"FBC" (space) message & send to 7575

اسباق تو ہمارے لیے بھی پنہاں ہیں

ہمارے ہمسایہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے ‘ اُس پر غافل تو ہرگز نہیں رہا جاسکتا‘ لیکن سبق اس میں ہمارے لیے بھی بہت سے پنہاں ہیں۔شہریت کے متنازع قانون کے حوالے سے وہاں جو کچھ بھی ہورہا ‘ اُسے بڑی حد تک مودی سرکار کی ہٹ دھرمیوں کا نتیجہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے‘ کیونکہ آنکھیں بند کرکے سرپٹ دوڑتے جانے سے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھانا ہی پڑتی ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت میں شہریت کا ایک ترمیمی بل متعارف کرایا گیا ۔اس کے تحت پاکستان‘ افغانستان اور بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے بھارت آنے والوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی۔ بل کے مطابق‘ جین‘ بدھ‘ ہندو‘ مسیحی‘ پارسی اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ہی بھارتی شہریت کا حقدار مانا گیا اورتینوں ممالک سے ہندوستان آنے والے مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا ہے ۔
ہمارے ہاں پائے جانے والے عمومی تاثر کے مطابق دیکھا جائے توکم از کم ہندوؤں کو تو اس بل پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔اُنہیں تو اس بات پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ دوسرے ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو بھارتی شہریت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ اس سے اُنہیں حقیقت کے برعکس یہ ثابت کرنے کا موقع بھی ملتا کہ دیکھیںمسلمان ممالک سے بھی مسلمان بھارت میں آرہے ہیں۔ رد عمل اس کے اُلٹ آیا اور وہاں بھارتیوں کی بڑی تعدادنے محسوس کیا کہ بل کی منظوری سے بھارت کے سیکولرتشخص کو نقصان پہنچا ہے‘ اُن کااعتراض ہے کہ بل‘ بھارتی آئین کیخلاف ہے ‘جسے مذہب کی بنیاد پر متعارف اور پھر منظور کرایا گیا‘ اسی بات کو لے کر وہاں جو احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو مودی سرکار کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ تھمنے میں نہیں آرہا۔
راجستھان اور بنگال سمیت متعدد بھارتی ریاستوں میں تو وہاں کے وزرائے اعلیٰ نے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی۔مسلمان بھی اِس قانون کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ اُنہیں محسوس ہورہا ہے کہ انسانی ہمدردی کی آڑ میں نافذ کیے جانے والے قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا‘اسی دوران پولیس اور شرپسندوں کی طرف سے جامعہ ملیہ اور جواہرلال نہر یونیورسٹی دہلی میں گھس کو طلبا پر تشددکرنے کے واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔کہا جاسکتا ہے کہ بھارتی سرکارکیلئے یہ سب کچھ غیرمتوقع ہے۔وہ یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہی کہ ایک کمزور اپوزیشن اس بل کی اتنی شدت سے مخالفت کرے گی کہ وہ اسے ملکی آئین پر حملے کا مسئلہ بنا دے گی۔
مودی سرکار یہ اندازہ لگانے میں بھی ناکام رہی کہ مسلمان اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آجائیں گے ۔ اب یہ صورت ِحال ہے کہ بل کے مخالفین اور حمایتی واضح طور پر ایک دوسرے کے سامنے آچکے ۔ صورت ِحال کے باعث حکومتی سطح پر تشویش کے ساتھ کافی غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اکثر اوقات‘ وہاں کے حکومتی زعما کے بیانات کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال ‘ شہریت کے قانون کی مخالفت میں پیش پیش ہے‘ وہاں کی وزیراعلیٰ خود احتجاجی ریلیوں کی قیادت کررہی ہیں۔ یہ صورت ِحال بی جے پی کے مقامی رہنماؤں سے برداشت نہیں ہوپارہی۔ اس صوبے میں بی جے پی کی ریاستی شاخ کے سربراہ دلیپ گھوش کی طرف سے قرار دیا گیا ہے کہ بل کی مخالفت کرنے والوں کو گولی مار دینی چاہیے۔ اُن کی طرف سے متعددبار یہ قرار کیا جا چکا کہ اُتر پردیش‘ آسام اور کرناٹک میں اُن کی حکومتیں بخوبی یہ کام انجام دے رہی ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی ایک سے زائد مواقع پر صورتِ حال کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دے چکے ۔ اُنہیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کی اکثریتی آبادی کو اس قانون سے کیا مسئلہ ہے ؟ اُنہیں حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ مسلمان اور ہندؤ‘ ایک دوسرے کے ہاتھو ں میں ہاتھ دے کر حکومت کیخلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ گویا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بھارت میں حکومتی سطح پر طویل عرصے سے جو مسلم کش اقدامات اُٹھائے جارہے تھے‘ ہندوؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اُسے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ جاری مظاہروں میں ہندؤں کی بڑی تعداد میں شرکت کو اس ناپسندیدگی کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مودی سرکار کو پریشانی اِس بات پر بھی ہے کہ آئندہ ماہ فروری کے دوران نئی دہلی میں اسمبلی نتخابات ہونے والے ہیں۔صورتِ حال یہی رہی تو عام آدمی پارٹی ایک مرتبہ پھر مودی سرکار کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے۔ 
یہ صورت ِحال واضح طور پر ظاہر کررہی ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک تغیر سے گزررہا ہے۔ شاید یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ تقسیم ہند کے بعد وہاں کے مسلمان پہلی مرتبہ اس قدر مضبوطی کے ساتھ اپنے حق کے دفاع میں کھڑے ہوئے ہیں۔وہ محسوس کررہے ہیں کہ یہ بل ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ابتدا ہے۔ مسلمانوں نے اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پہلی مرتبہ مسلمان خواتین بھی پوری طرح سے متحرک دکھائی دے رہی ہے۔
تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بیشتر صورتوں میں خواتین تبھی میدان میں اُتریں ‘جب اُنہوں نے اپنے خاندان اور معاشرے کو خطرے میں دیکھا۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ اُنہیں طلبا اور ہندومذہب سے تعلق رکھنے والوں کی بھی زبردست حمایت حاصل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارت کی یہ صورت ِحال ہمارے بہت سے تصورات کو غلط ثابت کررہی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ وہاں کی اکثریتی آبادی کا بڑا حصہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر ملک کے سیکولر تشخص کو نقصان پہنچا تو یہ مسلمانوں کیلئے اچھی بات نہیں ہوگی۔صرف اتنا ہی نہیں ‘بلکہ متعدد ہندوؤں نے ڈنڈے کھائے ہیں اور جیل بھی بھگت رہے ہیں۔ اِن میں سے ایک بہت ہی مضبوط آواز جواہرلال نہرو یونیورسٹی طلبا یونین کے صدر کنہیاکمار کی بھی ہے‘اسی یونیورسٹی کے دومسلمان طلبا ابراہیم اور حیدر کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا گیا‘ تو اُن کے ساتھ کنہیاکمار بھی شامل تھے۔ تینوں پر الزام لگا کہ ایک تقریب کے دوران اُنہوں نے سرکار اور ریاست مخالف نعرے لگائے‘ لہٰذا وہ غداری کے مرتکب ہوئے۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں سامنے آئیں اور تواترکے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ متنازع شہریت بل مخالفین کی طرف سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ موجودہ بھارتی سرکار کو ہندؤاکثریتی جمہوریت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے‘ایسا ہوتا ہے تو واضح طور پر اس میں مسلمان اور مسیحی ثانوی درجے کے شہری قرار پائیں گے‘ جو قابل ِقبول نہیں۔ 
جو کچھ ہم سنتے آئے ہیں ‘اُس کے تناظر میں یہ سب باتیں ہمیں حیران کررہی ہیں۔ کچھ کچھ ایسی سوچیں بھی ذہن میں آرہی ہے کہ شاید ہم اپنی پسند کی انتہاؤں کو دیکھنے اور پیش کرنے کے ہی عادی ہوچکے۔مختلف ادوار کے دوران ہمارے ہاں بھی بوجوہ حکومتی سطح پر انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ ہم اس کی اچھی خاصی قیمت اداکرچکے اور ادا کربھی رہے ہیں۔ کسی دوسرے کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش تو کرتے ہیں ‘لیکن اُس سے سبق سیکھنے کی زحمت کم کم ہی گوارہ کرتے ہیں۔ 
کیسی عجیب بات ہے کہ ہم دوسروں سے تو اچھے اچھے کی توقع رکھتے ہیں‘ لیکن خود کسی اچھی روش کو منتخب کرنے میں لیت ولعل سے کام لیتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ انتہاپسندی‘ سرحد کے اُس پار ہو یا اِس پار‘ نتائج اس کے ہمیشہ خراب ہی برآمد ہوتے ہیں۔ آج ‘اگر ہمیں بھارتی مسلمانوں کی حالت ِزار پر دکھ ہوتا ہے‘ تو پھر ہمیں اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوگا ۔آخر میںیہی عرض ہے کہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں‘ اگر ہم دوسروں کو غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ‘ اپنی غلطیاں سدھارنے کی طرف سفر کا آغاز کریں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں