہیں‘ جو بہانے بہانے سے ہمیں شرمندہ کرتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین زک برطانوی شاہی خاندان کے شہزادے ہیری اور اُن کی اہلیہ میگھن نے پہنچائی ہے۔ دونوں اچھے بھلے ‘ڈیوک اور ڈچزآف سسیکس کی حیثیت سے شاہی خاندان کے سینئر اراکین ہونے کے مرتبے سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ بس خاندان میں معمولی سے اختلافات ہوئے اور دونوں نے اپنی اس حیثیت سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔ کوئی شک نہیں کہ عہدے سے دستبرداری کے باعث اُنہیں 23لاکھ پاؤنڈ سالانہ اور متعدد دیگر مراعات سے ہاتھ دھونا پڑیں گے‘ لیکن تاحال دونوں اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں ‘بلکہ دونوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ دونوں اپنی ذاتی حیثیت میں مالی طور پر خود مختار ہونے کی کوشش کریں گے۔ اب‘ چاہے دور کی کوڑیاں لائی جاتی رہیں کہ اس فیصلے کا باعث دونوں بھائیوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات بنے ہیں یا کچھ اور۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں خود کو شاہی خاندان کے طورطریقوں سے ایڈجسٹ نہیں کرپائے ‘لیکن یہ فیصلہ بہرحال آسان تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مسئلہ شہزادہ ہیری کی والدہ لیڈی ڈیانا کا بھی رہا تھا۔ جب تک وہ شاہی خاندان کی رکن رہیں‘ اپنی ساس محترمہ کے ساتھ اُن کا اِٹ کھڑکے کا ویر ہی رہا ۔ ایک دنیا کو اپنی گرویدہ بنانے والی اس خاتون نے بالآخر شاہی خاندان کو خیر باد کہہ کر ہی دم لیا۔ اب‘ یہی کچھ اُن کے صاحبزادے نے کیا ہے۔ ارادہ اُن کی طرف سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اب‘ وہ آزادنہ حیثیت میں اپنے خیراتی ادارے کو زیادہ توجہ دیںگے۔ میگھن نے بھی اِس فیصلے میں اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ شاہی خاندان کی طرف سے بھی اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ اس توقع کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ دونوں اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔
یہ ہے ‘ 1209ء سے برسراقتدار برطانیہ کے شاہی خاندان کی تازہ ترین کہانی۔ اس وقت خاندان کی 37ویں پشت اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے‘اسی خاندان میں تخت و تاج کو ٹھوکر مارنے کی ایک اور دلچسپ مثال بھی موجود ہے۔ طویل عرصہ گزرتا ہے جب برطانیہ کے بادشاہ کنگ ایڈورڈ ایٹ نے اپنی پسند کی شادی کے لیے تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی تھی۔ موصوف 20جنوری1936ء کو بادشاہ بنے اور 11دسمبر 1936ء کو سابق ہوگئے۔وجہ صرف اتنی سی تھی کہ وہ دو مرتبہ کی طلاق یافتہ ایک امریکی خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے۔اب ملک کا قانون یہ کہتا تھا کہ وہ کسی مطلقہ خاتون سے شادی نہیں کرسکتے تھے۔ اگر بادشاہ قانون کے خلاف جا کر شادی کرتا تو پوری کابینہ مستعفی ہوجا تی اور ملک بحران کا شکار ہوجاتا ۔ دل سے محبت کو دیس نکالا بھی دینا ممکن نہیں تھا۔ سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ محبت کے سامنے بادشاہت کی کیا حیثیت ہے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ کنگ ایڈورڈ ایٹ کو اس شادی سے باز رکھنے کے لیے صرف اہل خانہ اور اہل وطن نے ہی کوششیں نہیں کی تھیں ‘بلکہ کینیڈا ‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا وغیرہ کے سربراہان مملکت کی طرف سے بھی اِس شادی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا ۔ اس سب کے باوجود مجال ہے ‘جو بادشاہ کے پائے اثبات میں لغزش آئی ہو۔ دوسری طرف کسی بھی سٹیٹس سے بے نیاز خاتون کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اُس کا ہونے والا شوہر اب بادشاہ نہیں رہاتھا۔ شادی ہوئی اور دونوں نے مرتے دم تک ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔اب‘ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہیری اور میگھن نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔
سچی بات ہے کہ شہزادہ ہیری اور شہزادی میگھن کے اس فیصلے سے ہم بھی کافی شرمندگی محسوس کررہے ہیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اقتدار میں آنے کے لیے ہرطرح کے جائز وناجائز حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔اقتدار ہاتھ لگ جائے تو پھر اسے دوام بخشنے کے لیے نہ جانے کیسے کیسے پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔یوں کہنا چاہیے کہ ایسے ایسے پاپڑ بیلے جاتے ہیں کہ شرمندگی ہونے لگتی ہے۔جو عوامی نمائندوں سے طاقتور ہوتے ہیں ‘وہ تو بغیر کسی قانون ضابطے کے حکومتوں کی بساط لپیٹ دینے پر بھی قادر ہوتے ہیں۔ زیادہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک میں یہ چلن پایا جاتا ہے۔ زیادہ دور جانے بغیر بس ذرا ماضی قریب پر ہی ایک نظر ڈال لیں۔ مختلف اسلامی ممالک میں برسراقتدار حکمرانوں نے اپنے ملک برباد کرا لیے‘ لیکن تب تک اقتدار سے محرومی برداشت نہیں کی جب تک موت نے دروازے پر آن دستک نہ دی۔ ایک عرصے تک لیبیا پر مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے حکمرانی کرنے کے بعد بھی صدر قذافی کا دل نہیں بھرا تھا۔اس عرصے کے دوران لیبیا میں بدترین آمرانہ نظام حکومت رائج رہا۔ گاہے بگاہے مخالفانہ آوازیں بھی اُٹھتی رہیں‘ جنہیں بے دردی سے خاموش کرایا جاتا رہا۔ تیونس سے عرب بیداری کی لہر شروع ہوئی تو قذافی اور اُن کا لیبیا بھی اس سے نہ بچ سکا۔ حالات نے کروٹ بدلی تو سب کچھ واضح ہوگیا کہ اب ‘اقتدار چھوڑنا ہی پڑے گا۔ نوشتہ دیوار پڑھ لینے کے باوجودآخری وقت تک مزاحمت کرتے رہے ۔ بالآخرسیوریج کے ایک خالی پائپ سے پکڑے گئے اور دردناک موت سے دوچار ہوئے۔ اس دوران پورا ملک بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا ‘جہاں آج بھی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
عراقی صدر صدام حسین کی کہانی بھی قذافی سے ملتی جلتی ہی ہے۔اپنے پورے دوراقتدار کے دوران عراق میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا۔وقت بدلا تو حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بحرین نے صدرصدام حسین کو سیاسی پناہ کی پیشکش کی لیکن اُنہوں نے بھی مرتے دم تک اقتدار سے محرومی قبول نہ کی۔یہ سچ ہے کہ امریکا نے اقتدار پر حملہ کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا تھا ‘لیکن عراق میں پہلے بھی کہاں سچ کا دور دورہ تھا۔ دنیا کے خوب صورت باشندوں کی سرزمین شام کے حالات تو ہمارے سامنے ہیں۔ پورا ملک جہنم بن چکا۔ لاکھوں شامی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہیں ہیں‘ لیکن بشارالاسد پوری مضبوطی کے ساتھ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ شا م کے صدر نے اپنی صدارت کے لیے پورے ملک کو مختلف طاقتوں کے لیے فٹ بال بنا دیا ہے۔بدقسمتی سے زیادہ تر مسلم ممالک میں ایسی ہی صورت حال ہے۔بلاشبہ بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کسی زمانے میں آج کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے رہے ہیں۔ اب‘ اگر وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ چکے ہیں تو ضرور ی نہیں کہ ہم اُن کی غلطیوں کو دہراتے رہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جبر پر قائم حکومت نے جانا ہی ہوتا ہے‘ پھر بھی دوام اقتدار کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے جاتے اور کس کس کا خون نہیں بہایا جاتا۔ مثالیں اور بھی بہت ہیں ‘لیکن پر جلتے ہیں۔
حصول اقتدارو اختیارات کے لیے جھوٹ سچ کے درمیان تمیز برقرار رکھنے کا چلن تو عرصہ ہوا کہیںمنہ چھپائے بیٹھا ہے ۔یہاں تو یہ بھی ہوچکاکہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک کا ایک حصہ ہی الگ کردیا گیا‘ لیکن مجال ہے کہ کسی کو سزا ہوئی ہو ۔ہرسال ہم اس سانحے پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہتے ہیں اور سینہ کوبی کرتے رہتے ہیں۔اس کے بعد بھی اقتدار کے لیے چھینا جھپٹی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ بس اِن رہنا مقصود ہوتا ہے‘ چا ہے اس کے لیے نظریات اور بیانیے کو بحیرۂ عرب میںہیں کیوں نہ ڈبونا پڑے۔
چاہے ‘اس کے لیے نئے پاکستان کے نعرے سے بھی یوٹرن کیوں نہ لینا پڑے۔ چاہے‘ اس کے لیے چاروں صوبوں کی زنجیر کی کچھ کڑیاں کو کھسکانا ہی کیوں نہ پڑے۔ اِن رہنا ہی تو مقصد ٹھہرا تھا کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ؛محمود و ایاز!!
مجال ہے کسی نے دم مارنے کی جرأت بھی کی ہو۔ ایسے میں شرمندگی مزید بڑھ جاتی ہے کہ گفتار کی حد تک تو ہم خود کو اعلیٰ آدمی گردانتے ہیں‘ لیکن عمل میں دوسرے بازی لے جاتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں