"FBC" (space) message & send to 7575

ٹوئٹس اور سخت نوٹسز سے آگے بڑھیں

یہ بھی ہمارا ہی اعزاز ہے جو ہمارے ہاں واقعات رونما ہونے کی رفتار دوسرے کئی ممالک سے تیز تر ہے۔ ان واقعات پر ذمہ داروں کی طرف سے نوٹس لیے جانے کی رفتار بھی تیز تر ہے۔ادھر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور اُدھر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی طرف سے اس کا سخت نوٹس لے لیے جانے کا پیغام آجاتا ہے۔ الفاظ بھی تقریباً روایتی سے ہی ہوتے ہیں‘ جیسے پولیس مقابلوں کی ایک ہی کہانی ہوتی ہے ۔ وہی گھسی پٹی کہانی کہ پولیس ملزمان کو نشاندہی کے لیے کہیں لے جارہی تھی کہ راستے میں ملزموں کے ساتھیوں نے اُنہیں چھڑانے کے لیے فائرنگ کردی۔ فائرنگ کی زد میں آکرپولیس وین میں موجود تمام ملزمان ہلاک ہوگئے‘ تاہم پولیس اہلکار محفوظ رہے۔ اب اس روایتی کہانی میں اس حد تک ضرور تبدیلی کی گئی ہے کہ کسی نہ کسی پولیس اہلکار کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی دے دی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح کچھ قطع و برید کے ساتھ نوٹس لیے جانے کے الفاظ بھی تقریباً ایک سے ہی ہوتے ہیں‘جیسے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے نواب ٹاؤن میں قتل ہونے والے بچے کے قتل کا سخت نوٹس لے لیا‘ ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا سخت نوٹس لے لیا۔ محکمہ خوراک کے چار افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ افسران اپنے عہدوں سے ہٹائے جانے کے بعد دوبارہ تعینات بھی ہوگئے ۔عوام بھی خوش اور افسر بھی خوش۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے پر وزیراعظم عمران خان کا سخت نوٹس‘ ذمہ داروں کا جلد تعین کرنے کا حکم ۔ سانحہ ساہیول کے ذمہ داروں کو بھی ''کڑی سے کڑی‘‘ سزا مل چکی ہے اور دیگر سخت نوٹسز کے نتائج بھی بس سامنے آنے ہی والے ہیں۔کافی عرصہ پہلے کی بات ہے سا بق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سرکاری میڈیا ٹیم کے ایک رکن نے اس راز سے پردہ اُٹھایا تھا کہ سخت نوٹس کی حقیقت کیا ہوتی ہے۔ موصوف نے آگاہ کیا تھا کہ ہمیں وزیراعلیٰ کی طرف سے ہدایات تھیں کہ کہیں بھی قابلِ دست اندازیٔ پولیس کیس ہو تو اُن سے پوچھے بغیر ہی انسپکٹر کے عہدے تک کے افسران کی معطلی کا بیان جاری کردیا جائے۔ اس عہدے سے اوپر والے عہدیداروں کی معطلی کیوں نہیں؟وہ اس لیے کہ اُنہیں معطل کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے اور پھر ویسے بھی زیادہ ہلچل مچانے سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے۔ 
اب جیسے پولیس مقابلوں کی روایتی کہانیوں میں کسی قدر تبدیلی لائی جاچکی ہے تو کم از کم نوٹسز کی عبارت کو بھی بہتر بنا لیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ یا پھر کبھی کبھار نوٹسز کے نتائج سے بھی آگاہ کردیاجائے توکچھ حوصلہ ہوتا رہے ۔جیسے اس وقت چینی کے نرخوں میں اضافے پر سامنے آنے والی رپورٹ کے حتمی نتائج کا بہت بے صبری سے انتظار ہورہا ہے۔ گو کہ بوجوہ اس کی اُمید تو کم ہی ہے۔ ایک تو ہماری یادداشتیں ویسے بھی بہت کمزور ہیں اور پھر واقعات کے رونما ہونے کی تیز تر رفتار۔ان میں سے کچھ تو اچانک رونما ہوجاتے ہیں لیکن کچھ کوحصول مفادات کے لیے کسی خاص وقت پر سامنے لایا جاتا ہے۔ پھر سکرپٹ کے مطابق کسی کو رگیداتو کسی کو نوازا جاتا ہے۔ مقصد رگیدے جانے والوں سے اپنی بات منوانا اور نوازے جانے والوں کو اُن کی خدمات کا صلہ دینا ہوتا ہے۔ اسی دوران نئے ڈراموں کے سکرپٹ پربھی کام جاری رہتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی مخصوص وقت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ایک عملِ مسلسل کا نام ہے۔ اب ایسے ہی تو سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار بری نہیں ہوجاتے‘ چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں یونہی تو من مرضی کے نتائج حاصل نہیں ہوجاتے۔ بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ان سب نے مل ملا کر ایسے ایسے سانحات کو وقت کی گرد میں چھپا دیا ہے کہ سوچ کر ہی خود پر چار حرف بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔ ویسے بھی جہاں ملک کا ایک حصہ الگ کردینے کے ذمہ داروں کا احتساب نہ ہوسکا تو باقی کیا بچتا ہے۔ جب پہلی مرتبہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے کچھ حصے پڑھنے کا موقع ملا تو سچی بات ہے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دوقومی نظریے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا تھا اور ہماری خرمستیاں عروج پر تھیں۔اس کے بعد پھر کراچی سانحہ 12مئی‘ سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ سانحہ بلدیہ ٹاؤن یا سانحہ ساہیوال جیسے واقعات کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ ہاں‘اب کسی واقعہ پر اپنی پسند اور ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کے لیے ہاتھ لگنے والا سوشل میڈیا کا ہتھیار بہت طاقتور ثابت ہورہا ہے۔ اس کی طاقت کے کچھ مظاہر تو حالیہ دنوں کے دوران ہی دیکھنے میں آئے ہیں جب طاقتور بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے‘ورنہ کس کی مجال تھی جو کوئی دم مارسکے۔
سو اندازہ لگانا کہاں مشکل رہ گیا کہ وقت کا دھارا کسی قدر تبدیلیوں کے اشارے دے رہا ہے۔ ان حالات میں حکومت کے لیے بھی نوٹسز لیے جانے کے روایتی طریقۂ کار پر زیادہ دیر تک عمل کرنا کہاں آسان رہ گیا ہے۔ سچی بات ہے کہ حکومتی کارکردگی نوٹسز یا پر ٹوئٹس کی صورت میں ہی سامنے آرہی ہے‘ عملًا تو صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے۔ یہ تو ملکی صورتحال میں خرابی کے حوالے سے کورونا کا بہانہ مل گیا ورنہ اس سے پہلے بھی حالات کہاں آسودگی کا پتہ دے رہے تھے۔ ترجمانوں کی فوج کی حرکت پذیری کے باوجود حکومت پر عوامی اعتماد کم ہوتا چلا جارہا ہے۔ کورونا کی صورت حال کا ہی جائزہ لے لیں جو کے بقول مرزا غالب کے‘ ہرچند کہیں کے ہے نہیں ہے‘ لیکن اس پر حکومتی پالیسیاں مسلسل تنقید کی زدمیں ہیں۔ حفاظتی سازوسامان کی کمی پر طبی عملہ تو شروع دن سے ہی گلے شکوے کرتا چلا آرہا ہے۔ کورونا کے مرض میں مبتلا ہوکر قرنطینہ سینٹرز میں جھونک دئیے جانے والوں کی چیخ وپکار بھی بلند تر ہوئی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کورونا کے مریضوں پر اُٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے استفسار کرتی ہے تو جواب چودہ طبق روشن کردیتا ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ کورونا کے ہر مریض پر اوسطا 25لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔ جن مریضوں پر اتنی بھاری رقم خرچ کی جارہی ہے وہ اللہ کے واسطے دے رہے ہیں کہ اُنہیں قرنطینہ سینٹرز سے نکالا جائے۔ ان سینٹرزکی حالت زار پر بھی صرف ٹویٹس اور سخت نوٹسز کی اطلاعات ہی موصول ہوتی ہیں۔ صرف کورونا کے معاملے پروزارتِ عظمیٰ کی سطح پر جتنے بیانات تبدیل کیے گئے ہیں‘ وہ بھی اپنی مثال آپ ہی قرار دئیے جاسکتے ہیں۔
ہاں البتہ یہ حقیقت تسلیم کہ کورونا نے عوامی سطح پر بہت کچھ تبدیل کردیا ہے۔ حیرت ہوئی ملک میں دل کے سب سے بڑے ہسپتال‘ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ایمرجنسی میں جاکر ۔ وہی ایمرجنسی جہاں کورونا کی آمد سے پہلے کھوئے سے کھوا چھلتا تھا‘ تقریباً خالی دکھائی دے رہی تھی۔ چند ایک مریض موجود تھے جن کی بابت معلوم ہوا کہ اپنے ٹیسٹوں کی رپورٹس لینے کے لیے آئے ہیں۔ یقینا دل کے امراض میں مبتلا افراد کچھ نہ کچھ دال دلیا تو کرہی رہے ہیں لیکن کارڈیالوجی کا عالم البتہ پہلے کی مانند نہ دکھائی دیا۔ سنی سنائی تو یہ بھی ہے کہ کورونا کی آمد کے بعد سے بچوں کی نارمل طریقے سے پیدائش میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ عقل گئی گھاس چرنے کہ پہلے تو ہرحاملہ خاتون کو ہسپتال پہنچتے ہی سنا دیا جاتا تھاکہ بی بی بڑا آپریشن ہوگا۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں تو سی سیکشن کا رواج ہی پڑ چکا تھا۔ دوتین روز کے دوران ہی لاکھوں روپے ہاتھ لگ جائیں تو کیا حرج ہے ۔ اب جو کورونا نے اپنے پنجے گاڑے ہیں تو صورتحال یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ اب کچھ کیے بغیر ہی کورونا کے مریضوں سے بھاری رقوم بٹورنے کا موقع حاصل ہوچکا ہے۔ ظاہر ہے وقت کے ساتھ خود کو تبدیل کرنا بھی زیادہ دولت کمانے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ تمام سرکاری دفاتر بھی کام لپیٹ کر چپکے ہورہے اور کچھ یہی عالم پرائیویٹ سیکٹر کا بھی رہا ۔ گو اب عوام کو بھوک سے بچانے کے نام پر پہلے جیسی سختی تو نہیں رہا لیکن پھر بھی ابھی تک بہت کچھ لپٹا پڑا ہے۔ اس سب کے باوجود زندگی کی گاڑی ہے کہ چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ اللہ کرے کہ حکومت کی گاڑی بھی ٹوئٹس اور سخت نوٹسز کی پٹری تبدیل کرکے کچھ کردکھانے والے پٹری پر پر رواں دواں ہوجائے ورنہ اگر کوئی یہ کہے کہ ''چوروں کی حکومت میں چینی 50روپے کلو فروخت ہورہی تھی‘‘ تو پھر ایمانداروں کے دور حکومت میں اس کے نرخ کیوں کر 80‘85روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں تو اُس کے حق بجانب ہونے پر انگلی اُٹھانا کافی مشکل ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں