"FBC" (space) message & send to 7575

یہاں ایسے ہی چلتا ہے

وہی ہائے ہائے‘ وہی مردہ باد‘ زندہ باد کے نعرے اور وہی ایک دوسرے کی سیاست ختم کر دینے کے دعوے۔ اپوزیشن حکومت کو اُلٹا لٹکا دینے کے اپنے عزم کا اظہار کر رہی ہے تو وزیراعظم عمران خان نے بھی منہ پر ہاتھ پھیر کر اپنے ارادوں کا اظہار کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اب اپوزیشن کو ایک بدلا ہوا عمران خان نظر آئے گا، نواز شریف کو بھی لندن سے واپس لا کر جیل میں ڈالنے کا عزم دہرایا گیا۔ اِن کے ساتھ ساتھ وزرا اور مشیرانِ کرام کی فوج بھی دن رات اپوزیشن کو اُس کی حیثیت یاد دلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ آنے والے وقت کا کچھ کچھ اندازہ تو کراچی میں کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی سے ہو چکا۔ یہ بھی عجب معاملہ پیش آیا کہ مزارِ قائد کے احاطے میں سیاسی نعرے بازی پر کیپٹن صفدر کو کراچی پولیس نے گرفتار کیا اور سندھ حکومت اِس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے۔ کہیں کہیں اِس واقعے کا ذکر اِس تناظر میں بھی کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ پی ڈی ایم میں نفاق ڈالنے کی کوشش ہے۔ تادمِ تحریر یہ پتا لگانے کی سعی کی جاری ہے کہ یہ کوشش کہاں سے ہوئی۔ کرداروں کے فرق کے ساتھ اِس طرح کا واقعہ 1971ء میں بھی پیش آ چکا جب نعرے لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو اور حاکمِ وقت‘ یحییٰ خان تھے۔ غالباً 6ستمبر 1971ء کا دن تھا جب کچھ حکومتی زعما نے مزارِ قائد پر جمع ہوکر یحییٰ خان کی مدح سرائی کی اور حکومت کی شان میں قصیدے پڑھے۔ جوابی وار کرنے کے لیے قائداعظم کی برسی کے روز ذوالفقار علی بھٹو بھی مزار قائد پر پہنچ گئے اور حکومت کے خوب لتے لیے۔ اِس پر حکومت کو احساس ہوا کہ یہ تو مزارِ قائد کی بے حرمتی کی گئی ہے چنانچہ فوراً مزار قائد کے تحفظ کے لیے ایک آرڈیننس جاری کر دیا گیا جس کا لامحالہ پہلا نشانہ مسٹر بھٹو ہی بنے۔ نجانے اِس کا اطلاق 6 ستمبر 1971ء کو مزارِ قائد پر سیاسی تقاریر کرنے والوں پر کیوں نہ کیا گیا۔ بعد میں یہی مسٹر بھٹو اور یحییٰ خان شیر و شکر ہو گئے اور ایک دوسرے کی ڈھال بن کر سامنے آئے۔ اب کیپٹن محمد صفدر گرفتار ہوئے تو نون لیگیوں کی طرف سے فوری طور پر تحریک انصاف والوں کو یاد دلایا گیا کہ اگر وہ حرم شریف میں نواز شریف کے خلاف نعرہ بازی کر سکتے ہیں تو مزارِ قائد کے احاطے میں نعرہ بازی کرکے کیپٹن صفدر نے کون سا گناہ کر دیا ہے؟
ہمارے ہاں یہ سب ایسے ہی چلتا رہتا ہے کہ ایک فریق کچھ کہتا ہے تو دوسرا فوراً اُس کا ماضی سامنے لا رکھتا ہے کہ فلاں وقت میں تم نے بھی تو یہی سب کچھ کیا تھا۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے جلسے میں نواز شریف صاحب کی تقریر کا بہت غلغلہ مچا تھا۔ یاد دلانے والے فوراً عمران خان صاحب کی طرف سے ماضی میں اِسی تناظر میں دیے جانے والے بیانات سامنے لے آئے۔ اُن کی بائیوگرافی ''اے پرسنل ہسٹری‘‘ کی تحریریں بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ اِس کتاب میں عمران خان کی ایک ادارے کی اعلیٰ شخصیت سے ملاقاتوں کا احوال بھی ملتا ہے۔ اِس میں وہ یہ شکایت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ حکومتی اتحاد میں شرکت نہ کرنے پر طاقتوروں نے اُن کے اُمیدواروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا تھا۔ دراصل تب پرویز مشرف ملک کے حکمران تھے جو عمران خان سے اپنے لیے سیاسی حمایت کے طلبگار تھے لیکن انکار پر‘ ظاہر ہے کہ اُنہیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس دباؤ کی بابت اُنہوں نے اپنی کتاب میں کافی جگہ ذکر کیا ہے۔ ماضی میں کئی ایک مواقع پر عمران خان صاحب اداروں کے بارے میں جو زبان استعمال کر چکے ہیں‘ وہ نواز شریف صاحب کی زبان سے بھی کہیں سخت تھی۔ آج وہی عمران خان اداروں کے تحفظ کے لیے سینہ سپر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں، ویسے بھی ماضی کو بھلا کر نئی شروعات کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ ایک وقت کے ٹھکرائے ہوؤں کو گلے لگانے کی آپشن بھی ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ یاد آیا کہ 2002ء میں عمران خان نے یہ کہہ کر گرینڈ نیشنل الائنس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا کہ حکومت نے تو اِس الائنس میں سب چور اکٹھے کر لیے ہیں۔ اب ہم یہ گنوانے بیٹھیں کہ اُن میں سے کتنی شخصیات اِس وقت حکومت کا حصہ ہیں تو بات کافی طویل ہو جائے گی۔ یوں بھی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں اِس لیے اگر آپ خود بھی تھوڑی سی کوشش کریں تو بہ آسانی جان سکتے ہیں۔ مختصراً یہی یاد رکھیے کہ ہمارے ہاں یہ سب ایسے ہی چلتا آیا ہے اور شاید ایسے ہی چلتا رہے گا۔کبھی کبھی وہ کلپ بھی نظروں سے گزرتا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان اور شیخ رشید صاحب ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برسا رہے ہوتے ہیں۔ دورانِ گفتگو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ عمران خان ہاتھ اُٹھا کہ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں یا اللہ! مجھے شیخ رشید جیسا سیاستدان کبھی مت بنانا۔ آج وہی شیخ رشید صاحب حکومت کے دفاع کیلئے اگلی صفوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ شیخ رشید صاحب کی اِس خوبی کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ اُن کا ہاتھ ہمیشہ وقت کی نبض پر رہتا ہے۔ اِسی خوبی کے باعث‘ حکومت کوئی بھی ہو، وہ اُس کا حصہ نظر آتے ہیں۔ کسی وقت میں موجودہ وزیر ہوا بازی غلام سرور کے ساتھ ہمارے موجودہ وزیراعظم کی گفتگو نے بھی کافی شہرت حاصل کی تھی۔ اِس گفتگو میں دونوں نے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کے 'اوصاف‘ بیان کیے تھے۔ آج جن کے سہارے پنجاب کی حکومت قائم ہے‘ اُن کے بارے میں خیالات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ 
بات صرف یہاں تک کب رکتی ہے‘ کبھی شہباز شریف بھی زرداری کا پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ کبھی زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی کی جاتی تھیں۔ اِنہی زرداری صاحب نے نواز شریف کی آخری وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک اعلیٰ ترین شخصیت کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ اِس کے جواب میں نواز شریف صاحب بھی اِس شخصیت کے تحفظ میں سینہ تان کر کھڑے ہوگئے تھے۔ بعد میں زرداری صاحب کو اپنے کہے ہوئے الفاظ کی بہت بھاری قیمت ادا چکانا پڑتی تھی بلکہ ابھی تک ادا کر رہے ہیں... لیکن! ہمارے ہاں یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا آیا ہے اور شاید ایسے ہی چلتا رہے گا۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ آج مریم نواز‘ بلاول کواپنا چھوٹا بھائی قرار دیتی ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک سٹیج پر حکومت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ یہاں بھی اگر صورت حال کا غور سے جائزہ لیں تو دونوں میں سے ایک فریق انتہائی جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے اور دوسرا بہت محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک کی کوشش ہے کہ وہ لفظی گولہ باری سے حکومت کو غصہ دلاتا رہے اور دوسرا فریق اِس تاک میں ہے کہ کسی طرح اُس کے لیے حالات بہتر ہو جائیں۔ ایک فریق کشتیاں جلا کر میدان میں اُترا ہوا محسوس ہوتا ہے تو دوسرا شاید اِس تمام صورت حال میں اپنے لیے کچھ بہتر ہوتا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ اِس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ جارحانہ رویہ اپنانے والے فریق کو اتنی ہمت کہاں سے ملی ہے کہ اُس نے یکایک سب کچھ اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیا۔ دفاع کاروں کی پریشانی بھی دور ہونے میں نہیں آ رہی کہ مخالفین نے اتنی توانائی کہاں سے حاصل کی ہے۔ اب حکومتی دفاع کار خم ٹھونک کو میدان میں تو اتر آئے ہیں لیکن حیرانی اور پریشانی اپنی جگہ برقرار ہے۔ یہاں بھی پریشان ہونے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں کہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا ہے۔ جلد ہی سب کچھ کھل کر سامنے آ جائے گا۔ ہاں! ایک بات ضرور پریشانی پیدا کر رہی ہے کہ اِس تمام صورت حال کے باعث اداروں کے حوالے سے منفی تاثرات پیدا ہوئے ہیں‘ اس صورتحال کو یقینا افسوس ناک قرار دیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ ادارے ہماری قومی سلامتی کے ضامن ہیں، ہمارے جوان ملکی سرحدوں کے تحفظ کرنے کے اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں جوانوں کی بڑی تعداد نے جام شہادت نوش کیا۔ ضروری ہے کہ سیاست کے کھیل سے اداروں کو دور رکھا جائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں