"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی اُمید بر نہیں آتی

اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر غلطی کہاں ہے جو مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں؟ ہرشخص کے لبوں پر شکوے اور شکایات ہی رہتی ہیں‘ کوئی بھی نظام سے خوش نظر نہیں آتا ۔ بادشاہ سے لے کر گدا تک ہرکوئی نظام سے نالاں ہی رہتا ہے۔ متعدد مواقع پر اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افسران کے منہ سے بھی ایسی ہی شکایات سننے کو ملتی ہیں۔وہ افسران جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جن کے بارے میں تصور پایا جاتا ہے کہ یہی ملک کے سیاہ وسفید کے مالک ہیں۔سیاسی حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کا اقتدار ہمیشہ برقرار رہتا ہے‘مگر کئی ایک صورتوں میں یہ بھی نظام کو کو ستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں میں بھی ہرروز مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے ‘ اُن کے حل کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں‘لیکن پھر بھی ع
کوئی اُمید بر نہیں آتی
اسی لیے مستقبل کے اندیشے الگ سے ستاتے رہتے ہیں کہ آگے چل کر بھی حالات میں بہتری کے امکانات بس مخدوش سے ہی ہیں حالانکہ حیرت انگیز طو ر پرہرحوالے سے قوانین موجود ہیں۔ آئینِ پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی ہرشہری کو اُس کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ آئین کا آر ٹیکل 10کسی ملزم کوبھی ضروری تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 11غلامی اور بیگار کو کسی بھی صورت میں ممنوع قرار دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 14کے تحت گھر کی خلوت کو قابلِ حرمت قرار دیا گیا ہے۔ یہی شق کسی بھی ادارے کے اہلکاروں کو بغیر قانونی تقاضے پورئے کیے کسی کے گھر میں گھسنے سے روکتی ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین کے آرٹیکل 25کے تحت ملک کے تمام شہری بلالحاظِ رنگ ونسل‘ مذہب و جنس قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ آئین کے علاوہ ہمارامذہب بھی انسان کے بنیادی حقوق کا علمبردار ہے۔
مگراس سب کے باوجود مار دھاڑ اور ظلم و ستم کا یہ چلن کہ پورا معاشرہ ہی انتشار کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کا آئین اور قوانین پاکستان شہریوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں؟ دعوے جتنے مرضی کیے جاتے رہیں لیکن آخر کو یہ سب کچھ ظاہر تو کرتا ہے کہ ہم بہت کچھ غلط کررہے ہیں یا شاید ہم نے بہت پہلے سے ہی غلطیاں کرنے کا آغاز کردیا تھاجس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں۔ ملک سدھارنے کے لیے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے اقتدار میں آنے والوں نے ان غلطیوں کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ کردیا ۔ ایک صاحب آئے تو اُنہوں نے ملک کے دولخت ہونے کی بنیاد رکھ دی۔ دوسرے صاحب آئے تو اس عمل کو مکمل کرکے ہی گئے۔ تیسرے نے معاشرے کو کسی اور قالب میں ڈھالنے کے نام پر سب کچھ اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ تو ماضی کا حصہ بن چکا تو اب ہم آگے کی طرف کیوں نہیں دیکھ رہے؟ لیکن کیا کیا جائے کہ ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں‘ سو ابھی تک تو یہی کچھ ہورہا ہے۔ صورت حال کی خرابی میں سیاسی حکومتیں بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالتی رہیں اور اب دیکھا جائے تو موجود حکومت اس حوالے سے ماضی کی بیشتر حکومتوں پر سبقت لے گئی ہے۔قبل از اقتدار عوام کو دکھائے جانے والے خوابوں میں سے کسی ایک کی تعبیر بھی حاصل ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ گویا رہے سہے اعتماد کو بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ بس خوف اس بات کا ہے کہ کہیں یہ سب کچھ ایسے ہی نہ چلتا رہے۔ وجہ اس کی بہت سیدھی اور صاف ہے کہ بیشتر صورتوں میں ہم صرف گفتار کے ہی غازی ہیں۔ اعلیٰ ترین سطح پر رواج پا جانے والے اس چلن نے ہماری سمت ہی اُلٹا کررکھ دی ہے اور اب ٹریکل ڈاؤن افیکٹ کے عین مطابق یہی سب کچھ نچلی سطح تک منتقل ہوچکا ہے۔ جو آپادھاپی اوپر کی سطح پر نظر آتی ہے وہی نچلی سطح تک بھی آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے۔ بس یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی طرح کچھ نہ کچھ ہاتھ لگ جائے۔
آپ دیکھ لیجئے کہ ان دنوں ملک بھر میں بارشوں کا سیزن اپنے عروج پرہے۔ وطنِ عزیز کے بیشتر علاقے بارشوں کی زد میں ہیں جن کے باعث ہرسال کی طرح کئی ایک علاقوں میں پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت سے نقصانات ہورہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ قرار دی جاتی ہے کہ دریاؤں کے قدرتی راستوں پر ہاؤسنگ سکیمیں اور دیگر تجاوزات قائم کرکے ان کو بند کردیا گیا ہے۔اس کے لیے حکومتیں بجاطور پر قصور وار ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ہمارا قصور بھی تو ہے۔ اربن فلڈنگ الگ سے ستم ڈھا رہی ہے۔ پچھلے دنوں لاہور میں موسلادھار بارش نے ہرطرف جل تھل ایک کردیا تھا اور شہر کے بیشتر علاقے گھنٹوں پانی کی زد میں رہے۔یقینا اس میں حکومتی اداروں کی کوتاہی بھی ہوگی لیکن کیا ہم خود کو اس صورت حال کے پیدا ہونے سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ شہری مسائل پر طویل عرصے تک رپورٹنگ کے دوران کئی ایک مواقع پر خود ایسی صورت حال کا مشاہدہ کیا جب گٹروں سے گھروں کا ٹوٹا پھوٹا سازوسامان نکلنے ہوئے دیکھا۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ گلیوں میں پھینک دینے کو تو شاید ہم اپنے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں۔پھر ایسی صورت حال پر بالکل ویسے ہی شور مچایا جاتا ہے جیسے مسائل پر حکومت اپوزیشن کو اور اپوزیشن حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ کیا ہم بھی بہت کچھ غلط کرکے اس پر شورمچانے کے عادی نہیں ہوچکے؟ اور تو اور ہم جعلی ادویات کی تیار ی میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے ۔کئی ایک فارمیسیز پر لکھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے کہ یہاں 100فیصد اصلی ادویات دستیاب ہیں۔تصور کیا جاسکتا ہے کہ کسی ملک میں فارمیسیز پر ایسی تحریریں لکھی ہوئی ملیں؟ کسی اور ملک میں ایسی کوئی تحریر آپ کی نظروں سے گزری ہوتو ہمیں ضرور آگاہ کیجئے گا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں میں ہرروز ہزاروں لیٹر مضرصحت دودھ پکڑا جاتا ہے لیکن دھندہ پھر بھی زوروشور سے جاری ہے۔
ایسے میں‘ جب خاص و عام ایک ہی صف میں کھڑے ہوچکے ہوں تو پھر اپنے دگرگوں حالات پر کیا شور مچانا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ اس صورت حال پر سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔ یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ دل کو سمجھا لینا چاہیے کہ لوٹ کھسوٹ کا جو سلسلہ جعلی کلیموں کے نام پر شروع ہوا تھا‘ اُس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ صورتحال پر کڑھنے کی بجائے حالات سے سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔ مان لینا چاہیے کہ ہم رشوت کے خاتمے کی طاقت بھی نہیں رکھتے ۔ محکمانہ طور پر کمیشن کے نام پر رشوت کا دھندہ تو خیر عرصہ دراز سے جاری ہے ۔ کسی وقت تفصیل سے بات کریں گے کہ کیسے کوئی بھی ٹھیکہ دئیے جانے سے پہلے کس کس شرح سے کمیشن نکال لی جاتی ہے۔ سرکاری ٹھیکوں کے نتیجے میں تعمیر ہونے والی عمارتیں اور شاہراہیں ایسے ہی تو کچھ عرصے کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوجاتیں۔ اس بات کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ ملاوٹ اور منافع خور مافیاز کو بھی قابو میں نہیں لایا جاسکتا ۔ ان کی طاقت کا اندازہ تو ان دنوں بھی بخوبی ہورہا ہے ۔ حکومت مسلسل آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے پر نوٹس لیتی چلی جارہی ہے اور اسی تناسب سے ان کے نرخ مزید بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ لاہور نیوز کے کامرس رپورٹر نے خبر دی ہے کہ مہنگا ہونے کے باوجود آٹے کا حصول ہی مشکل ہوگیا ہے جبکہ چینی کے نرخ کم کراتے کراتے اب یہ سنچری پوری کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا بھی حکومت نے کافی سنجیدگی سے نوٹس لیا تھا جس کے بعد ان کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں حکومت سے اپیل ہی کی جاسکتی ہے کہ نوٹس لینا چھوڑ دیں۔ہاں ایسی صورت میں دل کے بہلانے کو ایک مرتبہ پھر اس اکھان کا سہارا لیا جاسکتا ہے کہ اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے‘ لیکن مستقبل قریب میں کوئی اُمید بر آئے ‘ بظاہر اس کی صورت بھی نظر نہیں آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں