"FBC" (space) message & send to 7575

دل کا کیا ہے

نگاہِ یار کا کیا ہے ہوئی ہوئی نہ ہوئی 
یہ دل کا درد ہے پیارے گیا گیا نہ گیا
معلوم نہیں اس کمبخت دل کا مسئلہ کیا ہے۔ ایامِ جوانی میں ا س کے باعث ملنے والے شکایات کے باعث اکثر والدین کے ہاتھوں سزا بھگتتے رہے۔ سزادینے میں خاندان اور محلے کے بزرگان بھی حصہ ڈالنا عین کارِثواب جانتے تھے۔ خوب اچھے سے یاد ہے کہ کئی مواقع پر تو بنا کچھ کیے بہت کچھ بھگتنا پڑا تھا۔ کیا معلوم تھا کہ خون کے اس لوتھڑے کی یہ چھیڑ چھاڑ تمام عمر جاری رہے گی۔ سو یہ اب بھی کسی کروٹ چین نہیں لینے دے رہا۔7فروری کو تو اس نے حد ہی کردی ۔بھلے چنگے ڈی جی پی آر کی مسجد میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچے تھے کہ اسی دوران اس نے کھلم کھلا ‘ بغیر کسی کا لحاظ کیے‘ چھیڑچھاڑ شروع کردی۔ پہلے تو اندازہ ہی نہ ہوپایا کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔ دفتر کے کچھ تجربہ کار دوستوں‘ بشمول ناصر بٹ صاحب نے جو حالت دیکھی تو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں کوئی وقت ضائع کیے بغیر گنگا رام ہسپتال پہنچا دیا۔ شکل صورت دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحبہ نے تلقین کی کہ فوراً گھر سے کسی کو بلوا لیں ۔ اتنا سننا تھا کہ ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ معلوم ہوا کہ فوری طور پر جان بچانے والا انجکشن لگانا درکار ہے۔ کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ کچھ کرنے سے پہلے ہی دردِ دل جاتا رہا اور طبیعت بھی قدرے بحال ہوگئی۔گمان کیا گیا کہ خرابیٔ طبیعت کا باعث بننے والے عوامل نے خود ہی پسپائی اختیار کرلی ہے۔ حالت میں بہتری کی بابت جاننے کے لیے فوراً ایک اور ای سی جی کی گئی تواُس نے بھی حالت میں بہتری کی تصدیق کردی۔ یہ دیکھ کر مجھ سے زیادہ وہاں موجود ڈاکٹر صاحبہ نے سکون کا سانس لیا ۔ میں اُن کا نام تو نہیں جانتا لیکن اللہ اُن کا بھلا کرے کہ ہر مرحلے پر ڈاکٹرصاحبان کے بارے پائے جانے والے عمومی تاثر کی نفی کرتی نظرآئیں ۔ طبیعت بحال ہونے کے بعد اُنہوں بتایا کہ خوش قسمتی سے دل کے درد نے جس طرح سراُٹھایا تھا ‘ اللہ تعالی کی مہربانی سے خودہی واپسی کی راہ بھی اختیار کرلی ہے ۔اب آپ یوں کریں کہ یہاں سے سیدھے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا رخ کریں تاکہ امراض دل کے لیے مخصوص ہسپتال میں سب کچھ ٹھونک بجا کردیکھ لیا جائے۔ یہاں سے دوسری کہانی شروع ہوئی۔
پی آئی سی جاتے ہوئے راستے میں سوچا کہ کسی اچھے پرائیویٹ ہسپتال کا رخ کیا جائے ۔ دھیان آیا کہ کہیں پیسے ویسے بنانے کے چکر میں دوجمع دو‘ پانچ ہی نہ بنا دیں ۔ وسائل ہونے کے باوجود اسی ڈر کی وجہ سے سیدھے پی آئی سی پہنچ کر دم لیا۔یہاں پہنچنا اور پھر تمام صورتحال کا سامنا کرنا کسی خوفناک تجربے سے کم نہ تھا۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے درجنوں بار پی آئی سی جانا ہوا‘ لیکن اُس دن تو جیسے وہاں سب کچھ ہی بدلا بدلا دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے پہلے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ یہاں آنے والوں کو کتنی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ تب تو ہم وی آئی پی ہوتے تھے کہ ہمیں ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے بلایا جاتا تھا۔ ہم خود مریض بنے تو یاد آنے لگا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس تن لاگے سو تن جانے۔درد دل کے ہاتھوں مجبور مریض کہ جن کے لیے پیدل چلنا گویا موت کے مزید قریب ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے ‘ خود ہی کبھی ای سی جی سیکشن کی طرف جارہے تھے تو کبھی کسی دوسرے ٹیسٹ کے لیے بھاگ دوڑ کررہے تھے۔اللہ اللہ کرکے یہ مراحل مکمل ہوئے تو ہمیں ڈرپ لگا کر ایمرجنسی ہال میں ایک سٹیل کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔یہاں تقریباً 50کے قریب کرسیاں لگی ہوئی تھیں ۔ ان سب پر مریض ہاتھوں میں اپنی اپنی ڈرپ تھامے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس ہال سے آگے تقریباً اتنی ہی نشستوں کا ایک اور ہال بھی تھا‘ وہاں بھی یہی عالم تھا۔ اس دوران دوٹیسٹوں کی رپورٹ آگئی تو کنفرم ہوگیا کہ دل نے کچھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ اس کے بعد وارڈ میں جگہ مل ہی گئی۔ ارادہ ظاہرکیا کہ پرائیویٹ روم میں شفٹ کردیا جائے تو بتایا گیا کہ یہیں لیٹے رہو کیونکہ ایسے مریضوں کو نظروں کے سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ 
دھڑکا تو کافی عرصے سے لگا ہوا تھا کہ یہ دل کچھ نہ کچھ کارستانی دکھائے گا‘ لیکن اس دھڑکے کو مسلسل نظرانداز کیے جارہے تھے۔ یہ بھی یاد آرہا تھا کہ جب کسی دوسرے کے اس تکلیف میں مبتلا ہونے کے بارے سنتے تواسے بہت ہلکے انداز میں لیتے تھے۔ ایسی سوچ پر پچھتاؤا بھی ہورہا تھا کہ جب تک انسان کو خود درد محسوس نہ ہووہ کسی دوسرے کے درد کا احساس کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔اب جو خود پی آئی سی کے سی سی یو وارڈ میں پڑے تھے تو بہت سی باتیں یاد آرہی تھیں ۔ اس بات پر بھی کفِ افسوس ملا جارہا رہا تھا کہ اگر پیدل چلنے کو عادت بنا لیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ اور نہیں تو کم از کم اپنے لائف سٹائل کو ہی بہتربنا لیتے۔ ہزاروں مرتبہ سن اور پڑھ چکے تھے کہ رات کو جلد سونا اور صبح جلدی اُٹھنا اچھی صحت کا ضامن ہوتا ہے‘مجال ہے جوکبھی اس نسخہ پر عمل کیا ہو۔خیر اب کیا ہوسکتا تھا۔ دوسرے روز آگاہ کیا گیا کہ انجیوگرافی ہوگی۔ خیر وہ وقت بھی آگیا جب انجیوگرافی کے لیے ٹیبل پر لٹا دیا گیااور یہ عمل تقریباًآدھ گھنٹے کے اندر اندر ایک سٹنٹ ڈالنے کے بعد مکمل ہوگیا۔سب کچھ صحیح صحیح ہوگیا تو دم میں دم آیا اور اُن کے لیے دل سے دعائیں نکلیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد صحت یابی کے ضامن بنے تھے۔ وہ بھی جنہوں نے ایسا طریقہ ایجاد کیا کہ صرف ایک معمولی سا کٹ لگا اور دل کی مرمت ہوگئی۔ 
اس تمام عمل کے دوران یہ سوچ باربار ذہن میں آتی رہی کہ اگر معمولی سی احتیاط بھی کی ہوتی تو اس عارضے سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہوتے وقت ایک جملہ بھی کانوں میں پڑاکہ خوش قسمت ہو جو دل کی اُٹھک بیٹھک کے باوجود بچ گئے ورنہ تو یہ مرض ملک میں ہرسال ساڑھے تین سے چارلاکھ افراد کی جان لے جاتا ہے۔بتایا گیا کہ دل کی بیماریاں ملک میں جان لینے کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہیں۔ وہ بھی ایسے ملک میں جہاں کے لوگوں کی بڑی تعداد کو روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ اس صورت میں اُن کے لیے دل کا مہنگا علاج افورڈ کرنا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود تقریباً نوے فیصد مریضوں کو اپنی جیب سے علاج کرانا پڑتا ہے۔ کچھ روز بعد ڈاکٹر عامربندیشہ سے چیک اپ کے دوران اس صورتحال پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ صورتحال میں خرابی کی بڑی وجہ خود ہمارے اپنے رویے ہیں۔ حیرانی سی ہوئی کہ وہ کیسے تو بتانے لگے کہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم دل کی بیماریوں کی علامات کو آغاز میں نظرانداز کرتے رہتے ہیں‘ عمومی طور پر تبھی ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے جب کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ واک کرنے سے ہمیں اللہ واسطے کا بیر ہے‘جب تک تھک نہ جائیں کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچا جاتا‘ بس جان لیجئے کہ اگر کبھی سینے میں درد اور بھاری پن محسوس ہو‘ٹھنڈے پسینے آنے لگیں اور سانس لینے میں دشواری پیدا ہونے لگے تو ایک لمحہ ضائع مت کریں۔ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ ان میں سے کچھ کچھ علامات ہمیں بھی محسوس ہورہی تھیں‘ لیکن اس دستک کو مسلسل نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہوا۔ہاں مثبت بات یہ ضرور ہوئی کہ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کے جو اسباق ہم بھول چکے تھے‘ وہ ضروریاد آگئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں