"FBC" (space) message & send to 7575

اڑیالوں سے ملاقات کرتے ہیں

ایک فون نہ جانے کہاں سے کہاں لے گیا۔ گفتگو بھی کوئی بہت لمبی چوڑی نہیں ہوئی تھی ۔بیل ہونے پر فون اُٹھایا تو دوسری طرف شکار کے شوقین اور پنجاب کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر صاحب تھے۔ حیرت ہوئی کہ اُن کے ساتھ تو کوئی یاداللہ بھی نہیں ہے تو پھر انہیں ہماری یاد کیوں کرآئی۔ معلوم ہوا کہ جنگلی حیات سے ہمارے عشق کی بھنک کہیں سے اُن کے کانوں تک پہنچی تھی۔ اسی تناظر میں آنے والی کال پر گفتگو ہوئی تو بس یہ کہا گیا کہ میاں ہمارے ہاں سیاپوں سے ہٹ کر بہت کچھ اچھا اچھا بھی ہے‘ معلوم نہیں ہمارا دھیان مثبت باتوں کی طرف کیوں نہیں جاتا ‘ یوں بھی ہماری توجہ لوگوں کی سانسیں تک کھینچ لینے سے ہٹے تو ہمیں کچھ ہرا ہرا بھی دکھائی دے‘ زیادہ دور نہیں تو کبھی ہمارے ساتھ پوٹھوہار ہی چلو ‘ دکھاتے ہیں آپ کو کہ وہاں کس طرح سے ایک مرتبہ پھر بڑے سینگوں والے بکروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اڑیال قلانچیں بھرتے دکھائی دینے لگے ہیں۔ قدرے حیرانی سی ہوئی کہ کچھ سال پہلے تک تو سالٹ رینج اور کالا چٹا پہاڑی سلسلے میں اڑیال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پتہ چلا تھا کہ وہاں ان کی تعداد یہی کوئی آٹھ سو کے قریب قریب رہ گئی ہے ۔ خطرہ سا محسوس ہونے لگا تھا کہ بڑے سینگوں والے بکروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور کہیں پوٹھوہار سے ختم ہی نہ ہوجائے۔کہاںپوٹھوہار کے خطے میں یہ ہرطرف قلانچیں بھرتے دکھائی دیتے تھے اور کہاں اب بقا کی جنگ لڑ رہے تھے ۔وجہ وہی کہ ایک توہر جگہ پر حضرتِ انسان کے قدموں کی پہنچ نے ان کے متعدد قدرتی مسکن ختم کردئیے ہیں‘ دوسری وجہ ان کا بے تحاشا شکار کیا جانا بنی۔خیر اللہ تعالیٰ شکر خورے کو شکر دے ہی دیتے ہیں‘ سو اس کال کو ہم نے شکر کے مترادف ہی سمجھا۔ 
گفتگو تو ختم ہوگئی لیکن اور بہت کچھ یاد آگیا۔ جنگلی حیات کے عشق میں مبتلا ہونے کا آغازتب ہوا جب موسم گرما کے دوران راتوں کو چھتوں پر سونے کا رواج ہوا کرتا تھا۔عمومی طور پر شام ڈھلتے ہی چھتوں کو پانی سے ٹھنڈا کرنے کا عمل شروع ہوجاتا تاکہ رات تک چھت میں موجود حدت ختم ہوسکے ۔ بچے یہ کام بہت ذوق و شوق سے انجام دیا کرتے تھے ۔ ایک تو انہیں خود پانی سے کھیلنے کا خوب موقع ملتا اور دوسرے کچھ دیر کے لیے الف انار‘ ب بکری سے بھی نجات ملی رہتی تھی۔ یہ عمل مکمل ہونے کے بعد ایک ترتیب سے چارپائیاں بچھ جاتیں۔ سب کو معلوم ہوتا تھا کہ درجہ بدرجہ کون سی چارپائی پر کون سوئے گا۔اگر کسی چارپائی پر زیادہ صاف چادر بچھی اور نیا سرہانہ دکھائی دیتا تو بنا بتائے ہی سمجھ لیا جاتا تھا کہ یہ کسی مہمان کا بستر ہے۔ بعض گھروں میں بڑے بوڑھے اور خواتین صحن میں سونے کو ترجیح دیتی تھیں‘ لیکن شام کے وقت چھت پر جانا گویا فرض ہوتا تھا۔ بھلائے نہیں بھولتا کہ تب شام کے وقت چھتوں پر کیا رونقیں ہوا کرتی تھیں۔کوئی چھت پر نظرنہ آئے تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ بیمار ہے یا گھر پر موجود نہیں ۔ ہرطرف سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتیں اور اکثر رات کا کھانا بھی چھتوں پر ہی تناول کیا جاتا تھا۔یہی وہ وقت تھا جب جنگلی حیات کا عشق ہلکے ہلکے اپنا رنگ دکھانے لگا ۔ایک دونہیں سینکڑوں بار ایسے ہواتاکہ صبح کے وقت آنکھ کھلی تو منڈھیر پر ہدہد‘ بلبلیں یا کوئلیں بیٹھی ہوئی دکھائی دیتیں۔ اکثر اوقات تو آنکھ بھی انہیں کی چہچہاہٹ سے کھلتی تھی۔ ایک دوسرے سے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے یہ پرندے اتنے بھلے محسوس ہوتے تھے کہ اکثر بستر سے اُٹھنے میں تاخیر ہوجاتی کہ ہمارے اُٹھنے سے یہ اُڑ جائیں گے۔ بس پھر اُس کے بعد سے جنگلی حیات کا عشق جو سرچڑھ کر بولنے لگا تو آج تک بول رہا ہے۔ 
طے پا چکا تھا کہ فلاں دن رات کے وقت اتنے بجے لاہور سے نکلیں گے تاکہ علی الصبح اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ یہ جانور زیادہ تر صبح کے وقت ہی اپنے مسکن سے نکلتا ہے اور سورج کے آنکھیں دکھاتے ہی واپسی کی راہ لیتا ہے۔ بیچارہ حضرت ِانسان سے خطرہ جو محسوس کرتا ہے۔ گزرے اتوار کی صبح بدرمنیر صاحب کی قیادت اور محکمہ وائلڈ لائف کے کچھ حکام کے جلو میں صبح صبح موٹروے کے راستے سالٹ رینج پہنچے تو خوشگوار حیرت کا پہلا دھچکا لگا۔ ایک نہیں بلکہ دواڑیال سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر مٹر گشت کررہے تھے۔ تھے کسی قدر بدتمیز کہ اُنہوں نے بس سر اُٹھا کر ہمیں دیکھا اور پھر ایک شانِ بے نیازی سے اپنی مصروفیت میںمگن ہوگئے۔بتایا گیا کہ یوں تو یہ قازقستان سے لداخ تک پائے جاتے ہیں لیکن پنجابی اڑیال صرف جہلم اور چکوال میں ہی پایاجاتا ہے ۔پیٹ سفید لیکن سینے پر سیاہ بالوں کے ساتھ دونوں بہت خوب صورت محسوس ہورہے تھے۔ ان کا قد70سے 90سینٹی میٹر تک اور سینگ 38انچ تک لمبے ہوسکتے ہیںجو تمام عمر بڑھتے رہتے ہیں۔جس کے سینگ بڑے ہوں گے تو اُس کی عمر بھی زیادہ ہوگی۔ سالٹ رینج کے بے آب و گیا پہاڑوں اور جھاڑجھنکار کے درمیان گھومتے پھرتے ہوئے کم از تین مزید مواقع پر انہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ ساتھ ساتھ ان کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ بھی کیا جاتا رہا کہ انہیں پنجاب کی جنگلی حیات کی شان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بڑے بڑے خم دار سینگ ہوتے ہیں جو پنجاب میں عزت کی علامت سمجھی جانے والی پگ کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ بس اسی تناظر میں یہ صوبے کی جنگلی حیات میں شان کی علامت ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
حیرت اس بات پر ہورہی تھی کہ چند سالوں کے دوران ان کی تعداد میں اتنا اضافہ کیسے ہوگیا؟ ہماری حیرت دور کرتے ہوئے بدرمنیر صاحب نے بتایا کہ سب سے پہلے تو ان کے غیرقانونی شکار کو روکنے کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ پھر یہاں کی مقامی آبادی کو اس خوبصورت جانور کی حفاظت کا نہ صرف شعور فراہم کیا گیا بلکہ اس کی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ ہرسال دسمبر کے اختتام پر اس کے شکار کی محدود تعداد میں اجازت ہوتی ہے ۔ ہمیں اتنا تو علم تھا کہ زیادہ تر بڑی عمر کے اڑیال ہی شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے‘ جس کی بہت دلچسپ وجہ سامنے آئی۔ دراصل زندگی کے بارہ چودہ سال گزار لینے والا اڑیال بوڑھوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔بڑھاپے کی حدود میں داخل ہونے کے بعد یہ ریوڑ کی مادہ اراکین کے پاس بیٹھا جگالی کرتا رہتا ہے اور اس کے باعث افزائش نسل کے عمل میں رکاؤٹ آتی ہے۔ اسی تناظر میں شکاریوں کو پابند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ بڑی عمر کے اڑیال ہی شکار کریں‘ جنہیں اُن کے بڑے سینگوں کے باعث آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ وہاں ایک دو غیرملکی شکاری بھی دکھائی دیے جو اڑیال کا شکار کرنے کے لیے آئے تھے۔ تھوڑی گپ شپ اُن سے بھی ہوئی۔ شکار کے لیے اُنہوں نے 17 ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے ادائیگی کی تھی۔ مقامی شکاریوں کے لیے قدرے رعایت ہے کہ وہ پانچ لاکھ کے عوض اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔ اچھی بات یہ بھی تھی کہ شکار کی مد میں حاصل ہونے والی فیس کا بڑا حصہ مقامی سی بی اوز کو دے دیا جاتا ہے۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطہ ایک انسان دوست جانور پینگولین کا بھی گڑھ ہوا کرتا تھا۔ یہ جانور یہاں موجود تو اب بھی ہے لیکن اس کی تعداد کافی کم ہوچکی ہے۔ اس کی خوبیوں کا سبھی کو علم ہوجائے تو ہم اسے بڑی حفاظت سے رکھیں‘ لیکن ہم میں سے بیشتر کا بھلا جنگلی حیات سے کیا لینا دینا۔ اس کے بارے میں پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے‘ فی الحال توسیاپے ایک طرف رکھتے ہوئے‘ اُڑیالوں سے ایک دن کی ملاقات کو ہی کافی سمجھئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں