"FBC" (space) message & send to 7575

فی امان اللہ

امان اللہ‘ بھی ِراہیٔ ملک عدم ہوئے کہ بے شک ہرذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔سو ‘امان اللہ نے بھی اس ذائقے کو چکھ لیا‘ ازل سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے اور ابد تک ہوتا چلا جائے گا ۔ دنیا سے رخت سفر باندھنے والا ہر شخص جب جاتا ہے ‘ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اپنے پیچھے کچھ یادیں اور کچھ باتیں بھی چھوڑ جاتا ہے ۔ اب‘ جو امان اللہ نے رخت سفر باندھا ہے تو مشاہدات اور یادوں کی ایک برات اُمڈی چلی آتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ شاید مجھے اچھے سے جانتے بھی نہیں تھے ۔ بس‘ اتنا سا تھا کہ یہی کوئی ساڑھے تین دہائیاں قبل ہمیں اُن سے کچھ محبت سی ہوگئی تھی ‘ مقام تھا ؛90شاہراہ قائد اعظم ‘لاہور ۔لاہور کی شاہراہِ قائد اعظم پر سفر کریں تو یہ عمارت عین چیئرنگ کراس کے پہلو میں ایستادہ دکھائی دیتی ہے۔ ایوان ِوزیراعلیٰ کی صورت اختیار کرلینے کے بعد تو اِس کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں‘ لیکن جب ہماری اس سے آشنائی ہوئی تھی تو تب یہ عمارت کم اور بھوت بنگلہ زیادہ نظرآتی تھی۔ آج چم چم کرتی ہوئی یہ عمارت بھی طویل تاریخ رکھتی ہے۔ تب اس کے بارے میں عجیب پراسرارسی باتیں مشہور ہوتی تھیں۔ وقت گزرا تو یہ عمارت پنجاب آرٹس کونسل کا ہیڈکوارٹر بن گئی۔اُسی زمانے میں میوزک کا شوق ہمیں بھی کشاں کشاں یہاں لے گیا ۔پوری کی پوری عمارت عجیب سی پراسراریت میں لپٹی دکھائی دیتی تھی ۔ کمروں کا ایک پیچ در پیچ سلسلہ ہوا کرتا تھا‘ جہاں گھومتے پھرتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ کوئی اور بھی آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ یہ صورت حال اکثر اوقات کسی حد تک خوفزدہ کردینے والی بھی ہوتی تھی ۔اُس دور میں یہاں پر موسیقی اور رقص کی کلاسز بھی ہوا کرتی تھیں ‘جس کے ساتھ ساتھ یہاں سٹیج ڈرامے بھی ہوا کرتے تھے‘ اُسی زمانے میں یہاں پرمرحوم امان اللہ کا ایک سٹیج ڈراما دیکھنے کا موقع ملا ‘تو جیسے اُن کے انداز نے ہمیں ہمیشہ کے لیے گرویدہ بنا لیا۔اُس کے بعد سے تو جیسے چل سو چل والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ مسئلہ یہ تھا کہ اتنے زیادہ ڈرامے دیکھنے کے لیے رقم کہیں سے لائی جائے؟ یہ مسئلہ مرحوم زبیر بلوچ اور سی ایم منیر صاحب نے حل کردیا۔
دونوں نفیس شخصیات‘ پنجاب آرٹس کونسل میں ڈپٹی ڈائریکٹرز کے عہدوں پر فائز تھیں۔میوزک کی کلاسز لینے کے دوران ہی ان صاحبان سے محبت اور عقیدت کا رشتہ استوار ہوگیا۔دونوں شخصیات کے ساتھ احترام کا یہ رشتہ دونوں صاحبان کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے تک برقرار رہا۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں امان اللہ صاحب کے ڈراموں کے پاسز مفت میں ملنے لگے۔ تب اوپن ائیر تھیٹرباغ جناح میں بھی سٹیج ڈرامے ہوا کرتے تھے۔ سو ‘ان دونوں مقامات پر ہونے والے سٹیج ڈراموں میں سے امان اللہ‘ جس ڈرامے میں پرفارم کررہے ہوتے ‘ کوشش ہوتی کہ وہی ڈراما دیکھا جائے۔ مرحوم زبیر بلوچ صاحب تو کئی مرتبہ چیں بہ جبیں بچیں ہوکر کہتے کہ یار حد ہوگئی ہے‘ تم ہمیشہ امان اللہ کا ڈراما دیکھنے کی خواہش ہی کیوں کرتے ہو؟ تمہیں کوئی دوسرا آرٹسٹ اچھا ہی نہیں لگتاہے۔وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہتے اور ہم آرام سے سرجھکائے ہوئے سنتے رہتے۔ متعدد ایسے مواقع بھی آئے جب مرحوم سی ایم منیر صاحب ہماری مدد کو آئے۔ وہ ہمیشہ اپنے مخصوص نرم سے لہجے میں کہتے؛چل یار زیبر جان دے‘ ایویں ناں غصہ کر‘ ویکھ وچارہ سر سٹ کے کھڑا ہے۔(چلویار زبیر جانے دو ایسے ہی مت غصہ کرو‘ دیکھو تو بیچارہ سر نیچے کیے ہوا کھڑا ہے)۔تب کہیں جا کر گلوخلاصی ہوتی ‘جس کے بعد دونوں صاحبان اپنے اپنے سگریٹ سلگاتے اورچائے کی پیالی پر گپ شپ میں مصروف ہوجاتے۔یاد پڑتا ہے کہ تب 90شاہراہِ قائد اعظم اوراس سے ملحقہ ہلال احمر کی عمارت کے درمیان کوئی دیوار نہیں ہوتی تھی۔ بس ‘بوہڑ کا ایک بڑا سا درخت دونوں عمارتوں کے درمیان حدبندی کا کام کرتا تھ‘ اسی بوہڑ کے نیچے یٰسین نامی ایک خوب صورت سے نوجوان کی کینٹین ہوا کرتی تھی ‘جہاں دن کے بیشتر اوقات میں آڑٹسٹوں کا رش لگا رہتا تھا۔ ان میں سے متعدد سے یٰسین کو یہ گلہ رہتا کہ بہت سے فنکار اُدھار کرلیتے ہیں‘ لیکن بعد میں چکاتے نہیں ہیں ۔ اس کے باوجود کم از کم میں نے تو نہیں دیکھا تھا کہ یٰسین نے کبھی بھی کسی کو اُدھار دینے سے انکار کیا ہو۔ کئی مرتبہ اس معاملے پر اُس سے گفتگو ہوئی تو وہ ہمیشہ یہی کہتا کہ چلو جی کوئی بات نہیں ‘ گزارہ چل ہی رہا ہے‘ ناں۔ اب ‘معلوم نہیں کہ وہ نوجوان کہاں ہے ۔
اس کینٹین پر درجنوں بار ہم نے دیکھا کہ امان اللہ درمیان میں بیٹھے ہوئے گفتگو کررہے ہوتے اور اُن کے ارد گرد سننے والوں کا رش لگا ہوا دکھائی دیتا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے میں چائے کی پیالی اور ساتھ ساتھ گفتگو کا سلسلہ چلتا رہتا۔ اکثر اوقات یہ گفتگو تب بہت دلچسپ رخ اختیار کرلیتی جب مرحوم فخری احمد بھی اس میں شریک ہوجاتے ۔ اگر یاد ہے تو ٹھیک‘ نہیں تو بتاتے چلیں کہ فخری احمد بھی ہمارے ایک بہت اچھے فنکار ہوا کرتے تھے۔ بے شمار ٹی وی ڈراموں کے ساتھ ساتھ سٹیج ڈراموں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ بوڑھے پہلوان کا کردار انتہائی خوب صورتی سے ادا کیا کرتے تھے ‘بلکہ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کردار اُن سے اچھا کوئی نہیں نبھاتا تھا۔ یہاں ہم نے کئی مرتبہ اِن دونوں فنکاروں کی گفتگو کا لطف اُٹھایا ۔ امان اللہ صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بہت عاجزی اور انکساری کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے۔ فخری احمد کبھی کبھار غصے  میں  آجاتے تو امان اللہ ہمیشہ مسکرا کر بات کو گول کرجاتے تھے۔ وہ سینئر ہونے کے ناتے بھی فخری احمد کی عزت کرتے تھے ۔بس‘ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا‘ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ 90شاہراہ ِقائد اعظم اور اوپن ائیرتھیٹر باغ جناح کی رونق اُجڑنے لگیں۔ مصروفیت کے انداز بدلے تو ہمیشہ دست شفقت رکھنے والی دونوں نفیس شخصیات سے سے ملاقاتوں میں بھی وقفہ آنے لگا۔اسی دوران ایک اور واقعہ پیش آیا تو اس عمارت میں آنا بھی تقریباً ختم ہوگیا۔ ہوایوں کہ ہم یہاں پر گوگا جی گٹار سیکھا کرتے تھے اور تب ایسے مشاغل کو خرافات سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے والد صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میاں گھر میں تم رہو گے یا گٹارفیصلہ کرلو۔ہم نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ گٹار کا سبق لینے کے بعد اسے یہاں حمید مسیح نامی کے ایک ملازم کے پاس رکھوا جاتے۔ ایک روز معلوم ہوا کہ حمید صاحب کا تبادلہ راولپنڈی ہوگیا ہے اور وہ جاتے جاتے ہمارا گٹار بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ بس‘ یوں جانیے کہ یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
آہ ‘ بے شک وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔بس‘ یہ تو چلتا ہی رہتا ہے اور پیچھے چھوڑ جاتا ہے اپنی یادیں۔ اب‘ امان اللہ نے جو رخت سفر باندھا ہے تواُن سے جڑی کچھ یادیں یوں اُمڈی چلی آتی ہیں کہ جیسے یہ سب کچھ کل کی بات ہو۔ 90شاہراہ ِقائد اعظم اور اوپن ائیر تھیٹر باغ جناح کی رونقیں ماند پڑنے کے بعد بھی دوسرے تھیٹرز میں امان اللہ کے ڈرامے دیکھنے کا سلسلہ جاری رہا‘ لیکن وہ مزہ باقی نہیں رہا تھا۔ بعد میں جب ہمارے اس اچھے فن کار نے دنیا نیوز کے پروگرام ''مذاق رات‘‘ کو جوائن کیا تو ایک مرتبہ پھر اُن سے ملاقاتوں اور باتوں کا ہلکا پھلکا سا سلسلہ چل نکلا۔ جب بھی عمار ت میں داخل ہوتے تو گویا اپنے ساتھ خوشگواریت سی لے کر آتے تھے۔ ہرکسی کے ساتھ ہلکا پھلکا سا مذاق چھیڑچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھتے ۔ اس دوران بیماری نے بھی کئی بار اُن پر حملہ کیا‘ لیکن شاید ہی کبھی اُنہیں پریشان دیکھا ہو۔بھرپورمزاح پیدا کرنے پر ملکہ رکھتے تھے‘ جس کے لیے کبھی فحش گوئی کا سہارا نہیں لیا۔ اُن کی یہی خصوصیت اُنہیں دوسرے فنکاروں سے ممتاز کرتی تھی‘ پھر اس فنکار کا مشاہدہ بہت ہی شاندار تھااور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان مشاہدات کو کمال مہارت سے دوسروں کے سامنے پیش کرتے۔ انہیں خصوصیات کے باعث جہاں بھی گئے ‘ داد پائی۔امان اللہ‘ کی وفات پر مجھ سمیت اُن کے چاہنے والی رنجیدہ ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ اُن کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوسکے گا ‘لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ تادیر وہ اپنے چاہنے والوں کو یاد آتے رہیں گے۔ بے شک تم چلو اور میں آیا کا یہ سلسلہ ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔؎
سدا نہ باغیں بلبل بولے‘ سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماں پے حسن جوانی‘ سدا نہ صحبت یاراں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں