"FBC" (space) message & send to 7575

نظر تو اپنوں کی ہی لگی ہے

بارشوں کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کو گردن گردن پانی میں ڈوبا دیکھ کر بہت کچھ یاد آ گیا۔ کئی روز تک تو وہاں عملی طور پر زندگی مفلوج رہی۔ ملک کے معاشی حب کی حالت زار کے حوالے سے وائرل ہونے والی وڈیوز دیکھ کر دل دکھی سا ہو گیا۔ کبھی روشنیوں کا شہر کہلانے والے اِس بدنصیب شہر کوکسی کی کیا‘ اپنوں کی ہی نظر لگے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ سنتے ہیں کہ 1948ء سے 1970ء تک یہ شہر کسی بھی یورپی شہر کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کر سکتا تھا۔ اِسی دوران کراچی میں تعینات رہنے والے ایک امریکی ڈپلومیٹ ڈیوڈ کانسٹاننٹ کے بقول ''کراچی سے میری حسین ترین یادیں جڑی ہیں کہ اِس کی روشنیاں رات کو بھی دن میں تبدیل کر دیتی تھیں، میں نے زندگی کا پہلا ٹیپ ریکارڈر اور پہلی ہیوی بائیک اِسی شہر سے خریدی تھی۔ اِس پر میں شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہتا تھا اور مجال ہے جو ڈر اور خوف کبھی میرے نزدیک بھی پھٹکا ہو‘‘۔ کسی زمانے میں نظروں سے گزرنے والے امریکی سفارتکار کی لکھی ڈائری میں کراچی کے بارے میں اور بھی بہت کچھ پڑھنے کو ملا۔ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہاز آیا کرتے تھے جن کے ذریعے ہزاروں سیاح پاکستان پہنچتے اور پھر یہاں سے اپنی اگلی منازل کو روانہ ہو جاتے تھے، شہر کی فضا بہت اچھی تھی اوربہت سے سفارتکار اکثر اِس بابت بھی سوچا کرتے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی اِسی شہر میں گزاریں گے۔ اِس کے لیے کچھ پراپرٹی وغیرہ خریدنے کے منصوبے بھی بنایا کرتے تھے۔ یہ کافی لمبی چوڑی تحریر تھی جس کے آخر میں ڈیوڈ نے لکھا ''پھر یہ ہوا کہ 15سال اِس شہر میں گزارنے کے بعد میں نیویارک واپس آ گیا اور پھر میں نے دور بیٹھ کر کراچی کو روشنیوں کے شہر سے قتل و غارت گری کے مسائل میں اُلجھتے ہوئے دیکھا۔ مجھے یقین نہیں ہوتا کہ میں نے اپنی زندگی کا اتنا طویل اور خوب صورت عرصہ اِس شہر میں گزارا تھا‘‘۔ بلاشبہ کراچی کے بارے میں اس سفارتکار نے جو کچھ بھی لکھا اِس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ یہی اِس شہر کی مختصر سی کہانی ہے۔
ایک شاندار ماضی رکھنے والے اِس شہر نے حسین ترین دور گزارنے کے بعد کیا کچھ نہیں دیکھا؟ ایک لسانی تنظیم کی قتل وغارت گری اور لیاری گینگز وار کی خوفناک داستان۔ اِس دوران تشدد اور قتل و غارت گری کی ایسی ایسی وڈیوز سامنے آتی رہیں کہ جنہیں دیکھ کر دل دہلتا تھا۔ اِن تنظیموں کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جس کے عوض یہ کھل کھیلتی رہیں‘ اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگاتی رہیں‘ بھتہ نہ ملنے پر سینکڑوں بے گناہوں کو زندہ جلاتی رہیں۔ زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے۔ اُن کی آنکھوں میں ایلفی ڈال کر اُن کے تڑپنے کا مزہ لیا جاتا۔ جسموں کو آری سے کاٹ دینے یا ہاتھوں میں کیل ٹھونک کر لٹکا دینے جیسے واقعات تو عام تھے۔ حوصلے اتنے بڑھ گئے تھے کہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے آپریشنزکے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ حالات تو کیا بہتر ہوتے اُلٹا اِن آپریشنز میں حصہ لینے والے سینکڑوں اہلکاروں کوہی موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ سرکاری اداروں پر بھی اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ یوں اِس صورت حال نے کراچی کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ اِن کے حوالے سے حکومتی سطح پر ہمیشہ روایتی سے بیانات سامنے آتے تھے کہ یہ سب دشمن کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے۔ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا کر شہر کی رونقوں کو بحال کیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔اِسی شہر نے 12مئی 2007ء کو متعدد بے گناہوں کو خاک اور خون میں لپٹے ہوئے بھی دیکھا جس پر تب کا حکمران اسلام آباد کے ایک جلسے میں بازو فضا میں لہرا کر کہہ رہا تھا کہ یہ عوامی طاقت کا مظاہرہ ہے۔
عوامی طاقت کے ایسے ہی مظاہروں کے باعث آج کراچی اس حال کو پہنچا ہے۔ عوامی طاقت کے مظاہرے کرانے والے رہے‘ نہ کرنے والے۔ سب کچھ ہی تبدیل ہوکر رہ گیا ہے کہ جنہوں نے بھی اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے اِس شہر کو تباہ کیا، اُن میں سے بیشتر پردہ سکرین سے ہٹ چکے ہیں۔ کچھ تو اِس دارفانی سے کوچ کر چکے اور اب ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کچھ زندہ ہیں جو شاید کبھی یہ سوچتے ہی ہوں کہ جس اقتدار اور طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے اُنہوں نے بے شمار جانوں سے کھلواڑ کیا وہ تو باقی نہیں رہا تو معلوم نہیں اب اُن کے ساتھ آگے کیا سلوک ہو۔ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ اتنا کھلم کھلا ہو رہا تھا تو یقینا ایسا کرنے والے کسی بھی قسم کی کارروائی کے خوف سے آزاد ہی ہوں گے۔ اگر اُنہیں کسی طرح کی سزا کا خوف ہوتا تو وہ یہ سب کچھ کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے۔یہاں تو یہ عالم رہا کہ ایک شخص اعتراف کرتا ہے کہ وہ 198جیتے جاگتے انسانوںکو موت کے گھاٹ اُتار چکا ہے۔ ذرا اندازہ تو لگائیے کہ صرف ایک شخص نے اتنی زندگیوں کے چراغ گل کر دیے لیکن پکڑا وہ تب گیا جب اُس کا پکڑے جانا کچھ لوگوں کیلئے ضروری ہوگیا تھا۔ شاید طاقت کانشہ ہی ایسا ہوتا ہے جو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ طاقت ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے لیکن ایسا کب ممکن ہوا ہے؟ بس ذرا سمجھنے کی بات ہے۔ افسوس کہ ہم کہتے تو یہی ہیں کہ ہماری نظروں میں دنیا کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر کا مطمح نظر صرف اور صرف دنیا ہی ہے۔ ہم کروڑوں کی گاڑی کے مالک ہوں گے لیکن یہی کہتے پھریں گے کہ خدا کی نظر میں اِس دنیا کی اہمیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاتا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے لیکن پھر بھی بیشتر صورتوں میں ہم میں سے زیادہ تر اپنی زندگی کا غالب حصہ دنیاوی آسائشوں کے حصول میں ہی گزار دیتے ہیں۔ وہ تو جب اِس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اب دست اجل ہمیں اُچکنے کو ہے تو پھر ہمیں یاد آتا ہے کہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ بس اِسی چکر میں ہم دنیا کے رہے نہ دین کے۔
بس باتیں‘ باتیں اور صرف باتیں ہیں جو ہم بناتے چلے جا رہے ہیں، دعوے‘ دعوے اور بس دعوے ہیں جو ہم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی باتیں اور دعوے ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کے حوالے سے بھی ہو رہے ہیں۔ ماضی سے قطع نظر اِس وقت عملاً کیا صورتحال ہے‘ حالیہ بارشوں نے اُس کی بابت سب کچھ کھول کھول کر بتا دیا ہے۔ پورے شہرکو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کر دینے والے‘ شہر سے نکاسی آب کے لیے بنے ہوئے نالوں پر بھی تجاوزات قائم کرنے والے اور شہری اداروں میں دباؤ پر بھرتیاں کرا کے اِنہیں برباد کرنے والے آج خود ہی بگڑے ہوئے حالات کا رونا رو رہے ہیں۔ خرابیٔ حالات کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ماضی کے شہرِ بے مثال کو ایسے ناسور میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے ہمیشہ کبھی خون تو کبھی پانی رستا رہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر ملک بھر کے حالات کوئی اتنے قابلِ رشک نہیں ہیں لیکن کراچی کا بگاڑ پورے ملک پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ اناؤں کی جنگ میں کوئی نہیں دیکھتا کہ اِس کی قیمت عام آدمی کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے‘ خواہ کیسے ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے سو وہ ادا کیے چلا جا رہا ہے۔ اب یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے یہ قیمت کب تک ادا کرنا ہو گی۔ کراچی کے شہری تو کچھ زیادہ ہی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اُنہیں اب یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ شہر کے گزرے ہوئے حسین دن اب کبھی واپس نہیں آنے والے۔ اب وہ جتنی جلدی خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیں، یقینا اُن کے لیے بہتر ہے۔ بارشوں کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کو گردن گردن پانی میں ڈوبا دیکھ کر بہت کچھ یاد آگیا کہ کبھی روشنیوں کا شہر کہلانے والے اِس بدنصیب شہر کوکسی کی کیا‘ اپنوں کی ہی نظر لگے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں