"FBC" (space) message & send to 7575

کمزور کے سر پر اور طاقتور کے پاؤں میں والا رویہ

پانچ مئی سے لداخ کے متعدد علاقوں میں چین اور بھارت کی افواج ایک دوسرے کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈالے بیٹھی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی لمبائی 35سو سے چار ہزار کلومیٹر کے درمیان ہے‘ جسے عرف ِعام میں ایل اے سی( لائن آف ایکچوئل کنٹرول) کہا جاتا ہے‘اس کی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے برعکس اس کے بیشتر حصے کی نشاندہی نہیں کی گئی۔اس کے بعض متنازع علاقوں کو لیکر چین اور بھارت کے درمیان 1962ء میں ایک جنگ بھی ہوچکی ‘ اُس کے بعد سے دونوں کے درمیان کوئی جنگ تو نہیں ہوئی ‘لیکن ایل اے سی کی واضح نشاندہی نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے فوجی ایک دوسرے سے اُلجھتے رہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان بڑی کشیدگی کا ایک واقعہ 2017ء میں ڈوکلام کے علاقے میں پیش آچکا ۔ اس علاقے میں شاہراہوں کی تعمیر کو لے کر دونوں ممالک کے فوجی ایک دوسرے سے اُلجھ پڑے تھے‘ لیکن صرف ہاتھا پائی کی حد تک۔ لداخ کے متعدد علاقوں میں جاری موجودہ تنازع کے دوران بھی زبردست کشیدگی تو موجود ہے‘ لیکن دیکھنے والوں نے دیکھا کہ دونوں ممالک کے فوجیوں نے اب کے بھی صرف ایک دوسرے کو دھکے دینے یا ٹانگیں مارنے پر ہی اکتفا کررہے ہیں۔ یقینا یہ بات دیکھنے والوں کیلئے بہت حیران کن بھی قرار دی جاسکتی ہے کہ اتنی زیادہ کشیدگی کے باوجود ایک دوسرے پر گولیاں کیوں نہیں برسائی جاتیں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹل بہارئی واجپائی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ سرحد پر کشیدگی کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے‘ ایک دوسرے کیخلاف اسلحہ استعمال نہیں کیا جائے گا‘اگر فوجیوں کے پاس رائفلیں ہوں گی تو بھی اُن کا رخ زمین کی طرف ہوگا۔ عمومی طور پر لڑائی جھگڑے کے دوران ایک دوسرے کو تھپڑ مارنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے‘ کیونکہ تھپڑ مارنا توہین کی علامت سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے ایسا کرنے کی صورت میں کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔گزشتہ روز بھارتی در اندازی پر چین نے بھارت کے ایک کرنل سمیت20فوجی ہلاک کیے تو یہ بھی دست بدست لڑائی‘ پتھروں اور لاٹھیوں سے حملوں کا نتیجہ ہے‘ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ اب بھی قائم ہے۔ فی الحال تو ٹانگوں اور دھکوں سے ہی کام چلایا جارہا ہے‘ لیکن بڑھتی ہوئی کشیدگی میں مزید اضافہ اسلحہ کے استعمال کی راہ بھی ہموار کرسکتا ہے۔
بھارت کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ چین کی افواج نے بلااشتعال آگے بڑھ کر بھارت کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ چین کا موقف ہے کہ یہ علاقہ اُس کے ملک کا حصہ ہے‘ جس پربھارت نے قبضہ جما رکھا تھا۔ الزامات در الزامات کے چکر میں کشیدگی اس قدر بڑھ چکی کہ دونوں ممالک ہی ایک دوسرے کیخلاف ملٹری بلڈ اپ کررہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اور بھارتی افواج کے کمانڈروں کے درمیان میٹنگز کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ دوسری طرف چینی رہنما شی چن پنگ نے اپنی افواج کو تلقین کی ہے کہ اُنہیں بدترین حالات کیلئے تیار رہنا چاہیے اور جنگی تیاریوں میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔ اہم ترین بات تو یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک نے اپنی اپنی سرحد کے اندر نئی فضائی پٹیاں بنانے یا پہلے سے موجود پٹیوں کو مزید وسعت دینے کام کر رہاہے‘ تاکہ بوقت ِضرورت فوری طور پر ہوائی فوج کو استعمال کیا جاسکے۔ اس تمام تر تنازعے کی بنیادی وجہ یہ قرار دی جارہی ہے کہ پہلے بھارت نے اپنے سرحدی علاقوں میں نئی تعمیرات کیں۔ شاہراہیں تعمیر کیں اور فضائی پٹیوں کو وسعت دی۔ چین نے اس صورت حال کو اپنے لیے خطرہ گردانا اور آگے بڑھ کر تمام حالات کو ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔اب‘ بھارت کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ کسی طرح چین کو واپسی کیلئے آمادہ کیا جاسکے اور تو اور وہ بھارتی میڈیا جو ہمیشہ پاکستان کیخلاف زہر اُگلتا رہتا ہے‘ اُسے بھارتی حکومت کی طرف سے متعدد بار تنبیہہ کی جاچکی ہے کہ چین کے معاملے میں باتوں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ مطلب یہ کہ ہر وقت پاکستان کو گھرکیاں دینے والا بھارت‘ چین کے معاملے میں مسلسل صلح جوئی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ گویا ایک مرتبہ پھر یہ کہاوت اپنی سچائی ثابت کررہی ہے کہ ''تگڑے دیاں ستی ویاں سو ہوندیاں نئیں‘‘(مطلب یہ کہ طاقتور اگر یہ بھی کہے کہ سات بیس ہو ں تو سو بنتا ہے تو غلط ہونے کے باوجود کمزور اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں)کیسی عجیب بات ہے کہ پاکستا ن کی طرف سے ہمیشہ بھارت کی طرف امن کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے‘ لیکن اُس کا تکبر ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ چھوٹا ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو ہمیشہ اُس کی ہاں میں ہاں ملانی چاہیے۔ قریباً 33لاکھ مربع کلومیٹر رقبے اور 1ارب 35کروڑ کی آبادی والا بھارت سمجھتا ہے کہ خطے میں پاکستان اُس کی چوہدراہٹ کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے‘ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں پاکستان کی مخالفت کے نام پر ووٹ حاصل کرتی ہیں۔بی جے پی نے تو اس سلسلے میں تمام حدیں ہی پار کردی ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان صرف 8لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ معاشی اعتبار سے بھی کمزور ہے‘ اس لیے وہ جب چاہے‘ اسے دبا سکتا ہے۔ 
بھارت ہمارے مقابلے میں بڑا ملک ہے اور اُس کے پاس وسائل بھی زیادہ ہیں ۔ اب‘ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کمزور یا چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے ہم بھارت کی غلط باتوں کو قبول کرلیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا لیکن بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب ‘چین کے ساتھ ٹاکرا ہوا ہے تو بھارت معاملے سے نمٹنے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کررہا ہے۔ وجہ اس کی بھی بہت سیدھی اور صاف ہے کہ چین ‘ بھارت کے مقابلے میں بڑا اور طاقتور ملک ہے۔معاملہ پاکستان کا ہو تو بالا کوٹ جیسی جھوٹی کارروائی کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اب ‘یہ عالم ہے کہ بھارتی حکومت اور فوج‘ دونوں منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔یہ رویہ صرف ممالک کی سطح تک ہی محدود نہیں‘ بلکہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بھی کثرت سے ایسے رویوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کمزور کے سر پر سوار ہوجانے اور طاقتور کے پاؤں میں لیٹ جانے کا رویہ ہی ہوتا ہے‘ جو دنیا اور معاشروں میں ابتری پیدا کرتا ہے‘ بجز اُن معاشروں کے جہاں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ چین ‘ بھارت جاری تنازع تو حل ہوہی جائے گا‘ لیکن آپ سوچئے کہ اگر ایسا ہی کوئی تنازع پاکستان کے ساتھ چل رہا ہوتا تو پھر بھی بھارت کا رویہ یہی ہوتا؟ہرگز نہیں‘ بلکہ وہ خود معاملات کو مزید بگاڑنے کی کوشش کرتا۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ بہت ہی طاقتور ملک ہے۔ آپ دیکھئے کہ بھارت میں کس طرح سینکڑوں انتہا پسندوں کا ہجوم چند ایک مسلمانوں کو گھیر کر انہیں جان سے مار دیتا ہے‘ اُن کے گھر جلا دیتا ہے۔ وجہ صرف یہ کہ وہ کمزور ہیں۔ خود‘ اگر ہم اپنے معاشرے کی مثال لے لیں تو صورتِ حال یہاں بھی انتہائی افسوس ناک ہے‘ جس کے ہاتھ میں معمولی سا بھی اختیار لگ جائے تو محسوس ہوتا ہے‘ جیسے وہ دوسروں کے سانس بھی کھینچ لے گا۔
چلیں ممالک کی تشکیل تو جیسے ہوچکی سو ہوچکی ‘لیکن کم از کم معاشروں میں تو قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ امریکی معاشرے میں ایک سیاہ فام پولیس کے ہاتھوں مر گیا تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت میں بھونچال آگیا۔ آج وہاں نسلی امتیاز پر مبنی پالیسیوں کے مکمل خاتمے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ ہم دوسری سب باتیں چھوڑ دیتے ہیں اور صرف مختصر سی اپنی بات کرلیتے ہیں۔ ہم تو ایک مسلم معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں ۔کم از کم ہم تو اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق کمزوروں کو طاقتوروں کے استحصال سے بچا سکتے ہیں یا کم از کم اس کی کوشش کرسکتے ہیں۔ آخر ہم اچھے کاموں کیلئے کب تک دوسروں کی مثالیں دیتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی کمزور کے سر پر اور طاقتور کے پاؤں میں والا رویہ ہمیشہ سے چلتا آیا ہے اور شاید ہمیشہ ہی چلتا رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں