"FBC" (space) message & send to 7575

آگے معلوم نہیں کیا بنے گا سوہنیا

بے صبری تو ہماری چہاردانگ عالم اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑھے ہوئے ہے ۔اب ‘یہ بھی ثابت ہوا کہ جان جانے کا خطرہ بھی ہمارے بے ہنگم پن کے راستے کی رکاؤٹ نہیں بن سکتا۔ حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں معمولی سی نرمی دکھائی گئی تو جیسے دریاؤں پر باندھے ہوئے تمام باندھ ہی ٹوٹ گئے۔ کہاں تومساجد تک کھولنے سے پہلے صدرمملکت اور علمائے کرام کے درمیان طویل بات چیت ہوتی رہی‘ جس کے بعد کہیں جا کر مساجد کھولنے کے لیے 20نکات پر اتفاق رائے ہوگیا ۔ مساجد کھلنے کے بعد متعلقہ اداروں کی طرف سے مجموعی طور اب تک ایس اوپیز پر قابل اطمینان حد تک عمل ہونے کی بابت بتایا گیا ہے؛بلاشبہ یہ قابل تحسین ہے کہ جن نکات پر اتفاق ہوا تو اُن پر عمل درآمد بھی کیا جارہا ہے‘ اگر سوفیصد نہیں تو بھی صورت حال بڑی حد تک بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ چاہے کورونا کی وجہ سے ہی سہی‘ ہم نے کچھ نظم وضبط کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔یہ تمام غلط فہمیاں یکدم دور ہوگئیں جس دن حکومت کی طرف سے مارکیٹیں کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ او میرے خدایا کیا مرد ‘ کیا خواتین اور کیا بچے‘ سب کے سب بلا امتیاز جنس و عمر مارکیٹوں میں یو ں پہنچے کہ جیسے اُس دن کے بعد یہ پھر سے ایک ماہ کے لیے بند کردی جائیں گی۔
اِس سے پہلے بھی حکومت نے مختلف کاروبار کھولے تھے لیکن حالات بڑی حد تک قابو میں رہے تھے لیکن مارکیٹیں کھلنے کے بعد تو بچت کا تمام تر دارومدار صرف اور صرف تقدیر پر ہی باقی رہ گیا تھا۔ شاید ہمیں اِس سے بھی ہمت ہوئی گئی کہ ابھی تک تقدیر کی مہربانی سے ہمارے ہاں کورونا کی صورت حال قابو سے باہر نہیں ہوئی ہے۔ کچھ تحفظات کے باوجود حکومتی سطح پر بھی ہرممکن حد تک اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں تو سب مل ملا کے ابھی تک ہم کورونا کے اُس ستم سے بچے ہوئے ہیں جو وہ امریکہ‘ برطانیہ ‘ اٹلی‘ فرانس ‘ ایران وغیرہ پر ڈھا چکا یا ڈھا رہا ہے۔شاید اِس کی وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ عالمی ادارہ صحت نے واضح طور پر یہ اعلان کردیا ہے کہ بھائی جان کورونا اب جلد ہماری جان چھوڑنے والا نہیں ‘ جتنی جلدی اِس وائرس کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھ لوگے‘ اُتنا ہی فائدے میں رہو گے۔ ہاں جب کبھی اِس کی ویکسین تیار ہوجائے گی تو پھر یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ صورت حال معمول پر آنا شروع ہوجائے گی۔ عالمی ادارے کی طرف سے یہ بھی واضح کیا جاچکا کہ میاں اِس وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں نفسیاتی امراض میں بے تحاشا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے تو دوستو اِس سے بھی آگاہ رہیے گا۔ وجوہات اِس کی بہت واضح اور صاف ہیں کہ ایک تو وائرس کی ہلاکت خیزیوں نے سبھی کو ذہنی طور پر پریشان کررکھا ہے۔ احتیاطی تدابیر کے نام پراپنے جیسے کسی انسان کے ساتھ پہلے کی طرح ہاتھ ملایا جاسکتا ہے نہ گلے ملا جاسکتا ہے۔ اور تو اور انسان اپنے ہی بچوں کو پیار کرنے سے بھی کترارہا ہے ۔ بیماری اور خوف کی یہ صورت حال ذہنوں میں زلزلے برپاکررہی ہے تو لامحالہ انسانی دماغ پر اس کے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی ادارہ صحت کے ساتھ اقوام متحدہ نے بھی ایک مرتبہ پھر یہ بم پھوڑا ہے کہ کورونا کے باعث 2020ء کے دوران عالمی معیشت 3.2فیصد تک سکڑ جائے گی ۔ اگر کچھ زیادہ نہ بھی ہوا توبھی کم از کم 43.3ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے آجائیں گے اور 2030ء تک اِس میں مزید 130ملین افراد شامل ہوسکتے ہیں۔ ایوی ایشن اور سیاحت کی انڈسٹریز کا تو بیڑہ غرق ہوچکا ہے جس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ برا ہورہا ہے۔ ستم بالائے ستم تو یہ بھی ہے کہ ا س سب کے ساتھ ساتھ یہ بھی سنا یا جارہا ہے کہ اندازوں سے ہٹ کر ‘ اور بھی بہت کچھ برا ہوسکتا ہے۔ گویا یہ ہے اُس صورت حال کی معمولی سی جھلک جس میں اب ہمیں غیرمعینہ مد ت کے لیے سانس لینا ہو گا۔ شاید یہ سب کچھ جان لینے کے بعد ہم نے ضروری سمجھا کہ جتنی جلدممکن ہو‘ کورونا سے دوستی کرلی جائے۔ 
سچی بات ہے ہمیں تو اُن ممالک پر حیرت ہوتی ہے جو ابھی تک کورونا کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔ جیسے کہ پرتگال میں سکول کھول دئیے گئے ہیں تو بچوں کو دوگروپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ سکولو ں کے سامان کو دن میں دس مرتبہ ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ بچوں کو مسلسل کورونا سے حفاظت کے لیے تدابیر سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ بیلجیم میں ابھی تک ماسک نہ پہننے پر دوسو پچاس یورو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور اہم بات تو یہ بھی ہے کہ کوئی سفارش بھی کام نہیں آتی۔ ایسا تھوڑی ہے کہ ایک کال پر قانون اپنا منہ لپیٹ کر کہیں دور جاچھپے۔ جرمنی میں شہریوں کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ بھائی لوگو ایک وقت میں صرف دوخاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں اور وہ بھی مناسب دوری سے۔ پھر ایک سمارٹ گھڑی متعارف کرائی گئی ہے ۔ جب بھی کوئی کسی دوسرے شخص کے زیادہ قریب آجاتا ہے تو گھڑی کا الارم بجنا شروع ہوجاتا ہے۔ یورپ کے متعدد ممالک میں کھلنے والے ریستورانز کو پابند کیا گیا ہے کہ اب وہ اپنے ہاں رکھی گئی نشستوں کی تعداد نصف کردیں‘ تاکہ وہاں آنے والے گاہکوں کے درمیان مناسب فاصلہ برقرار رہ سکے۔ فرانس میں ابھی تک شہریوں کو زیادہ سے زیادہ ایک سو کلومیٹر تک سفر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اجازت بھی ناگزیرحالات میں سفر کے لیے ہی کارآمد ہے لیکن سفر کے دوران شہریوں کو ہروقت ماسک پہنے رکھنا ہوگا ‘ورنہ اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ مالکان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی فیکٹریوں یا دفاتر میں سماجی دوری کو یقینی بنائیں اور حکومتتی ایس اوپیز پر مکمل عملدرآکریں۔ بس یوں جان لیجئے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کی حفاظت کو ممکن بنانے کے لیے ہر وہ قدم اُٹھا یا ہے‘ جو انسانی بساط میں ہے۔اب ‘اِس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ شہریوں کی طرف سے بھی اِن احکامات پر عملدرآمدکی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ کیا ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے‘ جسے یہ شک ہوگا کہ یورپی ممالک کے شہری اِن باتوں پر عمل نہیں کریں گے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں