"FBC" (space) message & send to 7575

زیادہ کرپشن ہوتی ہے تو زیادہ مہنگائی ہوتی ہے

تاریخ تو یاد نہیں لیکن الفاظ بالکل ٹھیک ٹھیک یاد ہیں ''یاد رکھیں! جب حکمران چوری کرتا ہے تو پھر وہ آپ کے اوپر ٹیکس لگاتا ہے، اِس کی قیمت آپ کو زیادہ مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے‘‘۔ اب مہنگائی کی موجودہ صورتحال کو کیا نام دیا جائے یا حکمران اِسے کیسے justify کریں گے؟ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اِس تمام صورتحال کا اتنا فائدہ بہرحال ہوا ہے کہ مہنگائی نے عوام کو دوسرے تمام مسائل سے نجات دلا دی ہے۔ احتساب کی باتوں سے کوئی دلچسپی رہی نہ نون سے شین لیگ کے برآمد ہونے پر تبصرے سننے میں آ رہے ہیں۔ برآمدت میں اضافے اور درآمد ت میں کمی کی مثبت خبریں بھی عوام میں پذیرائی حاصل کرنے میں ناکام نظرآ رہی ہیں۔ شیخ رشید اور شہباز گل صاحب اپنی سی کوششیں تو کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے عوامی جی بہلانے کا کوئی سامان ہو جائے لیکن مصیبت یہ ہے کہ زنبیل میں سے کچھ نیا برآمد نہیں ہو رہا۔ اب ایک ہی طرح کی باتوں اور دعووں میں کوئی کب تک دلچسپی لے سکتا ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب مہنگائی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہو۔ ہاں! اتنا ضرور سننے میں آتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کو مہنگائی کے حوالے سے صورتحال کا احساس ہے لیکن یہ بات فی الحال احساس سے آگے نہیں بڑھ پا رہی۔
پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران اکثر و بیشتر عوامی رابطہ کافی مضبوط رہتا ہے اور اس دوران صرف مہنگائی کی گردان ہی سننے کو ملتی ہے۔ یقین جانیے کہ شہریوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ احتساب، بدعنوانی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی یا پھر برآمدات میں اضافے کی خبروں کے حوالے سے ایک لفظ بھی سننے کو نہیں ملتا۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے جب احتساب کا حکومتی بیانیہ اپنی دلچسپی کھوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اب کچھ اور بیان کرنے کو رہا ہی نہیں‘ اسی وجہ سے اب تک سب اسی کی گردان کیے چلے جا رہے ہیں۔ 
ایک سے زائد بار عرض کیا جا چکا کہ بدعنوانوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے۔ جس نے قوم کی ایک پائی بھی لوٹی ہے، اُسے بھی احتساب کی چکی میں پیسنا چاہیے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے میں اُس کے احتساب کے بیانیے کا بھی بڑا عمل دخل تھا، عوام کی اکثریت نے یہ اُمید باندھ لی تھی کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے بدعنوانوں کے گرد شکنجہ تنگ ہو گا۔ یہ اُمید بلاوجہ بھی نہیں تھی کہ دو جماعتوں کی طرف سے ایک عرصے سے قومی خزانے کو لوٹے جانے کی باتیں عام ہو چکی تھیں۔ اِنہی باتوں کو تحریک انصاف نے بھی آگے بڑھایا جس نے اُسے انتخابات میں کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج دو‘ ڈھائی سالوں کے بعد یہ عالم ہے کہ آٹے کا بحران بدستور برقرار ہے۔ 20 کلو آٹے کے تھیلے کے نرخ سرکاری طور پر تو 860 روپے مقرر ہیں لیکن مل یہ 900 سے 1000 روپے میں رہا ہے۔ چکی مالکان الگ سے بپھرے بیٹھے ہیں جنہوں نے ایک کلو آٹے کی قیمت 80 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی ہے۔ صرف آٹا ہی نہیں‘ باقی چیزوں کا بھی یہی عالم ہے۔ سردیاں آئی نہیں اور انڈے 160 سے 180 روپے فی درجن میں فروخت ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ دودھ‘ دہی کے نرخ بھی بالترتیب ایک سو تیس اور ایک سو پچاس تک پہنچ چکے ہیں۔ گوشت نامی جنس تو عرصہ ہوا عام آدمی کی بساط سے باہر ہو چکی ہے۔ رہی بات سبزیوں اور دالوں کی تو اِن کے نرخ بھی بلندی کی طرف گامزن ہیں۔ تادم تحریر روٹی کی قیمت میں اضافے کی خبریں گردش میں ہیں۔ سچی بات ہے کہ یہ سب کچھ لکھتے ہوئے افسوس بھی ہو رہا ہے کہ وزیراعظم سے بہت سی اُمیدیں وابستہ تھیں جو بتدریج دم توڑتی جا رہی ہیں۔ اب صورت حال میں بہتری کے لیے حکومتی مشینری کو زیادہ فعال بنانے کے بجائے ٹائیگر فورس کو میدان میں اُتارنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کوئی بھی شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اِس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھیں گے‘ جس کی ابتدا ہو بھی چکی ہے۔ جلد ہی دکاندار اور ٹائیگر فورس کے اہلکار ایک دوسرے کے مدمقابل دکھائی دیں گے۔
دیکھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ٹائیگر فورس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ وہ کس قانون کے تحت دکانوں پر جا کر نرخ نامے چیک کر سکے گی؟ یوں بھی یہ معاملہ نرخ ناموں کا تو ہے ہی نہیں کیونکہ مسائل کچھ اور ہیں جن کا حل کسی صورت بھی آسان نہیں رہا۔ بنیادی طور پر بیشتر مسائل کے پیدا ہونے کے پس پردہ فیصلے کرنے میں تاخیر کا عنصر زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اِس کی سب سے بڑی مثال گندم بحران کی ہے۔ ظاہر ہے کہ گندم کے حوالے سے یہ صورت حال کوئی ایک دن میں تو پیدا نہیں ہوئی۔ اب زیادہ الزام سندھ حکومت پر دھرا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گوداموں سے گندم ریلیز نہیں کر رہی۔ یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ سندھ حکومت پہلے اپنی ضروریات کو ترجیح دے گی اور پھر ہی دوسرے صوبوں کی ڈیمانڈ پوری کرے گی۔ مسائل کے زیادہ گمبھیر ہونے کی ایک اور بڑی وجہ اپنی تمام توانائیاں صرف ایک طرف لگا دینا بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم سے لے کر وزرا اور مشیروں تک‘ سب کے سب صرف احتساب کی گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس تناظر میں پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران کئی مواقع پر بیشتر شہریوں کی طرف سے یہی کہا گیا کہ اب تو اُنہیں احتساب کا عمل بھی بے معنی سا محسوس ہونے لگا ہے۔ اِسے بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ عوام مبینہ طور پر خزانہ لوٹنے والوں کے لیے سزا کے معاملے سے بھی لاتعلق دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ صورت حال کسی طور بھی ملک و قوم کے لیے خوش آئند قرار نہیں دی جا سکتی لیکن اِس میں عوام کا بھی کیا قصور؟ جہاں آٹے، چینی، گھی، دودھ اور سبزیوں جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیا بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں تو پھر ضرور‘ اُس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے‘ والا معاملہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ جو پیاز تین سال پہلے 25 روپے کلو ملتا تھا، اِن دنوں 68 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ ملکی ضرورت کی 85 فیصد اجناس بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں جن کا براہِ راست تعلق ڈالر سے ہے۔ اب جو ڈالر کی پرواز نے بھی تمام ریکارڈ توڑے ہیں تو پھر اِس کا اثر اشیا کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے۔ گویا بادی النظر میں مہنگائی کے حوالے سے حالات انتہائی خراب دکھائی دیتے ہیں۔ ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ مستقبل قریب میں بھی بہتری کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ اب یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ سوائے مہنگائی کے تمام معاشی اور اقتصادی اشاریے بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ 
اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن جب تک مختلف شعبوں میں ہونے والی مثبت پیش رفت کے ثمرات سے عوام بہرہ مند نہیں ہوں گے، یہ سب باتیں صرف دعوے ہی کہلائیں گی۔ وہ دعوے جنہیں کرنے میں ہم یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ تقریباً ہر روز پریس کانفرسنز کرنے والے وزرا اور مشیروں کی ریکارڈنگز سن لیجئے، ایک جیسی باتیں ہی سنائی دیں گی۔ جہاں کوئی مزاج کے خلاف سوال ہو جائے تو فوراً برہم ہو جاتے ہیں؛ ''پریس کانفرنس سے نکل جائو، تمہیں کس نے اندر آنے دیا، کہاں سے آئے ہو تم‘‘ جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ میڈیا ٹاک میں ''احتساب کا عمل جاری رہے گا، ایک ایک پائی واپس لائی جائے گی، این آراو نہیں ملے گا‘‘ جیسے جملے بار بار سننے کو ملتے ہیں اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف جھوٹ بول کر ملک سے باہر گئے ہیں۔ بہر صورت اس وقت سب سے زیادہ توجہ مہنگائی کم کرنے پر دینا ہو گی۔ وزیر اور مشیر‘ جن کا کام حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرنا ہے‘ وہ بھی یہاں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ ٹاک شوز میں تو یوں بھی ہوا کہ مہنگائی پر بات کرنے کے حوالے سے حکومتی شخصیات کی طرف سے معذرت کر لی گئی۔ یہ حالات حکومت کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ویسے اپنی کہی ہوئی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زیادہ کرپشن ہوتی ہے تو زیادہ مہنگائی ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں