"FBC" (space) message & send to 7575

کورونا‘ کورونا کا کھیل

کورونا کے حوالے سے ہمارے ہاں کھیلا جانے والا کھیل بالکل عجب نہیں۔ کون سا یہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ جب عوام کی صحت یا جانوں سے دانستہ کھلواڑ کیا جارہا ہو۔بدقسمتی سے جب بھی ایسی کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو بہتوں کے تو ویسے ہی وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ اِس کی کچھ جھلکیاں تو پہلے بھی سامنے آچکی ہیں اور اب اِس کی نئی قسط سامنے آئی ہے۔ نیب لاہور کورونا سے بچاؤ کا سامان خریدنے میں مبینہ طور پر 1ارب روپے کے گھپلوں کی تحقیقات کا آغاز کرچکا ہے۔اِس حوالے سے اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق مبینہ طور پر مارکیٹ میں پانچ روپے میں دستیاب ماسک کے لیے بائیس روپے ادا کیے گئے اور 4سو روپے میں ملنے والے ماسک کے لیے 650روپے کی ادائیگی کی گئی۔ اِسی طرح لانگ شوز، ڈاکٹروں کو فراہم کیے جانے والے خصوصی گاؤنز اور متعدد دیگر اشیا کے لیے زائد رقم ادا کی گئی اور کل ملا کر تقریباً 1ارب روپیہ اِدھر سے اُدھر ہوگیا۔ بہت سی یادداشتوں میں چیف جسٹس گلزار احمد صاحب کے یہ الفاظ بھی اب تک تازہ ہوں گے کہ ہم پیسے سے کھیل رہے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کا کوئی احساس نہیں۔ اُن کی طرف سے یہ ریمارکس رواں سال ماہِ مئی میں کورونا کے مریضوں پر اُٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئے تھے۔اِسی کیس کی سماعت کے دوران اخراجات کے حوالے سے بہت سی حیران کن تفصیلات سامنے آئی تھیں، اور بھی بہت سی ایسی باتیں سامنے آئی تھیں جن سے خوب معلوم ہورہا تھا کہ ہم کورونا سے نمٹنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ یہ حکومتی سطح پر غیرسنجیدگی کا ہی نتیجہ ہے کہ آٹھ ماہ گزرجانے کے بعد بھی ہم شہریوں کو ماسک پہننے کے لیے آمادہ نہیں کرسکے۔ یہ اُس مرض سے نمٹنے کے لیے ہماری سنجیدگی کا عالم ہے جو دنیا بھر میں اِس وقت تک تقریباً 14لاکھ 30ہزار جانیں لے چکا ہے ۔ چھ کروڑ سے زائد افراد اِس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے اب کورونا کی دوسری لہر کا بھی آغاز ہوچکا ہے اور ہم ہیں کہ 
وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
کورونا کے پھیلاؤ کوروکنے کے لیے ہم کیا اور ہمارے اقدامات کیا ۔ طبی ماہرین کی طرف سے بارہا یہ تذکرے سننے کو ملے کہ پاکستان پر اللہ تعالی کا خاص کرم ہے ورنہ ہم نے تو کورونا کو کھل کھیلنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ حکومتی سطح پر کیے جانے والے اقدامات پر وہ برملا اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اِن میں سے بیشتر دکھاوے کے ہیں ۔ یہ چلن کورونا کی دوسری لہر کے آغاز پر بھی جاری ہے۔ آجا کے یہی بیانیہ سامنے آرہا ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں سے کورونا پھیل رہا ہے۔ بلاشبہ کورونا کے تناظر میں اپوزیشن کی طرف سے جلسے کرنے کو بھی احسن اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کیا کررہی ہے۔ جہاں جہاں اپوزیشن جلسے کرنے کے لیے گئی ، وہیں وہیں حکومت بھی جلسے کرنے کے لیے پہنچ گئی۔ اسلام آباد کے کھچا کھچ بھرے ہوئے کنونشن ہال میں محترم وزیراعظم کے نوجوانوں سے خطاب کے مناظر ابھی تک آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ کورونا ایس او پیز کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اجتماع میں نوجوانوں کو بتایا جارہا تھا کہ وہ کس طرح سے عوام کو کورونا ایس او پیز پر عمل کرنے کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔ حافظ آباد اور کے پی میں اپوزیشن نے جلسے منعقد کیے تو حکومت بھی اُن کی پیروی میں وہاں پہنچ گئی۔ جلسے ختم ہونے کے بعد پھر یہ لیکچر شروع کردیا گیا کہ اپوزیشن کے جلسے کورونا کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں۔ اِن جلسوں کی روک تھام کے لیے کچھ ''دیگراقدامات‘‘ بھی کیے گئے لیکن ہنوز اِن جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔
گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے تمام رنگ تو ابھی کل کی بات ہیں۔ اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لیے حکومتی سطح پر بڑے بڑے اجتماعات کا اہتمام کیا گیا ۔ اِن جلسوں سے خطاب کے دوران حکومتی زعما کی طرف سے فخریہ اعلانات کیے جاتے رہے کہ ہمارے جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد میں شمولیت ظاہر کررہی ہے کہ عوام نے اپوزیشن کو مسترد کردیا ہے۔ اب گلگت بلتستان انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں تو حکومت کو بھی یاد آگیا ہے کہ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کا آغاز ہوچکا ہے۔سو سب کچھ کرگزرنے کے بعد اب پی ٹی آئی کی اجتماعی سیاسی سرگرمیوں کو رضاکارانہ طور پر معطل کرکے اپوزیشن سے اِس اقدام کی پیروی کرنے کی توقع کی جارہی ہے۔ یہی توقع عوام سے بھی کی جارہی ہے کہ وہ کورونا سے نمٹنے کے لیے چپ چاپ تعلیمی اداروں اور شادی ہالز وغیرہ کی بندش کے فیصلے قبول کرلیں۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ حکومتی اقدامات کے نفاذ میں کون سا اخلاقی جواز اِس کی مدد کرے گا؟کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ کورونا انتہائی خطرناک بیماری ہے جس سے بچاؤ کے لیے ہرممکن اقدامات کیے جانا چاہئیں۔ سوچیں صرف یہ در آتی ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں جب جی چاہا کورونا کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا اور جب اپنے مفاد کی باری آئی تو اِسے لپیٹ کر کسی کونے میں ڈال دیا؟یہ ہے وہ چلن جس نے حکومتوں پر سے عوام کے اعتماد کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ کیا یہ اسی کا نتیجہ نہیں کہ حکومت جو کہتی ہے تو ہم جیسے ناسمجھ اُس کے برعکس عمل کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں؟حکمران ہروقت قانون، قانون ‘میرٹ ، میرٹ کی رٹ لگائے رکھتے ہیں لیکن عملی طور پر کیا کرتے ہیں‘ قطعاً سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ستم بالائے ستم تو یہ کہ کئی ایک صورتوں میں سوالات بھی اُٹھانے کو ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ کیا یہ قول وفعل کا تضاد نہیں کہ کورونا کی وبا کو آئے 8ماہ گزرجانے کے باوجود ہم عام آدمی کو ماسک کی اہمیت کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکے؟ معروف وائرلوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر طاہر یعقوب بتا رہے تھے کہ اگر ہم صرف ماسک پہننے کی عادت ہی اپنا لیں تو اِس مرض سے بچنے کے امکانات اسّی فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔ اِس کے باوجود ہماری سنجیدگی کا یہ عالم ہے مارکیٹوں میں صرف 15فیصد کے افراد ماسک پہنے دکھائی دیتے ہیں۔
جب حکومتی اور عوامی سطح پر ایک خطرناک مرض سے نمٹنے کے لیے غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہو تو ہمیں ذہنی طور پر سنگین ترین صور حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اپوزیشن کی بات کی جائے تو وہ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کے نزدیک اب جلسے جلسوں کے شیڈول کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ افسوس اِس بات کا ہے کہ حکومتی سطح پر بھی یہی چلن اختیار کرکے اپوزیشن کو روکنے کا اخلاقی جواز کھودیا گیا ہے۔ لامحالہ اِس تمام تر صورتحال کا اثر عام آدمی پر پڑے گا ۔اب حکومت نے شادی ہالوں کی بندش کا اعلان کیا ہے تو شادی ہال مالکان کی ایسوسی ایشن اپنا احتجاجی لائحہ عمل مرتب کرنے میں مصروف ہے۔کئی ایک مواقع پر اُنہیں اِس بات پر قائل کرنے کی کوشش بھی کی کہ یہ اقدامات ہماری بہتری کے لیے ہی کیے جارہے ہیں لیکن جواب یہی ملتا ہے کہ حکومت کو اپنے مفادات کے حصول کے بعد ہی عوامی فلاح وبہبود کا خیال کیوں آتا ہے؟ اِن حالات میں بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ جس طرح ہمارے ملک پر پہلے اللہ تعالیٰ کا خاص کرم اور فضل رہا ہے‘ کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھی وہ ذات پاک ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ یہ اُس کی رحمت کے باعث ہی ہے کہ ہم کورونا جیسی آفت سے بڑی حد تک بچے رہے ورنہ ہم نے اپنی طرف سے پہلے کوئی کسر چھوڑی تھی نہ اب سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنی پاورپاکٹس ہیں کہاِن کے سامنے حکومت کے لیے اپنی رٹ قائم رکھنا مسئلہ بن جاتا ہے۔ عمومی طور پر کہا تو یہی جاتا ہے کہ کسی بھی ریاست میں حکومت کی طاقت کے سامنے سب ہیچ ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک کی تو بات ہی کچھ دوسری ہے۔ نہ حکومتیں اپنے کہے کا پاس رکھتی ہیں نہ عوام اُن کی کسی بات پر کان دھرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں