"FBC" (space) message & send to 7575

اُٹھک بیٹھک

بالکل ویسی ہی صورت ِحال پیدا ہوتی دکھائی دے رہی ہے‘ جو پہلوانوں کے اکھاڑے میں اُترنے سے پہلے دکھائی دیتی ہے۔ تیاری کی نوعیت سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہوتا کہ کشتی کا وقت کتنا قریب آچکا ہے۔ جتنی بڑی کشتی ‘ اُتنی بڑی تیاری۔ اکھاڑا لگنے کے قرائن تو مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے ہی دکھائی دے گئے تھے۔۔ بات تو تب سمجھ میں آتی ‘جب بے معنی قسم کی تقاریر سے فرصت ملتی ۔بے سروپا دعوے کرنے سے فراغت حاصل ہوتی۔ خیر ڈیڑھ ایک سال تو تقاریر اور نہ نہ کرتے بھی این آراو دینے سے نکل گیا ہے‘ لیکن کب تک ایسے چلے گا؟ کچھ نہ کچھ تو کرکے دکھانا ہی ہو گا ‘ورنہ پہلوانوں نے تو لنگوٹ کسنا شروع کرہی دئیے ہیں۔ یکدم‘ جس طرح تیاریوں کا آغاز ہوا ہے ‘ اُسے دیکھ کر کچھ شک سا پیدا ہورہا ہے کہ شاید ایک اور کشتی کا وقت کافی قریب آچکا ۔ ایک کے بعد ایک اتحادی کی ناراضی سامنے آرہی ہے اور حکومت خود کو بند گلی میں محسوس کرنے لگی ہے۔سب سے پہلے متحدہ نے دراڑ ڈالی۔ حکومت میں شامل متحدہ کے کنوینرخالد مقبول نے اپنی وزارت کو خیرباد کہہ دیا۔چاہے قومی مفاد کے نام پر وزارت سے علیحدگی کی وجہ عقلی تقاضوں پر پورا نہ اُترتی ہو‘ تب بھی علیحدگی ابھی تک قائم ہے۔ صورت ِحال کی سنگینی کے پیش ِنظر حکومت نے ایم کیوایم کو منانے کی اپنی سی کوششیں کردیکھی ہیں‘ لیکن تادم تحریر ‘ ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔ ایم کیو ایم کی اتنی ہی مہربانی بہت سمجھی جانی چاہیے کہ وزارت چھوڑ دینے کے باوجود '' قومی مفاد‘‘ کے پیش ِنظر حکومت کا ساتھ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔شاید اسی کے پیش نظر فروغ نسیم بدستور ابھی تک کابینہ کا حصہ ہیں۔ اس کی بہت شاندار توجیع پیش کی گئی ہے کہ فروغ نسیم کو وزارت دینا‘ ایم کیو ایم کے مطالبات میں شامل نہیں تھا ۔ اُنہیں عمران خان نے خود وزارت کیلئے منتخب کیا تھا‘ اس لیے یہ اُن دونوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ 
ایم کیو ایم کے بعد حکومت کے ایک اوراتحادی جی ڈی اے کی ناراضی نے حکومت کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ اس ناراضی کی یہ وجہ سامنے آئی ہے کہ جی ڈی اے کی طرف سے مختلف شہروں کے لیے مانگے جانے والے ترقیاتی پیکجز نہیں دئیے گئے ۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے مطالبات پر بھی کان نہیں دھرا گیا۔ قومی اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے پاس ایک وزارت ہے۔ حکومت کا ساتھ دینے کے عوض جی ڈی اے کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ قاف لیگ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی ناراضی کی خبریں بھی زبان زدِخاص و عام ہیں۔ قاف لیگ کی طرف سے بارہا حکومت کو مشورہ دیا جاتا رہا کہ فی الحال دوسرے معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام تر توجہ معاشی بحالی پر مرکوز رکھی جانی چاہیے۔ تھوڑی سا ذہن پر زور دیں تویاد آجائے کہ کچھ عرصہ پہلے چوہدری شجاعت حسین کے ایک بیان نے کافی توجہ حاصل کی تھی۔اپنے بیان میں قاف لیگ کے رہنما نے بہت شفاف انداز میں واضح کیا تھا کہ اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو چار ‘ چھ ماہ کے بعد کوئی بھی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ اب ‘قاف لیگ کی طرف سے واضح طور پر ناراضی کا اظہار سامنے آرہا ہے۔ خیر کہا تو یہی جارہا ہے کہ قاف لیگ کا طرزِ عمل کسی متوقع تبدیلی کے پیش نظر تبدیل نہیں ہوا۔حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت ‘ بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی ڈنڈ بیٹھکیں لگانا شروع کردی ہیں۔ پہلی دراڑ حکومت کی طرف سے سینیٹ میں بی این پی کے اُمیدوار کو سپورٹ نہ کیے جانے سے آئی۔ بی این پی کی طرف سے کافی سخت رد عمل سامنے آیا‘ لیکن بعد میں معاملات کسی قدر پرسکون ہوگئے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی ماتھے پر بھی شکنیں پڑی نظرآرہی ہیں۔ 
اگر ایک طرف ملک کے اندر یہ سب کچھ چل رہا ہے تو دوسری طرف لندن سے بھی گرما گرم خبریں آرہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا‘ پلیٹ لیٹس کی شدید کمی کا شکاراور کسی ناقابل ِتشخیص بیماری کی لپیٹ میں آجانے والے میاں صاحب کافی فعال نظرآرہے ہیں ۔ وہاں شہباز شریف بھی اُن کے کندھے سے کندھا ملائے ہوئے ہیں۔ کم از کم یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ لندن میں موجود نون لیگی زعما نے حکومت سے روایتی انداز میں ہی نپٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کا بھرپور اظہار آرمی ایکٹ میں ہونیوالی ترمیم میں ساتھ دے کر کیا گیا۔ ایکٹ میں ترمیم پر حکومت کا ساتھ دینے پر نون لیگ کو شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا؛ حتیٰ کہ یہ عمل ن لیگی بیانیے کو بحیرۂ عرب میں ڈبو دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔خود جماعت کے اندر بھی شدید ردعمل دیکھنے کو ملا ۔ متعدد اہم پارٹی رہنماؤں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔اس حوالے سے کچھ بھی کہاجائے‘ لیکن یہ طے ہے کہ نون لیگ کے اس طرز ِعمل نے اُسے ایک مرتبہ پھر ا قتدار کے روایتی محور کے کسی قدر قریب ضرور کردیا ہے۔ اُسے بہت اچھی طرح اندازہ ہوچکا کہ روایتی انداز اختیار کیے بغیر اب‘ اُس کا اِن ہونا ممکن نہیں ہے۔نون لیگ کو عوامی سطح پر تو سبکی کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن اُس کے اس طرزِ عمل نے حکومت کیلئے مشکلات میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ کسی نامعلوم بیماری میں مبتلا میاں نواز شریف کی لندن میں مصروفیات کے باعث حکومت اچھی خاصی تپش محسوس کررہی ہے۔ خود ہی این آر او دینے والوں کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس عوام کے سامنے لائی جائیں۔ اس حکم کی وجہ نزول ‘ میاں نواز شریف کی لندن سے وائرل ہونے والی ایک تصویر بنی ہوئی ہے۔ تصویر میں میاں نواز شریف کو ایک میٹنگ میں شریک دیکھا جاسکتا ہے۔ 
حکومتیں تو ماضی میں بھی بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں‘لیکن کسی حکومت کی بساط کو اتنی جلدی نہیں اُٹھایا گیا ‘ جتنی جلدی اب اُٹھایا جاتا نظرآرہا ہے۔ اس صورت ِحال کی وجہ بظاہر تو یہی دکھائی دے رہی ہے کہ حکومتی کارکردگی نے سب کو شرمندہ کردیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ حکومت کے طرزِ عمل سے کسی کو شکایت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ کچھ ڈلیور ہی نہیں کرپائی۔ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں‘ جسے اچھی حکومتی کارکردگی کی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ کسی بات کا ماننا یا نہ ماننا ہر کسی کا اپنا صوابدیدی اختیار ہوتا ہے۔ خدا لگتی بات تو یہی ہے کہ جتنی تیزی سے موجودہ حکومت نے اُمیدوں کے محل ڈھائے ہیں ‘اُس کی مثال کم از کم ماضی قریب میں تو نہیں ملتی۔ یہ حالات دست ِ شفقت رکھنے والو ں کے لیے کافی تشویش ناک صورت اختیار کرچکے ہیں۔ اس صورت حال کو دوسرے ہم سے بھی کہیں زیادہ بہتر انداز میں جانتے ہیں۔ ایران ‘ امریکا تنازع پیدا ہوتا ہے‘ تو مختلف ممالک کی طرف سے حکومت کے ساتھ رابطہ کرنے کی بجائے کہیں دوسری جگہ فون کیے جاتے ہیں۔کچھ نہ بن آئی توہمارے وزیرخارجہ خودایران ‘ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کے عظیم مشن پر نکل کھڑے ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود کہ کوالالمپورسمٹ کے معاملے پر ہم اچھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ سمیٹ چکے تھے۔ اب‘ اس عظیم مشن پر بھی سوائے مسکرانے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے معاملات کو سنبھالا دینے کے لیے بھارت کا رخ کیا ہے؛اگرچہ اس سے پہلے ہم بہت ڈھنڈورا پیٹتے رہے کہ ایران ‘ امریکا تنازعے پر کسی نے بھارت کو لفٹ نہیں کرائی۔ 
یہ ہیں‘ وہ حالات جن میں ملک کا سیاسی منظر نامہ پھر سے گرم ہوتا نظرآرہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ حالات قطعی طور پر حکومت کے خاتمے کی طرف جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ فی الحال اُسے صرف سخت تنبیہ کی جارہی ہو کہ میاں اب بھی وقت ہے‘ کچھ کارکردگی دکھاؤ۔ اگر ایسا ہو تو بھی بظاہر حکومت سے کسی بہتر کارکردگی کی توقع رکھنا آسان نہیں ہوگا۔ آجا کے وہی گھسی پٹی تقاریر ہیں یا پھر یوٹیلیٹی سٹورز اور پناہ گاہوں کے ڈرامے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ مہنگائی کی بلند ترین سطح نے عوامی سطح پر شدید بے چینی پیدا کررکھی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت کیلئے تمام مسائل کی جڑ مہنگائی کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے ‘جس نے مقتدر حلقوں کو بھی پریشان کردیا ہے۔ حکومتی سطح پر کم از کم اس ایک شعبے میں ہی اچھی کارکردگی دکھائی گئی ہوتی ‘تو یقینا حالات اتنی تیزی کے ساتھ مخالفانہ رخ اختیار نہ کرتے ۔سر پر تمام جماعتوں کا دست ِشفقت بھی رہتا اور اتنی جلدی سیاسی اُٹھک بیٹھک کا آغاز بھی نہ کرنا پڑتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں