"FBC" (space) message & send to 7575

بادشاہ ایک سیب مفت میں توڑے تو…

نیب لاہور نے محکمہ ایکسائز کے ایک سابق انسپکٹر کے گھر پر چھاپہ مار کر 33 کروڑ روپے کی نقدی اور بھاری مالیت کے پرائز بانڈز برآمد کر لیے۔ نیب ریکارڈ کے مطابق خواجہ وسیم نامی ملزم نے 2018ء میں ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے‘ تب بھی کروڑوں روپے کی بلیک منی وائٹ کی تھی۔ اُس نے وہ فائدہ اُٹھایا جس کا سرکاری ملازم ہوتے ہوئے وہ اہل ہی نہ تھا۔ 2013ء سے 2017ء تک اِس شخص نے کروڑوں روپے بیرونِ ملک بھی منتقل کیے۔ ذہن میں رکھیے گا کہ یہ محکمہ ایکسائز کا کوئی اعلیٰ افسر نہیں بلکہ 16ویں گریڈ کا ایک انسپکٹر تھا۔ طویل عرصے تک کھل کھیلنے والا یہ شخص اب مزید تحقیقات کے لیے نیب کی حراست میں ہے۔ جس روز محکمہ ایکسائز کا یہ سابق ملازم قانون کی گرفت میں آیا، اُسی روز محکمہ اینٹی کرپشن لاہور نے بھی تین افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتار ہونے والے تینوں افراد کا تعلق پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈسے تھا۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کے ڈی جی کی طرف سے بتایا گیا کہ تینوں افراد نے کروڑوں روپے کی خورد برد کی ۔ گرفتار ہونے والوں نے گھوسٹ کالجوں کے نام پر سرکاری خزانے سے کروڑ وں روپے نکلوائے اور ڈکار گئے۔ پٹرول کی مد میں بھی بھاری رقم اِدھر سے اُدھر کی گئی۔ اِسی روز محکمہ اینٹی کرپشن ساہیوال نے ایک کارروائی کے دوران میٹرو پولیٹن آفیسر بہاولپور کو بھاری رقوم خورد برد کرنے پر گرفتار کیا۔ الزام ہے کہ موصوف نے ساہیوال میں ایک عہدے پر تعیناتی کے دوران ایک کروڑ روپے کے قریب رقم سمیٹی۔ اِسی روز ڈی پی آفس اوکاڑہ میں تعینات ایک اکائونٹینٹ بھی گرفتار ہوا جس پر الزام ہے کہ اُس نے پٹرول کی مد میں ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم اپنی جیب میں ڈالی۔ ملز م کی طرف سے اعتراف تو صرف ایک کروڑ روپے کے قریب رقم خورد برد کرنے کا کیا گیا ہے لیکن موصوف کروڑوں روپے کی جائیداد کا مالک ہے۔
بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں کہ اِس طرح کھل کھیلنے کی جرأت کہاں سے ملتی ہے۔ جس روز یہ تمام کارروائیاں منظر عام پر آئیں، اُسی روز کی ایک اور خبر بھی سنتے چلیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ'' اُمرا ملک لوٹ کر کھا گئے اور سرکاری ادارے سہولت کار بنے رہے‘‘۔ یہ کیس ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے کے ایک رکن کے حوالے سے عدالت کے سامنے آیا تھا۔ پہلے عدالت کے ریمارکس پڑھ لیں پھر سینیٹر صاحب کی بات بھی کرتے ہیں۔ عدالت کی طرف سے قرار دیا گیا کہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ایک سینیٹرکو پوری پہاڑی پر ''قبضہ‘‘ کرا دیا جہاں وہ بادشاہوں کی طرح رہائش پذیر ہیں۔ کوئی ذاتی سڑکیں تعمیر کر رہا ہے تو کوئی سوئمنگ پولز۔ یہ تو مقام شکر ہے کہ کم از کم غیر قانونی سکیموں کا افتتاح وزیراعظم سے نہیں کرایا جا رہا ورنہ حکومت کی رہی سہی عزت بھی جاتی۔ آگے کے ریمارکس بھی ملاحظہ کر لیجئے۔ ضروری نہیں کہ ''اوپر‘‘ سے فون آ جائے تو آپ نے وہ کام ہرصورت میں کرنا ہی ہے، سرکاری زمین پر ایسے باڑ لگا لی جاتی ہے جیسے پاکستان اور بھارت کی سرحد بن گئی ہو۔ یہ ریمارکس سینیٹر اورنگ زیب اورکزئی کے خلاف ایک کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئے ہیں جن کے خلاف ایک شہری نے درخواست دائر کی تھی۔ دورانِ سماعت عدالت کی طرف سے یہ تک کہا گیا کہ ایک پہاڑی پر قانون ساز ادارے کے رکن کا قبضہ سیدھا سیدھا نیب کیس بنتا ہے۔ یہ کیس چیئرمین سینیٹ کو بھیجے جانے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے تاکہ وہ بھی دیکھیں کہ اُن کے ادارے کے اراکین کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ اگرچہ عدالت کی طرف سے کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے لیکن جو ریمارکس عدالت عالیہ کی طرف سے سامنے آئے ہیں، وہ ایک مرتبہ پھر آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ صرف ایک روز کی خبریں ہیں اور اُن معاملات کی روداد‘ جو سامنے آئے ہیں۔ 
کہتے ہیں کہ دیگ کا ذائقہ چکھنے کے لیے پوری دیگ کھانا ضروری نہیں ہوتا، چند دانوں کا چکھ لینا ہی کافی ہوتا ہے۔ بس یہ ایک روز کے چند دانے ہیں جنہیں چکھ کر اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں کہ دیگ کا ذائقہ کیسا ہے۔ مطلب یہ کہ اوپر سے لے کر نیچے تک‘ صرف ایک ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، پیسہ اکٹھا کرنے کا۔ ایسے ہی تو ہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں 19ویں نمبر پر براجمان نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بدعنوانی کی یہ وہی شرح ہے جو 2016-17ء میں ریکارڈ کی گئی تھی۔ کیا ایسے میں یہ سوال اُٹھانا غلط ہوگا کہ موجودہ حکومت تو مسلسل بدعنوانی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتی رہی ہے تو پھر کیونکر یہ صورتحال سامنے آ رہی ہے؟ کیا ایسے میں یہ سوال اُٹھایا جانا غلط ہوگا کہ مذہبی معاملات کی ادائیگی میں تو ہم بہت آگے ہیں لیکن معلوم نہیں دنیاوی معاملات میں ہمیں کیا ہو جاتا ہے، ہم ہروقت آخرت کی گردان کرتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے جو عملاً آخرت سنوارنے کی کوشش بھی کرتے ہوں۔ اِسی چکر میں ہم دنیا کے رہے نہ آخرت کے۔ یقینا سبھی اِس فہرست میں شامل نہیں ہیں لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے تو غلط طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے والوں کی تعداد کچھ کم بھی نہیں ہے۔
ہمارا ملک شاید دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں ہسپتال میں جانا ہو تو پہلے سفارش ڈھونڈی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ مریض کو اُسی ہسپتال میں لے جایا جائے جہاں کوئی جاننے والا ہو۔ تھانے جا نا ہو تو پہلے جیب میں پیسے رکھے جاتے ہیں اور اِس کے ساتھ کوئی سفارش بھی تلاش کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام سرکاری اداروں کے تمام ملازمین کرپٹ نہیں‘ پر کیا کیا جائے کہ بات پھر ''لیکن‘‘ پر آ کر اٹک جاتی ہے۔ دیکھئے کیسی عجیب بات ہے کہ مذہب کے معاملے میں ہم ایک منٹ میں جان لینے اور دینے پر تل جاتے ہیں لیکن جب بات ایمانداری کی آتی ہے تو پھر ہم دنیا کے بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام پر نظر آتے ہیں۔ 
یہ ہیں ہم اور ہمارے رویے! ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ عادتاً جھوٹ بولنا ہماری گٹھی میں پڑا ہے۔ سڑکوں پر دیکھ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بھیڑ‘ بکریوں کا کوئی ریوڑ پھر رہا ہے، نہ کوئی اصول نہ کوئی ضابطہ‘ لیکن دعوے دنیا کی عظیم ترین قوم ہونے کے کیے جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ صورت حال کوئی ایک دن میں پیدا ہوگئی ہے؟ یقینا ہرگز نہیں! یہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں دہائیوں کا سفر طے کرنا پڑا ہے جو ہنوز تیزی سے جاری ہے۔ وجہ اِس کی بہت سیدھی اور صاف ہے کہ جب بادشاہ کسی باغ سے ایک بھی سیب مفت میں توڑ لے تو پھر اُس کا لشکر پورا باغ اُجاڑ دینے میں بالکل ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیتا۔ یہ وہ ٹریکل ڈاؤن افیکٹ ہے جسے ہرصورت نیچے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ابتدائی چند ایک سالوں کے بعد ہم جس راستے پر چل نکلے تو پھر اُسی پر بگٹٹ بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ بس فیس سیونگ کرنا ضروری ہوتی ہے جس کے لیے بھرپور بیان بازی کا راستہ تو بہرحال موجود ہی ہے لیکن بات ہے کہ گا، گی ، گے سے آگے بڑھ ہی نہیں پا رہی اور یقین رکھئے کہ یہ آگے بڑھ پائے گی بھی نہیں۔ ہم نے جو راستہ چن لیا ہے، اب اُس سے پیچھے ہٹنا اگر ناممکن نہیں تو کم ازکم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اِس تمام صورت حال کے دوران بے یقینی کی وہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ ہرکوئی اپنے کل کے بارے میں پریشان دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہمارے چلن کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم دوسرے ممالک سے لیڈران منگواتے ہیں، اُنہیں کھل کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں اور پھر واپس بیرونِ ملک بھجوانے کے لیے سہولتیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ ہم اپنے جس ہمسائے کے لتے لیتے رہتے ہیں، اُس کے سابق وزرائے اعظم یا صدور کے بارے میں ایک رپورٹ پڑھ کر‘ سچی بات ہے کہ کافی شرمندگی ہوئی کہ اُن میں سے کوئی ایک سابق وزیراعظم یا صدر بھی بیرونِ ملک جا کر سیٹل نہیں ہوا۔ سب کے سب اپنے ہی ملک میں رہائش پذیر رہے۔ یہی صورت حال وہاں کی عسکری شخصیات کے حوالے سے بھی سامنے آئی۔ اپنی طرف کے حقائق کا جائزہ آپ خود لے لیں۔ ہمیں تو بس اتنا ہی کہنا ہے کہ جب تک بادشاہ مفت سیب توڑنے کا سلسلہ ختم نہیں کریں گے‘ لشکری باغ کو اُجاڑتے ہی رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں