"FBC" (space) message & send to 7575

فیس سیونگ کے تقاضے!

ہمیشہ کی طرح چیخ و پکار ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی؛ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘ کی پکار‘ حالات سے نمٹنے میں مشکل پر اٹھارویں ترمیم کی آڑ‘ بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ہر حد تک جانے کی للکار اور ایسی کتنی ہی صدائیں گونج رہی ہیں‘ لیکن معلوم نہیں ایسے کیوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ کی طرح فیس سیونگ کاوہی کھیل ہے ‘جو ہمیشہ سے کھیلا جارہا ہے۔ اس وقت بھی کوشش ہے کہ جتنا بھی وقت گزر جائے غنیمت ہے۔ ایک طرف مختلف کاروبار کھولے جارہے ہیں تو دوسری طرف خود ہی چیخ وپکار کی جارہی ہے کہ عوام احتیاط سے کام نہیں لے رہے‘شہریوں کی بے احتیاطی کورونا کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی ہے۔ بات کچھ پلے نہیں پڑ رہی کہ جب کاروبار کھولے جائیں گے تو لوگوں کی نقل و حرکت بھی بڑھے گی اور یہی کچھ ہو بھی رہا ہے۔ شاید یہ مستقبل کی پیش بندی کے طور پر کیا جارہا ہو کہ اگر کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوتا ہے تو آرام سے کہا جا سکے کہ بھیا ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عوام احتیاط نہیں برت رہے۔یہ بات تسلیم کہ حکومت اس وقت سخت مشکل سے دوچار ہے‘ اگر لاک ڈاؤن جاری رکھتی ہے تو عوام کیلئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا ‘ اتنے وسائل موجود نہیں کہ مستحقین کو لامحدود عرصے کیلئے بارہ ‘ بارہ ہزار ماہانہ ادا کرتی رہے۔
یہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک مرتبہ پیسے دئیے جانے کے بعد اس بات کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ دوسری مرتبہ کیلئے رقم کہاں سے آئے؟یہی صورت ِحال ہے‘ جس کے باعث حکومت بتدریج مختلف شعبے کھولتی جارہی ہے۔ اب‘ لامحالہ جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی جاتی رہے گی تو اس تناسب سے شہریوں کی نقل وحرکت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی بھی ہے اور سمجھتی بھی ہے ۔ جب ایسا ہی ہونا ہے تو پھر بہتر ہے کہ صرف شور مچاکر فیس سیونگ کی بجائے عملی اقدامات کی طرف توجہ دی جائے۔ کوروناوبا کے حوالے سے کیے جانے والے حکومتی اقدامات پر سامنے آنے والے تحفظات کو دور کرنے کی طرف توجہ مبذول کی جائے۔خصوصاً قرنطینہ سینٹرز کے حالات میں بہتری لانے کی تو اشد ضرورت ہے۔ان سینٹرز کی صورت ِحال تو اچھے خاصوں کے دل دہلائے دیتی ہے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں سب سے الگ تھلگ پڑے ہوئے مریضوں پر کیا بیت رہی ہوگی؟ رہی بات ہم شہریوں کی تو ہم کون سا کسی بہت تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرے کا حصہ ہیں‘ جو اصول و ضوابط پر عمل کرنے کی اہمیت جانتے ہوں۔ ہرمعاملے میں حکومت کو ہی رگیدتے رہنے کو ہم جیسے مستقل روش کے طور پر اپنا چکے ہیں۔ حکومت یہ نہیں کرتی ‘ حکومت وہ نہیں کرتی‘ لیکن یہ کبھی نہیں دیکھنا اور سوچنا کہ ہم خود کیا کرتے ہیں۔ اس وقت تو ویسے بھی ماہِ رمضان المبارک چل رہا ہے‘ جو ہماری عادات اور رویوں کو سمجھنے کا مناسب ترین وقت ہے۔ جب ہم اس مقدس ترین مہینے کے دوران اپنی منفی عادات میں تبدیلی نہیں لاسکتے تو باقی دنوں کی تو بات ہی کیا؟
اس وقت کورونا وبا کے باعث جو ایمرجنسی کی سی صورت ِحال ہے تو ہم بھلا کہاں اس قابل کہ اس کے تقاضوں کو سمجھ سکیں۔ یہی وجہ رہی تھی کہ ہمارے طرز عمل کی ہلکی پھلکی جھلکیاں تو لاک ڈاؤن کے دوران بھی دکھائی دیتی رہیں۔اب‘ جو حکومت نے کچھ دفاتر کھولے تو یہی جھلکیاں بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملیں۔حکومتی انتظامات اور شہریوں کے طرزِ عمل کا مشاہدہ براہ راست کرنے کا موقع بھی ملا۔ روزے کی حالت میں تپتے سورج کے عین نیچے خواتین اور مرد ایک طویل قطار میں لگے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ کہاں کی حفاظتی تدابیر اور کہاں کے سماجی فاصلے؟حکومت کے اینڈ پر انتظاما ت کے نام پر کہیں ایک واٹر کولر تک پڑا ہوا بھی دکھائی نہ دیا۔ جب میڈیا پر ان حالات کے بارے میں شور مچا اور پھر مچتا ہی رہا تو انتظامات میں قدرے بہتری لائی گئی۔ تیسرے روز جا کر انتظامیہ نے سائلین کے لیے سائے اور ہاتھ دھونے کا انتظام کردیا تو شہریوں کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر یہی انتظامات دفاتر کھلنے سے پہلے کرلیے جاتے تو اتنی افراتفری تو نہ مچتی‘اگر مناسب انتظامات نہیں تھے تو شہریوں کو ہی کسی قدر تحمل سے کام لینا چاہیے تھا۔وہاں ابتدائی دوایام کے دران ایسی ہڑبونگ مچی رہی کہ اللہ کی پناہ۔ اب‘ معلوم نہیں کہ دوروز کے دوران کوروناوائرس کے کیرئیرز نے کتنے دوسرے افراد کو بھی متاثر کردیا ہوگا؟؟ 
سچی بات تو یہی ہے کہ حکومتی اور عوامی طرزِ عمل دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب ہمیں طویل عرصے تک کورونا کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ شاید اسی کے پیش نظر حکومت نے بھی اپنی زیادہ توجہ کورونا کی بجائے دوسرے اُمور پر مرکوز کرنا شروع کردی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے 18ویں ترمیم کا شور تسلسل کے ساتھ بلند کیا جارہا ہے۔ اب تک کی وفاقی حکومت کی ناکامیوں میں سے بیشتر کا ذمہ دار اسی ترمیم کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ یہ بات بھی تواتر سے کی جارہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کا پھر سے جائزہ لیا جانا چاہیے ۔ بظاہر تو اس حکومتی موقف کو بھی فیس سیونگ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ویسے بھی اس مقصد کے لیے یہ کوئی مناسب موقع تو بہرحال قرار نہیں دیا جاسکتا‘پوری دنیا کورونا سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور یہاں 18ویں ترمیم پر نیا ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مختصراً جان لیں کہ سننے میں آرہا ہے کہ اس معاملے پر اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائے گا۔ حکومت کو اپنا مقصد حاصل ہوجائے گا اور اپوزیشن رہنما اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ وہ کامیاب ہوں بھی کیوں ناں کہ ایسے مواقع روز روز کہاں ملتے ہیں؟ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کیلئے اس سے سنہری موقع کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اس ترمیم کے خاتمے کی حمایت کرکے مقدمات سے نجات حاصل کرلیں یااگر کچھ اور حاصل کرلیں تو اُس کی طرف پیشقدمی کریں ۔حکومت ‘اپوزیشن کو کچھ نکات پر راضی کرلے گی اور اپوزیشن ‘ حکومت کوقائل کرنے میں کامیاب رہے گی۔ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد عوام کو ویسے ہی بیوقوف بنانے کا عمل شروع ہوجائے گا‘ جیسے بہتر برسوں سے جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں