"FBC" (space) message & send to 7575

جہاز نہیں ڈوبے گا

''جا بجا نہروں میں شیریں دودھ بہہ رہا تھا جن کے کناروں پر خوب صورت قالینوں کے فرش بچھے ہوئے تھے، اِن فرشوں پر جگہ جگہ لوگ خوبصورت اور ریشمی تکیوں سے ٹیک لگائے انتہائی خوش ذائقہ پھلوں سے دل بہلا رہے تھے، معلوم نہیں یہ قدرتی طور پر تھا یا سدھائے ہوئے طیور تھے جو درختوں سے پھل توڑ کر لاتے، تکیوں سے پشت لگائے احباب کے سامنے رکھتے اور پھر اُڑ جاتے،جگہ جگہ خوبرو لڑکے ساقی گری کرتے بھی دکھائی دے رہے تھے‘‘۔یہ حسن بن صباح کی جنت کا کھینچا ہووہ نقشہ ہے جس کی تفصیل عبدالحلیم شرر کے ناول ''فردوس بریں‘‘ میں ملتی ہے۔ عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حسن بن صباح نے یہ مصنوعی جنت 12ویں صدی میں ایران کے ایک علاقے رودبار میں بنائی تھی۔ اِسی علاقے میں دہشت کی علامت سمجھا جانے والا قلعہ الموت موجود تھا جس کے اندر یہ فرضی جنت تیار کی گئی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ فرضی جنت صرف عیش و عشرت کے لیے تیار کی گئی تھی بلکہ اِس کا ایک خاص مقصد تھا۔حسن بن صباح نے کرائے کے قاتلوں کی ایک فوج تیار کررکھی تھی۔ جس کسی بادشاہ یا راجے‘ مہاراجے کو اپنے کسی مخالف کو راستے سے ہٹانا مقصود ہوتا تو وہ حسن بن صباح سے رابطہ کرتا۔ حسن بن صباح اِس مقصد کے لیے اپنے جس بھی کرائے کے قاتل کی ڈیوٹی لگاتا تو پہلے اُسے اِس فرضی جنت میں لایا جاتا، یہاں اُس کی خوب خدمت کی جاتی اور پھر اُس سے یہ کہا جاتا کہ اگر وہ فلاں شخص کو قتل کردے گا تو اُسے ہمیشہ کے لیے اس جنت میں رکھا جائے گا۔اِس لالچ میں ہرکسی کی خواہش ہوتی کہ اُسے بھی کسی کو قتل کرنے کے فرائض سونپے جائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ حسن بن صباح نے اتنی طاقت حاصل کرلی تھی کہ بڑے بڑے بادشاہ اِس کے نام سے کانپتے تھے۔ 
1050ء میں پیدا ہونے والے حسن بن صباح کے بارے میں بہت سی باتیں تو خود اِس کی اپنی آپ بیتی '' سرگزشتِ سید نا‘‘ میں ملتی ہیں لیکن اب اِس کی تلاش بذاتِ خود کسی مہم سے کم نہیں۔ مصر میں اُس وقت فاطمی خاندان کی حکومت تھی‘ ایک موقع پر حکمران خاندان سے اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں یہ زنداں بھی پہنچ گیا جہاں سے رہائی کے بعد گھومتے گھماتے اِسے کوہ البرز کے پہاڑوں میں ایک قلعے کے آثار دکھائی دیے‘ بس پھر اِس نے یہیں ڈیرے ڈال لیے۔ بڑی تعداد میں مصاحبین پہلے سے ہی اس کے اردگرد جمع ہوچکے تھے‘ سو سب نے مل کر قلعے کی از سرنو تعمیر کی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ پہلے سے موجود اِس کے مکین یہاں سے رخصت ہوگئے اور قلعے پر حسن بن صباح کو مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُس نے قلعے کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ یہیں پر ایک فرضی جنت بنائی گئی۔معروف فارسی تاریخ دان عطاملک جوینی نے تاریخِ جہانگشا میں بھی اس قلعے کا ذکر کیا ہے،یہ تاریخ دان لکھتا ہے کہ قلعہ الموت کی شکل کسی ایسے اونٹ کی مانند ہے جو گھٹنوں کے بل بیٹھا ہو۔ مورخ کے مطابق قلعے کے چاروں طرف چٹانیں ہی چٹانیں تھیں جبکہ قلعے تک پہنچنے کا ایک ہی تنگ سا راستہ تھا جس کا بہت آسانی سے دفاع کیا جاسکتاتھا۔ طاقت میں اضافہ ہوا تو حسن بن صباح نے مزید کئی قلعوں اور علاقوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ کہا جاتا ہے کہ حسن بن صباح نے سیاسی قتل و غارت گری کا انتہائی منظم انداز متعارف کرایا جس کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ لوگ اِس شخص سے ملنے سے بھی کترانے لگے مبادا کسی نے حسن بن صباح کو اُن کی قیمت دے رکھی ہو۔ 1124ء میں یہ کردار اپنی طبعی موت مرگیا لیکن اپنے پیچھے اپنے پیروکاروں کی بڑی تعداد کو چھوڑ گیا‘ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اِس فتنے پر کاری ضربیں لگائیں‘ بعد ازاں 1256ء میں تاتاریوں نے اس جنت کا نام و نشان تک مٹا دیا۔
اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر تاریخ کے صفحات میں سے ایسے متنازع ترین شخص کے بارے میں اتنی تفصیل نکالنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ دراصل اِس کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ ہے جو جب بھی نظروں سے گزرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ ایک ناپسندیدہ کردار ہونے کے باوجود اُس نے بہت پتے کی بات کی ہے‘ ایسی بات جو شاید ہر دور میں اپنی اثر انگیزی کو ظاہر کرتی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ اس بار اسے کسی سمندری سفر پر جانا پڑ گیا۔ کافی بڑا جہاز تھا‘ جس میں کثیر تعداد میں مسافر سفر کر رہے تھے۔ دورانِ سفر جہاز شدید سمندری طوفان میں گھر گیا۔ واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ اب یہ جہاز ڈوبنے سے نہیں بچ سکتا جس پر ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ پورے جہاز میں صرف ایک شخص تھا جس کے چہرے پر فکرمندی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اگر وہ اندر سے پریشان تھا بھی تو اُس کے چہرے سے کوئی پریشانی ظاہر نہیں ہو رہی تھی۔ اِدھر اُدھر بھاگتے کچھ مسافروں کی نظر حسن بن صباح پر پڑی تو استفسار کیا گیا کہ کیا تمہیں کو کوئی پریشانی نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جب جہاز ڈوبے گا ہی نہیں تو پریشانی کسی بات کی؟ حقیقت میں ہوا بھی یہی کہ کچھ دیر کے بعد طوفان تھم گیا اور سب کچھ پُرسکون ہوگیا۔ وہی مسافر دوبارہ حسن بن صباح کے پاس پہنچے اور سوال کیا کہ تمہیں کیسے علم تھا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا؟ اُس نے اطمینان سے کہا: اگر یہ جہاز ڈوب جاتا تو پھر کون بچتا جو مجھ سے سوال کرتا؟ اب اگر یہ نہیں ڈوبا تو یقینا تم لوگ یہی سمجھ رہے ہو گے کہ میں مستقبل کا حال جانتا ہوں اور یہ سمجھ کر تم لوگ میرے آگے پیچھے پھرو گے اور میری خدمت کرو گے‘ بس اسی لیے میں نے کہہ دیا کہ جہاز نہیں ڈوبے گا۔ عطا ملک جوینی کی کتاب میں بھی اِس واقعے کا تذکرہ ملتا ہے جس کے مطابق ابن صباح نے بالکل ٹھیک سوچا تھا کیونکہ حقیقت بتا دینے کے باوجود متعدد مسافراُس کے عقیدت مند بن گئے ۔
ویسے تو حسن بن صباح کا کردارایسا ہے کہ اس کی باتوں سے صرفِ نظر ہی بہتر ہے مگر مشہور مقولہ ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے‘ اور ''جہاز نہیں ڈوبے گا‘‘تو ایسی حکایت بن چکی ہے جس کا حوالہ نہ چاہتے ہوئے بھی دیا جاتا ہے۔ جب بھی یہ بات ذہن میں آتی ہے تو دھیان فوراً بھانت بھانت کی ان بولیوں کی طرف چلا جاتا ہے‘ جو آج کل بولی جا رہی ہیں۔ کوئی سر نہ پیر‘ بس یہی سوچ کہ کسی طرح دوسروں کی عقیدت مندی حاصل کی جائے اور اگر یہ کام نہیں ہو پاتا تو بعد میں کون آ کر پوچھے گا کہ آپ نے تو فلاں وقت میں یہ بات کی تھی لیکن ہوا اس کے اُلٹ۔ اب اگر یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ کیا ہوا تیرا وعدہ تو جواب ندارد۔ یہ پوچھا جائے کہ کہاں گئی وہ حکمت عملی جس کے تحت بیرونی ترسیلاتِ زر کا سیلاب آنا تھا تو کوئی جواب نہیں۔ ایک وفاقی وزیر صاحب سے ایک پریس کانفرنس میں جب سوال کیا گیا کہ آپ نے فلاں وقت میں محکمے کے منافع میں جانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ تو خسارے میں جا رہا ہے تو ان کا جواب تھا کہ چھوڑو! اتنی پرانی باتیں کرنے کا کیا فائدہ؟ ایسے ہی بات کر دی ہو گی۔
بڑے بڑے لوگوں کے منہ سے اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ بے اختیار اُفسردگی سی آن گھیرتی ہے۔ آخر ہم اپنی نئی نسل کو کیا سکھا رہے ہیں؟ انہیں کون سی تربیت دے رہے ہیں اور کن اخلاقیات سے آراستہ کر رہے ہیں؟ جب سبھی جھوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں تو پھر کیونکر عوام سے قوانین کی پاسداری کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔ یقین کیجئے کہ عام آدمی قانون شکنی کی جرأت نہیں کر سکتا اگر اُسے یہ معلوم ہو کہ قانون شکنی کرنے پر فلاں بڑا آدمی بھی جیل چلا گیا تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ یہاں کیا کچھ کیا جاتا اور کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ بس وقتی واہ واہ کی ضرورت ہوتی ہے‘ بعد میں کس نے آ کر پوچھنا ہوتا ہے کہ آپ نے تو کہا تھا جہاز نہیں ڈوبے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں