"FBC" (space) message & send to 7575

شکست کھا کر ہر کوئی ہار تو نہیں جاتا

جمہوری جدوجہد سے حاصل کیے گئے ملک میں جمہوریت کا ہی نوحہ پڑھتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح جولائی میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ اسی مہینے میں وہ پیدا ہوئی تھیں یعنی 30جولائی 1893ء کو اور پھر 9جولائی 1967ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ یادداشتیں تو ہماری گو بہت ہی کمزور ہیں لیکن پھر بھی تاریخ پاکستان میں اُن کے کردار کو فراموش کرنے کی جرأت بھلا کون کر سکتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات کہ اُن کی تمام تر قدر و منزلت کے باوجود اُنہیں صدارتی انتخابات میں ہرانے کیلئے گھٹیا حربے استعمال کئے گئے۔ 1965ء میں ہونے والے یہ انتخابات متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری صدارتی انتخابات تھے ۔ ان میں ایک طرف بے پناہ طاقت رکھنے والے صدر ایوب خان اور دوسری طرف مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ اعلیٰ پولیس آفیسر کے عہدے پر فائز رہنے والے راؤ عبدالرشید ان انتخابات کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں: بہاولپور کے مخدوم حسن محمود مغربی پاکستان میں صدر ایوب خان کی انتخابی مہم کے انچارج تھے‘ تمام افسران کو اُن کے تابع کر دیا گیا تھا اور کمشنرز کو بھاری رقوم دی گئی تھیں جنہوں نے انتخابی کیمپ قائم کیے‘ بی ڈی کونسلرز کے کھانے اور ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا اور اُن سے سرکاری افسران کی نگرانی میں ایوب خان کے حق میں ووٹ ڈلوائے گئے۔ انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو صدر ایوب بالواسطہ ہونے والے انتخابات میں 49ہزار 647ووٹ لے کر کامیاب ہو چکے تھے۔ ان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو 28ہزار 343ووٹ ملے تھے۔ یوں سات اور آٹھ اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب کو ملک میں نافذ کیے جانے والے پہلے مارشل لا کا دوسرا باب بھی مکمل ہوگیا۔
پہلے باب کی بنیاد خود ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے رکھی تھی جب اُنہوں نے سیاسی جماعتیں کالعدم اور اسمبلیاں تحلیل کرکے ملکی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا تھا۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل ایوب خان ملک کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے گئے۔ اسکندر مرزا کی طرف سے تحریر کیے جانے والے فیصلے میں رقم تھا ''میں گزشتہ دو سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں بے رحم سیاست کی رسہ کشی جاری ہے‘ ہمارے محنتی اور سادہ لوح عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے اور اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے آلہ کار بنا دیا گیا ہے‘‘۔ یہ سب اُس وقت کیا جا رہا تھا جب تین ماہ بعد ملک میں انتخابات طے تھے۔ دراصل اُنہیں خدشہ یہ محسوس ہو ر ہا تھا کہ انتخابات کے دوران وزیراعظم ملک فیروز خان نون کا انتخابی اتحاد جیت جائے گا۔ ان حالات میں صدر صاحب نے سوچا کہ کیوں نہ جمہوریت کو ہی راکٹ پر بٹھا کر خلا میں بھیج دیا جائے۔ بہت عرصہ پہلے اس حوالے سے تب کے برطانوی ہائی کمشنر سر الیگزینڈر سائمن کی ایک تحریر نظروں سے گزری تھی‘ اُنہوں نے برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اُنہیں اسکندر مرزا نے بتایا تھا کہ اگر نئی تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصر شامل ہوئے تو وہ مداخلت کریں گے۔ برطانوی ہائی کمشنر کے مطابق ناپسندیدہ عناصر سے مراد وہ اراکین اسمبلی تھے جو اسکندر مرزا کو صدرکا ووٹ نہیں دیں گے۔ پھر جب اسکندر مرزا نے محسوس کیا کہ اراکین اسمبلی کے تیور خاصے بگڑے ہوئے ہیں تو اُنہوں نے جمہوریت بچانے کے نام پر پوری کی پوری ٹرین ہی پٹری سے اُتار دی۔ جس جمہوریت اور عوام کو بچانے کے نام پر اسکندر مرزا یہ کھیل رچا رہے تھے اُس کی ایک جھلک قدرت اللہ شہاب کی تحریر میں ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''22ستمبر 1958ء کو مجھے صدرِ پاکستان نے بلایا اور جب میں وہاں پہنچا تو اُن کے ہاتھ میں آئین پاکستان کی جلد تھی‘ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ تم نے اس ٹریش(آئین)کو پڑھا ہے‘ جس آئین کے تحت حلف اُٹھا کر وہ صدرِ پاکستان کی مسند پر براجمان تھے‘ اُسے اُن کی طرف سے ٹریش کہنے پر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس سے پہلے اسکندر مرزا صاحب اپنی صدارت کو بچانے کیلئے بقائے جمہوریت کے نام پر کتنے ہی وزرائے اعظم کی قربانی لے چکے تھے‘ پھر بھی بات نہ بنی تو اُنہوں نے جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ جنرل ایوب خان ملک کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیے گئے اور اُس کے بعد وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ جس جونیئر افسر کو پہلے ترقی دے کر جنرل کا عہدہ تفویض کیا گیا تھا‘ اس نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد صرف بیس روز کے اندر اندر صدرِ پاکستان کو جہاز پر بٹھا کر پہلے کوئٹہ اور پھر برطانیہ روانہ کر دیا جہاں سے وہ کبھی واپس نہ آ سکے۔تاریخ گواہ ہے کہ اسکندر مرزا کو جلد ہی احساس ہوگیا تھا کہ جس شاخ پر وہ بیٹھے تھے‘ اُسے کاٹ کر اُنہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے لیکن وہی بات کہ جب تیر کمان سے نکل جائے تو پھر کیا ہو سکتا ہے۔ 27اکتوبر کی رات کو جنرل برکی اور جنرل خالد شیخ اور جنرل اعظم ایوانِ صدر پہنچے‘ صدر صاحب کو سوتے سے جگایا گیا‘ ٹائپ شدہ استعفے پر دستخط لیے گئے اور اُنہیں بتایا گیا کہ فوراً اپنا کچھ سامان اُٹھا لیں کہ اُنہیں ابھی ایوانِ صدر سے نکلنا ہوگا۔ اُس دن کے بعد سے جب بھی ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی تو ہمیشہ وہی والا سکرپٹ استعمال ہوتا رہا جو 1958ء میں استعمال ہوا تھا۔پھر 1965ء کے انتخابات کا مرحلہ آن پہنچا۔ صدر ایوب بے پناہ طاقت کے حامل تھے اور اُن کی اُمورِ مملکت پر مکمل گرفت تھی۔ 
متحدہ اپوزیشن نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدر ایوب کے مقابلے پر میدان میں اُتارا لیکن نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ جس شخصیت کے استقبال کیلئے ہرجگہ لاکھوں افراد جمع ہو جاتے تھے‘ جس شخصیت کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے اہلِ پاکستان ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے اور جس ہستی کو وہ صدرِ پاکستان کی حیثیت سے دیکھنے کے شدید خواہشمند تھے‘ وہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگئی۔ طاقت نے اپنا جادو دکھایا تھا ۔ اِس کے بعد آپ آج تک دیکھ لیجئے کہ جمہوریت‘ جمہوریت کی گردان تو بہت ہوتی ہے لیکن یہ گمان شاید ہی کسی کو ہو کہ کبھی ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آ سکی۔ ہاں لیکن اتنا ضرور ہے کہ شہری سب کچھ خوب سمجھتے ہیں۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں جو کچھ ہوا‘ ایسا نہیں ہے کہ عوام کو اس بابت کچھ پتا نہیں چل سکا کہ کیسی کیسی چالاکیوں سے کام لے کر محترمہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کیا گیا۔ یقینا یہی وجہ رہی تھی کہ فتح کے باوجود عوام کی نظروں میں صدر ایوب کا وقار بری طرح مجروح ہوا جس کے نتیجے میں وہ بتدریج کمزور ہوتے چلے گئے۔ بعد میں اُن کے خلاف شروع ہونے والی تحریک نے شدت اختیار کرلی تو وہ 25مارچ 1969ء کو اقتدار ایک اور جرنیل کے سپرد کرکے مسندِ صدارت سے الگ ہوگئے۔ 
تاریخ کی یہ کہانی ہمارے ملک میں اس کے بعد بھی کئی مواقع پر دُہرائی گئی۔ پہلے اسکندر مرزا‘ پھر ایوب خان نے اپنی کرسی بچانے کے لیے جو حربے استعمال کیے‘ اُس کے بعد بھی ایسے حربے ایک سے زائد مواقع پر استعمال ہوئے۔ اُن دونوں نے پوری قوم کو ایسے راستے پر ڈال دیا کہ اُس کے بعد پھر ہم آج تک اپنے لیے صحیح راستہ نہیں چن سکے۔کرسی بچانے کے لیے قوم کی ماں کہلانے والی شخصیت کو بھی نہیں بخشا گیا لیکن دیکھ لیجئے کہ اُن کی قدر و منزلت آج بھی وہی ہے جو اُن کی زندگی میں تھی۔ دوسری طرف اسکندر مرزا کو ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دینے والی شخصیت اور ایوب خان کو ہمیشہ ملک کے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ جان رکھیے کہ تاریخ کے فیصلے بہت ظالم ہوتے ہیں۔ نہیں یقین آتا تو خود دیکھ لیجئے کہ امریکہ میں نسلی امتیاز کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کے دوران کولمبس اور گاندھی سمیت ایسے لوگوں کے مجسمے گرائے جا رہے ہیں جو نسلی امتیاز برتتے تھے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ صدیوں بعد اگر خود اُنہیں نہیں تو کم از کم اُن کے مجسموں کو ہی اُن کے کیے کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ آج ہمارے ہاں بھی غلط کرنے والوں کے خلاف کھل کر بات ہوتی ہے لیکن یہ یقین سبھی کو ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح حقیقتاً مادرِ ملت تھیں ۔ ایک آمر نے تو اُنہیں ہرا دیا تھا لیکن وہ ہار کر بھی کامیاب رہیں اور ہمیشہ کامیاب رہیں گی کہ پاکستانیوں کے دلوں میں اُن کی قدر و منزلت ہمیشہ موجود رہے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں