"FBC" (space) message & send to 7575

شام سویرے موجاں ای موجاں

پرتیں تو جتنی بھی پلٹتے جائیں‘ ایک سے ایک الف لیلوی داستان نظروں کے سامنے آن موجود ہوتی ہے۔ یوں بھی دیگ کا ذائقہ چکھنے کے لیے پوری دیگ تو نہیں کھائی جاتی بس چند دانے ہی کافی ہوتے ہیں۔
1993ء میں ملک کو ایک مرتبہ پھر آئینی بحران درپیش تھا۔ بااختیار صدرِ مملکت محترم اسحاق خان کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی طرف سے کالعدم قرار دیا جا چکا تھا ۔ فیصلے کے باوجود دونوں ہی مقتدر شخصیات ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھیں۔ اِس کا نتیجہ ایک مرتبہ پھر آئینی اور قومی بحران کی صورت میں سامنے آیا۔ اِن حالات میں تب کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے جو فارمولا پیش کیا تھا اُس کے تحت طے پایا کہ صدرِ مملکت اور وزیراعظم‘ دونوں ہی اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔ اِن کی جگہ نگران صدر کے عہدے کے لیے وسیم سجاد اور نگران وزیراعظم کے لیے امپورٹڈ شخصیت‘ معین قریشی کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ باہمی لڑائی میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم‘ دونوں نے اپنے اپنے عہدوں سے دست برداری قبول کر لی تھی لیکن آپس میں معاملات طے کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ اِسی تناظر میں 18جولائی 1993ء کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں تب کے صد غلام اسحاق خان‘ وزیراعظم نواز شریف اور چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد سمیت چند اہم شخصیات صوفوں پر براجمان تھیں۔ کمرے میں کافی افراد موجود تھے لیکن محسوس یہ ہو رہا تھا کہ سب کے سب جلد سے جلد اِس نشست کے برخاست ہونے کے انتظار میں ہیں۔ سبھی کو سنگاپور سے بلوائے جانے والے معین قریشی (مرحوم) کا انتظار تھا کہ وہ جلد سے جلد آ جائیں اور سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔تھوڑی دیر بعد وہ بھی محفل میں شریک ہو چکے تھے۔ تمام فریقوں سے ایک دستاویز پر دستخط کرائے گئے جس کے ساتھ ہی صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف 'سابق‘ ہو گئے اور معین قریشی نگران وزیراعظم مقرر ہوگئے۔
2004ء میں بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے۔ باہمی کشاکش کے باعث وزیراعظم ظفر اللہ جمالی نے اپنے عہدے سے الگ ہوتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کے لیے چودھری شجاعت حسین کا نام تجویز کیا لیکن ساتھ ہی تصدیق کی کہ نئے متوقع وزرائے اعظم کی فہرست میں شوکت عزیز کا نام بھی شامل ہے۔شوکت عزیز کو جنرل پرویز مشرف نے اُس وقت ملک کی وزارتِ خزانہ سنبھالنے کی پیشکش کی جب وہ 1999ء ایک بین الاقوامی بینک میں اہم عہدے پر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعد میں وہ 28اگست 2004ء کو ملک کے وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ وزیراعظم منتخب کرانے کے لیے پہلے اُنہیں تھرپارکر سے رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا گیا۔ تب یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اُن کے پاس مبینہ طور پر امریکی پاسپورٹ ہے اور دہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص ملک کا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ یہ باتیں سامنے آنے پر تب کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے اُن کے خلاف کیس شروع کرنے کی تیاری کی لیکن اُنہیں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے غیر فعال کردیا گیا۔ شوکت عزیز نومبر 2007ء تک پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کے مزے لوٹتے رہے۔ اُن کے بارے میں یہ عمومی تاثر ہمیشہ موجود رہا کہ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران اُن کا رابطہ پاکستان اور پاکستانیوں سے کم ہی رہا اور رہتا بھی کیوں؟ پاکستان سے زیادہ اُن کی جڑیں امریکہ میں تھیں۔ یہ تو پاکستان کے ڈھیلے ڈھالے سے نظام کے باعث قسمت معین قریشی صاحب کی طرح اُن پر بھی مہربان ہوگئی تھی اور وہ چاہے کٹھ پتلی کی حیثیت سے ہی سہی، اعلیٰ ترین عہدے کے مزے لوٹتے رہے۔ وزارتِ عظمیٰ ہاتھ سے گئی تو اُنہوں نے بھی امریکہ کا رخ کیا اور اُس کے بعد لوٹ کر کبھی پاکستان نہیں آئے۔ مزے کی بات تو یہ بھی رہی کہ اُن کے بیرونِ ملک جانے کے انتظامات حکومت پاکستان نے کیے۔ بعد میں اُن کے خلاف بے شمار الزامات بھی سامنے آئے اور بدعنوانی پر ریفرنس دائر کرنے کی منظوری بھی دی گئی لیکن جب تیر کمان سے نکل چکا تھا تو ایسی باتوں اور کارروائیوں کو فیس سیونگ کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
ہماری ملکی سیاسی تاریخ کی رنگا رنگی میں یہ دو واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ترین قرار پائے جب ملک کی وزارتِ عظمیٰ کے لیے کوئی موزوں پاکستانی ہی نہ مل سکا۔ یہ دونوں واقعات سیاسی اعتبار سے دلچسپ ہیں تو اِس میں کئی ایک اسباق بھی پنہاں ہیں۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے کہاں تک جایا جا سکتا ہے۔ سوچا جا سکتا ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کتنا کھوکھلا ہے کہ جسے چاہیں‘ بلائیں، وزارتِ عظمیٰ اُس کے حوالے کریں اور اُس کے بعد اُسے عزت سے رخصت کر دیں۔ اِن دونوں شخصیات کے ادوار میں جو کچھ بھی ہوا‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ اِن کے لیے قانونی اور آئینی جواز تو تراشے گئے لیکن کیا اِنہیں قبول کیا جا سکتا ہے؟
شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ایسی مثالیں ملتی ہوں جو ہمارے ہاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اِس کی کچھ جھلکیاں اِس وقت بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ افسوس کہ پاکستانیت کے نام پر اقتدار میں آنے والوں نے اپنی آدھی حکومت غیر منتخب نمائندوں کے سپرد کر رکھی ہے۔ اِن میں سے بیشتر کے تمام تر مفادات بیرونی ممالک میں ہیں لیکن ذرا اِن کی باتیں سنیں۔ اپوزیشن کے لتے لینے اور دن رات حکومتی پالیسیوں کے دفاع میں مصروف دکھائی دینے والے شہباز گل صاحب گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔ گفتگو کرتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستانیوں کا اِن سے بڑا دردی کوئی دوسرا نہیں۔ سابق وزیرخزانہ شوکت عزیز کی طرح وزارتِ خزانہ کے موجودہ کرتا دھرتا حفیظ شیخ صاحب بھی اپنی مستقل رہائش اور اثاثے امریکہ میں رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والے زلفی بخاری کو وزیراعظم عمران خان کا انتہائی اعتماد حاصل ہے اور اِسی کے برتے پر موصوف بیرونِ ملک پاکستانیوں کی وزارت کے ساتھ ساتھ دوچار اہم محکموں کے بھی کرتا دھرتا ہیں۔ پٹرولیم کے معاونِ خصوصی ندیم بابر بھی امریکی شہریت رکھتے ہیں۔ اِن کے ساتھ ساتھ ملک کو آئی ٹی میں ترقی کی انتہائی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے محترمہ تانیہ ایدروس کی خدمات حاصل کی گئیں‘ جن کی مستقل رہائش خیر سے سنگاپور میں ہے۔ یہ موجودہ دیگ کے چند ایک دانے ہیں جن کا ذائقہ چکھ کر پوری دیگ کے ذائقے کی بابت اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے۔
ہمارے یہ دوست دن رات ملک و قوم کے غم میں گھلتے رہتے ہیں لیکن خود مستقل طور پر پاکستان آنے کے لیے تیار ہیں نہ اپنی دولت لانے کے لیے۔ اِس تناظر میں کیا کوئی دوسری رائے ہو سکتی ہے کہ جیسے ہی حکومت ختم ہوگی تو یہ سب کے سب بھی اپنے اصلی آشیانوںکی طرف پرواز کر جائیں گے؟ یقینا وہی ہوگا جو اب تک ہوتا آیا ہے۔ کیا کیا جائے کہ وہ چیزیں جو ماضی قریب تک ممنوع تھیں‘ اب وہ سب کی سب جائز ہو چکی ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی شہریت رکھنے والے اہم ترین میٹنگز میں شریک ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ دوسرے ممالک کے ساتھ طے پانے والے اہم ترین معاملات کی خبر بھی رکھتے ہیں لیکن جانے والے غیر محب وطن تھے اور یہ چونکہ محب وطن ہیں لہٰذا اِن سے ملک و قوم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو ہمیشہ اِس ملک میں رہے اور مرنے کے بعد بھی یہیں دفن ہوئے، اختلافِ رائے پر وہ غدار قرار پاتے رہے لیکن باہر سے آنے لیکن ہاں میں ہاں ملانے والے محب وطن کہلاتے ہیں۔ جب تک یہ ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے اِسی طرح کلیدی عہدوں کے مزے لوٹتے رہیں گے اور جہاں کہیں چون و چرا کریں گے تو پھر روایتی فارمولے تو تیار ہی رہتے ہیں۔ ویسے اُمید واثق ہے کہ معاملات احسن انداز میں ہی چلتے رہیں گے۔ یوں بھی جب ملک کی وزارتِ عظمیٰ تک کے عہدے دوسرے ممالک سے آنے والوں کے لیے باندی بنے رہے تو اِن عہدوں کی کیا بساط۔ سو 'شام سویرے موجاں ای موجاں‘ چل رہی ہیں جب تک چلتی رہیں گی‘ ٹھیک! جب ختم ہو جائیں گی تو پہلے والوں کی طرح یہ بھی اپنے اصلی آشیانوں کی طرف پرواز کر جائیں گے کہ راستے تو کھلے ہی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں