"FBC" (space) message & send to 7575

اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا

سب کچھ یک دم جامد ہوکر رہ چکا۔اردگرد کی ویرانی دیکھ کر دل ہولتا ہے۔ وہی چہل پہل جو کبھی کبھار طبیعت پر گراں گزرتی تھی۔ اب‘ اسے دیکھنے کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔آنکھیں ماند پڑ جانے والی رونقوں کی تلاش میں ہیں‘ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کے لیے ابھی کتنا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ جو خود کو دنیا کے خدا سمجھ کر تڑاخ پڑاخ کرتے دکھائی دیتے تھے‘ اب موت کے خوف سے چھپتے پھرتے ہیں۔ بھول چکے تھے کہ اُن کی پیدائش کیسے ہوئی اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں نوازا تو وہ خود کو دوسروں کا ان داتا سمجھنے لگے۔ وہ جو تن کر چلتے تھے کہ شاید اُن کے قد پہاڑوں سے اونچے ہوجائیں گے اور وہ جو زور زور سے ایڑیاں زمین پر مار کر چلتے تھے کہ شاید زمین میں سوراخ کردیں گے‘ ان حالات میں محفوظ رہنے کے لیے وہی سب سے زیادہ تگ و دو کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر کورونا اُنہیں نگل گیا‘ تو دوسروں کے خون پر تعمیر کیے محلات کون استعمال کرے گا؟ دوسروں کے حقوق سلب کرکے جو دولت اکٹھی کی ہے ‘ مر گئے تو وہ سب کی سب دوسرے استعمال کرلیں گے۔
دنیا کی تاریخ میں کم از کم ایک سوسال بعد ایسا ہوا ہے کہ انسان ‘ انسان کے لمس کو ترس گیا ہے۔سب کے سب ایک دوسرے کے سائے سے بھی بچتے پھر رہے ہیں۔ کوئی کسی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تک لے کر پینے کا روادار نہیں ۔ پیشہ وارانہ اُمور کی انجام دہی کے بعد گھر جاتا ہوں تو حسب ِسابق میری اکلوتی صاحبزادی گلے لگنے کو بے چین ہوتی ہے ‘لیکن ایک ماہ گزر چلا کہ میں اُسے گلے سے نہیں لگا سکا۔ صاحبزادوں کی ہاتھ ملانے کی خواہش کو یکسر رد کردیتا ہوں تو پھر باقی کیا بچتا ہے۔ گویا اس موذی مرض نے تو انسانوں سمیت ‘ بہت کچھ بے لباس کرکے رکھ دیا ہے ۔ پر افسوس ہوتا ہے کہ ہماری بہت سی سطحی سوچیں پھر بھی ویسی کی ویسی ہیں۔ قرنطینہ کے نام پر گھروں میں بند امیر شخصیات ‘ ٹی وی چینلز کے لیے ایک آدھ پیغام ریلیز کردیتی ہیں‘ شہرت بھی مل جاتی ہے اور کورونا کے خلاف جنگ کا سپاہی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ غریب آدمی گھروں سے باہر نکل کر اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا نظر آتا ہے کہ شاید کبھی ان شخصیات کا براہِ راست بھی دیدار ہوجائے۔ 
اللہ کا واسطہ ہے یار سب کو معلوم ہوچکا کہ بار بار ہاتھ دھونے سے کورونا وائرس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ سماجی دوری بھی اِس مرض سے بچاؤ کا واحد اور موثر حربہ ہے‘ پر جب پیٹ میں روٹی ہی نہیں ہوگی تو انسان کورونا سے مرے یا نہ مرے‘ بھوک سے ضرور مر جائے گا۔ اللہ جانتا ہے کہ بے شمار افراد کے بھوک سے مرنے کی نوبت آچکی یا آیاچاہتی ہے۔ ہرروز جب ہم پیشہ وارانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے دفتر سے باہر نکلتے ہیں تو ادارے کے لوگو والی گاڑی دیکھ کر متعدد افراد اِردگرد جمع ہوجاتے ہیں‘ امداد کی فریاد کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں پنجاب میں صرف 24گھنٹوں کے دوران کن ایک لاکھ 70ہزار مستحق خاندانوں تک ریلیف کا سامان پہنچا یا گیا اور کیسے؟یقینا یہ سوال کرنے والوں کی نظر سے اخبارات میں ‘ پنجاب حکومت کی طرف سے شائع کرائے جانے والے بڑے بڑے اشتہارات گزرے ہوں گے۔ اب‘ تو اکثر یہ سوال بھی سننے کو ملتے ہیں کہ یہ جو ہمارے ملک کے بڑے بڑے کھلاڑی اور شوبز کے سٹارز ہیں‘ وہ عملی طور پر کہاں ہیں؟وہی سٹاراور کھلاڑی ‘جو ہروقت یہی دعوے کرتے رہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی ہیں اپنے پرستاروں کی وجہ سے ہیں۔ اُنہیں جو بھی عزت ملی ہے‘ وہ ملک کی وجہ سے ملی ہے۔ اللہ کا واسطہ ہیں ‘ اُنہیں جا کر بتائیں کہ اُن کے بے شمار پرستار اور ہم وطن شدید مشکل میں ہیں۔ اُنہیں آگاہ کریں کہ اُن کے بے شمار پرستاروں کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ خدارا ویڈیوپیغامات سے نکل کر کچھ ویڈیوز شاہراہوں پر بھی آکر بنوا لیں۔ سچی بات ہے کہ کم از کم اِن سوالات کا ہمارے پاس تو کوئی جواب نہیں بلکہ اُلٹا بہت سے سوالات اپنے ذہن میں پیدا ہونے لگتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سوچ در آتی ہے کہ ماضی میں متعدد بار ایسی صورت ِحال سامنے آچکی کہ عطیات دینے کے اعلانات تو کیے گئے‘ لیکن اُن پر عمل نہ ہوسکا ۔کہیں اب بھی ایسا ہی تو نہیں ہوگا؟اب کے تو یوں بھی عطیات دئیے جانے کی شرح ماضی کی نسبت کافی کم دکھائی دے رہی ہے۔ 
انہیں سوالات کے دوران کبھی کبھار تو کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھے جیسے والے سوالات بھی سننے کو ملتے ہیں۔ جیسے یہ کے ہمارے ہمسایہ ملک میں تو بڑے صنعتکاروں نے بھاری عطیات دئیے ہیں ‘لیکن ہمارے ہاں تو اس حوالے سے سناٹا ہی دکھائی دیتا ہے۔ ایک دو نے تو گنوا بھی دیا کہ بھئی وہاں تو مکیش امبانی نے 500کروڑ روپے عطیہ کیے ہیں‘ عظیم پریم جی کمپنی نے ایک ہزار کروڑ روپے‘ انیل اگروال نے ایک سو کروڑ اور اسی طرح بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے بھاری عطیات دئیے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں تو ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔کرکٹر سریش رائنا‘ سچن ٹنڈلکر ‘ رجنی کانت‘ سلمان خان ‘ سارہ علی خان اور بے شمار دوسرے انڈین کرکٹرز اور فلمی ستاروں نے بھی بھاری عطیات دئیے ہیں۔ چند ایک نے بتا بھی دیا کہ اِن کی طرف سے کتنی رقم عطیہ کی گئی ہے۔ کڑوے کسیلے لہجوں میں پوچھے جانے والے یہ سوالات سن کر احساس بھی ہورہا تھا کہ صورت ِحال ماضی کی نسبت کافی تبدیل ہوچکی ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا پہلے کی نسبت مشکل ہوچکا ۔ بمشکل جان چھڑواتے ہیں کہ بھئی ہمیں تو نہیں پتا کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہ سب کچھ ہوا ہے‘ اگر ہوا بھی ہے تو ہمیں اس بابت کچھ معلوم نہیں۔ اب‘ ہم اُنہیں کیا بتائیں کہ یہ فرمایا جاچکا کہ دولت ہماری آزمائش ہے ۔
ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ہم سے بھی زیادہ دولت پرست ہوں‘ لیکن ہمیں تو بہرحال اپنے ہی گریبان میں جھانکنا چاہیے۔بتانے سے گریز ہے ورنہ پیسے والے کن کن طریقوں سے دولت اکٹھی کرتے ہیں‘ سب کے سامنے آجائے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ جائیں۔ بس ‘ہروقت یہ رٹ لگائی ہوتی ہے کہ حکومت ہمیں ریلیف فراہم کرے۔ حکومت ہماری مدد کرے‘ وغیرہ وغیرہ اور اب ‘جو ہم وطنوں کو ان کی ضرورت پڑی ہے ‘تو سوائے چند ایک کے سب کے سب غائب ہوچکے ہیں۔بس‘ کورونا کے حوالے سے پیغامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے‘ جن کے ختم ہونے تک نہ جانے کتنے لوگ ختم ہوچکے ہوں گے۔ بس دوسروں کو آگے بڑھنے کے لیے ٹہوکے دئیے جارہے ہیں۔ 
خدا لگتی بات ہے کہ یہ تو ہم پر اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نوازی رہی کہ ابھی تک ہمارے ہاں کورونا اُس طرح پنجے گاڑھنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ‘جس طرح کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے ‘ورنہ تو رہی سہی عزت سادات بھی رخصت ہوجاتی۔ حبیب اکرم صاحب بتا رہے تھے کہ اُن کی نظروں سے گزرنے والی ایک دستاویز کے مطابق ‘ متعلقہ اداروں نے کم از کم ایک لاکھ افراد کو قرنطینہ کرنے کے انتظامات کررکھے ہیں ۔ایسے میں اسے کیوں کر اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نواز قرار نہ دیا جائے کہ ہم اس موذی مرض سے ابھی تک بڑی حد تک محفوظ ہیں۔ کچھ کچھ افسوس اُ ن پڑھے لکھوں اور دانشوروں پر ضرور ہوتا ہے کہ جو ببانگ دہل کہتے اور لکھتے دکھائی دیتے ہیں کہ کہاں ہیں وہ جو یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر کیوں نہیں آتا۔ دیکھ لو آج وہ کورونا کی صورت میں خوفناک عذاب بھگت رہے ہیں۔ دیکھ لو کہ آج پورا یورپ اپنے گھروں میں بند ہے اور مدد کیلئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہے‘ گویا ایک کورونا ایک وبائی مرض نہ ہوا‘ بلکہ کفر اور اسلام کی جنگ ہوگیا۔ وہی روایتی سی باتیں کہ جن کا نہ کوئی سر نہ پیر۔ اب ‘جبکہ کورونا کے بعد کی دنیا‘ کورونا سے پہلے جیسی دنیا نہیں ہوگی تو ہمارے لیے بھی اس حوالے سے اپنے اندرمثبت تبدیلیاں پیدا کرنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں