"FBC" (space) message & send to 7575

تاریخ کے سوالات

ترک عدالت کے فیصلے کے بعد 15سو سے زائد سالوں سے استنبول میں ایستادہ آیا صوفیہ‘ میوزیم سے صورتِ مسجد دوبارہ عبادت کی جگہ بن گئی۔ گزرنے والے پندرہ سو سالوں کے دوران اِس شاندارعمارت نے نجانے کتنے تند و تیز تھپیڑے سہے، کون کون سے ستم برداشت کیے لیکن یہ اپنی جگہ قائم رہی۔ کئی صدیوں سے ایک دنیا اِس کے سحر میں مبتلا نظر آتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم پڑتا ہے کہ آیا صوفیہ کو پہلے پہل 360عیسو ی میں کھولا گیا تھا۔تب یہ محض لکڑی کا بنا ہوا ایک عام سا کلیسا تھا۔ 404عیسو ی میں شہر میں کسی بات پر فسادات بھڑک اُٹھے جس کے شعلوں میں جل کر اِس عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ عمارت کی دوبارہ مرمت کیے جانے کے بعد 532عیسوی میں اِسے پھر جلا دیا گیا اور تب اِس کی باقیات سے وہ شاندار گرجا گھر تعمیر کیا گیا جو آئندہ کئی صدیوں تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 532ء میں اسے تعمیر کیا گیا تو یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور پہلی مکمل محراب دار چھت رکھنے والی جائے عبادت تھی۔نئے سرے سے اِس عمارت کو تعمیر کرنے کا سہرا رومی شہنشاہ جسٹینین کے سر بندھا۔ 
کہا جاتا ہے کہ رومی شہنشاہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اُس کا تعمیر کردہ گرجا گھر پوری دنیا میں شان و شوکت کا پرتو ہو۔ اِس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اُس نے وہ سب کچھ کیا جو انسانی بس میں ہو سکتا ہے۔ بہترین ماہرینِ تعمیرات کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے غالباً اِسے صرف چھ سے سات سالوں کے دوران مکمل کیا تھا۔ تقریباً دس ہزار معماروں نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا اور اپنی تکمیل کے بعد تو جیسے یہ عمارت پوری مسیحی دنیا کے لیے فخر کی علامت بن گئی تھی۔
بہت عرصہ پہلے کہیں اِس عمارت کے بارے میں ایک کتاب نظروں سے گزری تھی۔ اب مصنف اور کتاب کا نام تو ذہن میں نہیں رہا لیکن پڑھا ہوا تھوڑا بہت یاد رہ گیا ہے کہ جب طلوع آفتاب کے وقت سورج کی روشنی اِس کے اندر داخل ہوتی تھی تو ہر چیز چمکنے لگتی تھی اور ایک عجیب سا ماحول پیدا ہو جا تا تھا۔ بالکل اِسی طرح رات کے وقت جب اِس میں مشعلیں جلائی جاتی تھیں تو جیسے پوری عمارت پر ہر طرف سے روشنیاں ہی روشنیاں چھا جاتی تھیں۔ اِس دوران اِس شہر کے ساتھ ساتھ آیا صوفیہ کو بھی مختلف حملوں کا سامنا رہا لیکن یہ بہرحال کسی نہ کسی طرح اپنا وجود بلکہ اپنی چمک دمک برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ 
پھر قانونِ قدرت کے مطابق یوں ہوا کہ وقت کے تھپیڑوں کو برداشت کرتی رومی سلطنت بھی بتدریج سکڑتی رہی اور وہ وقت آگیا جب یہ صرف قسطنطنیہ کے جزیرے تک ہی محدود ہوکر رہ گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ترک سلطان محمد فاتح نے اِس جزیرے کو فتح کرنے کا قصد کیا۔ بالآخر 53 روزہ محاصرے کے بعد وہ 29 مئی 1453ء کو شہرِ پناہ کی فصیلیں گرانے میں کامیاب ہوگئے۔ قسطنطنیہ کا نام تبدیل کرکے استنبول رکھ دیا گیا۔ سلطان کی پہلی نظر آیا صوفیہ پر پڑی۔ پہلے پہل قسطنطنیہ میں موجود دیگر مسیحی نشانیوں کی طرح اسے بھی ڈھانپ دیا گیا۔ بعد ازاں اِسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایک ہزار سال تک گرجا گھر رہنے والے والی اِس عمارت میں آئندہ پانچ سو سالوں تک اذان کی صدا ئیں بلند ہوتی رہیں۔ بعد ازاں عظیم الشان ترک سلطنت کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو رومی سلطنت کے ساتھ ہوا تھا۔ وقت کے وار سہتے سہتے عثمانی سلطنت اپنی شان و شوکت کھوتی چلی گئی۔ دنیا کے متعدد براعظموں تک پھیلی عثمانی سلطنت کے حصے بخرے ہو رہے تھے۔ مشرق وسطیٰ میں لارنس آف عربیہ اپنا کام دکھا رہا تھا تو دوسری طرف یورپ کی حکومتیں بھی اِس پر مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے تھیں۔ یوں جان لیجئے کہ اس صورتحال کے باعث عثمانی سلطنت انتہائی کمزور ہو چکی تھی جسے بالآخر اپنوں کے ہی ایک دھکے نے گرا دیا۔
کمال اتا ترک نے عثمانی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا تو ترکی کو سیکولرملک کی حیثیت دے دی گئی۔ اِس کے ساتھ ہی آیا صوفیہ کی مسجد کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔ گویا اب کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا اس عمارت میں داخل ہوکر اِس شاہکار کو اپنی آنکھوں میں سمو سکتا تھا۔ اتاترک کی حکومت عمارت میں موجود مسیحی دور کے چھپائے گئے آثار بھی سامنے لے آئی تاکہ سیکولر ازم کی تکمیل ہو سکے۔ ترک حکومت کے اِس اقدام کو کچھ ترکوں نے ناپسندیدگی تو کچھ نے تحسین کی نظر سے دیکھا لیکن ظاہر ہے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں کے مصداق حکومتی فیصلے کو تسلیم کرنا سب کی مجبوری تھی۔ 
اب جو ترک عدالت نے 1934ء کے ایک حکم کو منسوخ کرتے ہوئے آیا صوفیہ کو دوبارہ سے مسجد بنانے کا حکم دے دیا ہے تو اِس پر اسلامی دنیا میں کافی مسرت کا اظہار سامنے آیا ہے۔ اِس تمام پس منظر میں کچھ سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں۔ انگلیاں اُٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ آخر ترک حکومت کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت اُسی وقت کیوں پیش آئی جب وہ استنبول میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کھا چکی ہے۔ ممکن ہے اِس اقدام کا مقصد دوبارہ سے استنبول کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے مدد حاصل کرنا ہو۔
یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ موجودہ ترک صدر طیب اردوان خود بھی طویل عرصے تک استنبول کے میئر رہے ہیں تو اُنہیں تب یہ خیال کیوں نہیں آیا؟ ہمارے تاریخ دان دوست علی مہدی کا خیال ہے کہ گزشتہ کافی عرصے سے ترک صدر کے بارے میں یہ تاثر مضبوط کیا جا رہا ہے کہ وہی مسلم اُمہ کی سربراہی کے اہل ہیں۔ اب ظاہر ہے ان کے اِس اقدام کو اسلام پسند ترکوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ آیا صوفیہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیے جانے سے اُن کی بلے بلے ہوئی ہے تو واضح ہے کہ اِس سے اُنہیں سیاسی رنز ملیں گے۔ دوسری طرف ترکی کی عدالت کے اِس فیصلے پر دنیا کے مختلف ممالک کی طرف سے بھی شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ یونیسکو کی طرف سے بھی آیا صوفیہ کی حیثیت تبدیل کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب کوئی مقام عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے تو تب اِس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ 
یہ شاید ایک تاریخی عمارت کا ہی المیہ ہی نہیں ہے کہ ایسی کہانیاں بے شمار ممالک میں سننے کو ملتی ہیں لیکن آیا صوفیہ کی بات قدرے الگ ہے۔ جس عمارت کو صرف 365دنوں کے دوران 40 لاکھ سیاح دیکھنے کے لیے آتے ہوں تو پھر اُس کی شان و شوکت کے بارے میں مزید کیا بیان کرنا۔ ہو سکتا ہے کہ ترک حکومت کے اِس اقدام سے ترک صدر کو ترکوں کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے میں کوئی مدد مل ہی جائے جس کا تاثر مضبوط کیا جا رہا ہے۔ 
شاید ارطغرل کا جادو بھی اِسی تناظر میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وہ ارطغرل جس بیچارے کا نام ہی ترک تاریخ میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب جب وہ ہرطرف گھوڑے دوڑاتا ہوا دشمنوں کو تاراج کرتا پھر رہا ہے تو یقینا اِس سے بھی عظمتِ رفتہ کی بحالی میں مدد ملے گی، یا کم از کم یہ تاثر تو مضبوط ہوہی رہا ہے کہ اگر ترکی کی عظمت رفتہ چاہتے ہو تو پھر طیب اردوان کو ہی ترکی کا رہنما چننا ہوگا۔ بلدیاتی انتخابات میں جو استنبول چھینا گیا ہے، اُسے بھی ترک حکمران جماعت کو واپس دینا ہوگا۔
بہرحال یہ سارے ابھرتے ہوئے خیالات تاریخ کے وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں شاید ابھی حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہ ہو لیکن ان کا جواب جلد یا بدیر مل ہی جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں