"FBC" (space) message & send to 7575

لڑتے لڑتے ہو گئی گم

حقائق کو مسخ کرنے میں ایسی یکتائی کہ دیکھتی آنکھیں دھوکا کھانے لگیں۔ جھوٹ بولنے کی عادت تو جیسے گٹھی میں پڑی ہو۔ اعلیٰ ترین سطح سے لے کر نیچے تک‘ جو بھی زبان کھولتا ہے‘ بے یقینی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جتنا بڑا مفاد اُتنا ہی بڑ ا جھوٹ تو پھر دامے درمے قدمے سخنے مفادات تو ہرکسی کی ذات سے وابستہ ہیں۔ یہ ایسے ہی تو نہیں ہوگیا کہ ہم بات کرتے ہیں تو سننے والا صرف ہمیں ہی سن رہا ہوتا ہے۔ بیشتر صورتوں میں اُسے یقین ہوتا ہے کہ وہ محض جھوٹ سن رہا ہے۔ اِن دنوں جلسے جلوس منعقد کرنے اور اِن کی مخالفت کرنے والوں کے بیانات سن لیں تو سننے والے کا منہ ہونقوں کی طرح کھلے کا کھلا رہ جاتا ہے۔جلسہ منعقدکرنے والے اجتماع کو لاکھوں کا مجمع قرار دیتے ہیں‘ مخالفت کرنے والے ہزاروں تک محدود رہتے ہیں۔ اداروں کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ بس ہرکوئی اپنے اپنے دائرے تک محدود نظرآتا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحفظِ نوکری کے لیے حقائق کو جتنا بھی مسخ کرنا پڑے۔ ابھی حال میں میں پی ڈی ایم نے مینار ِپاکستان پر پاور شو کیا۔ ذرا پڑھ لیجئے کہ اِس کے بارے میں کون کون کیا کیا موقف رکھتا ہے۔ جنہوں نے جلسہ منعقد کیا وہ اِسے لاکھوں کا مجمع قرار دیتے رہے۔ اُن کی طرف سے قرار دیا گیا کہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے شرکائے جلسہ نے حکومت کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے۔ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی دہرایا گیا کہ اب سلیکٹڈ حکمرانوں کو خود ہی گھر چلے جانا چاہیے۔ اِس جلسے پر ہمارے وفاقی وزیراطلاعات کا ٹویٹ سامنے آیا کہ جلسے میں محض 10سے 15ہزار افراد نے شرکت کی۔ اب لاکھوں افراد اور صرف 10سے 15ہزار افراد کے درمیان فرق‘ کوئی فرق ہی نہیں؟عرض صرف اتنی ہے کہ جلسے کے منتظمین کا مفاد اِس میں ہے کہ وہ تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں جبکہ مخالفت کرنے والوں کی کارکردگی یوں سامنے آتی ہے کہ وہ تعداد کو جتنا کم کرسکتے ہیں‘ کردیں۔ 
جلسے کے حوالے سے دوسرے بیانات بھی سامنے آتے رہے۔ اِس بارے میں سرکاری اداروں کی رپورٹس بھی دیکھ لیں۔ پولیس نے جو رپورٹ دی اُس کے مطابق جلسہ گاہ میں 14ہزار افراد موجود تھے،سپیشل برانچ کی طرف سے اِس تعداد کو 16ہزار تک بیان کیا گیا۔ آئی بی نے اِس تعداد کو 15ہزار کے لگ بھگ قرار دیا لیکن سب سے دلچسپ بیان شہباز گل کر رہا۔ موصوف یوں بھی جوشِ خطابت پر کچھ زیادہ ہی یقین رکھتے ہیں‘ سو یہاں بھی اُنہیں نے اپنا مخصوص انداز برقرار رکھا۔ اُنہوں نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ جلسے میں شرکا کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ اب یہ سننے والی کی اپنی عقل پر ہے کہ وہ چند ہزار کی تعداد کو کس تناظر میں دیکھتا ہے۔ اب ہمارے لیے اِن ''حقائق‘‘ میں حیرانی کے تمام عناصر موجود ہیں۔ کیا ہم فہم سے اتنے عاری ہوگئے ہیں کہ ہمیں لاکھوں اور ہزار وں کی تعداد میں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اگر تعداد صرف ہزاروں میں تھی تو منتظمین کو کیسے یہ چند ہزار افراد لاکھوں کی صورت میں دکھائی دے رہے تھے؟ اگر تعداد لاکھوں میں تھی تو پھر مخالفین کو کیونکر یہ ہزاروں میں نظرآرہے تھے؟اصل میں قصہ صرف اتنا ہی ہے کہ یہ ہماری اجتماعی بیماری ہے جس کا ہم روزِ اول سے ہی شکار ہیں۔ بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، کھلی آنکھوں سے دکھائی دینے والے سچ کو ایسے جھٹلاتے جانا کہ سچ کو جھوٹ مانتے ہی بنے، جو چیز پسند آئے تو اُس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دینا، ناپسندیدگی کی صورت میں یوں بیان کرنا کہ جیسے اِس سے بری چیز روئے زمین پر کوئی دوسری نہیں، مار دو، کاٹ دو،نہیں چھوڑوں گا، لٹکا دوں گا ، یہ ہمارا مجموعی کلچر ہے۔ اعتدال کا تو کوئی راستہ ہی نہیں رہا۔ شاید ایسا کرنے سے ہی روزی روٹی چلتی اور عہدے برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کا یہی المیہ ہے؛ تاہم ہمیں دوسروں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے غرض ہونی چاہیے کہ ہم کیا کررہے ہیں۔
جلسوں سے ہٹ کر بھی دیکھ لیا جائے کہ کیا ہورہا ہے۔ حکومت کی طرف سے مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن دراصل حصولِ این آراو کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے۔ لاہور کے جلسے کے بعد بھی وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اپوزیشن جو چاہے کرلے اُسے این آر او نہیں ملے گا۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ اپوزیشن وقت اور سرمایہ ضائع کررہی ہے لیکن میرا پیغام بالکل واضح اور دوٹو ک ہے کہ اِنہیں اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی۔ دوسری طرف اپوزیشن بڑھکیں لگا رہی ہے کہ حکومتی ذمہ داران معاملات حل کرنے کے لیے اُنہیں فون کررہے ہیں لیکن اب ڈائیلاگ کا وقت گزر چکا ہے۔ اُن کی طرف سے بار بار یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو بھی این آر او مانگ رہا ہے، اُس کا نام سامنے لایا جائے۔ اِس پر ایک ٹی وی شو کے دوران مسلم لیگ نون کے مفتاح اسماعیل کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار دیکھنے کو ملا۔پروگرام میں شریک پی ٹی آئی کے فیصل جاوید نے الزام لگایا کہ مفتاح اسماعیل نے اپنے بھائی کے ذریعے بذریعہ نعیم الحق (مرحوم)حصولِ این آر او کا پیغام بھجوایا تھا۔ الزام لگائے جانے کی دیر تھی کہ مفتاح اسماعیل شدید غصے میں آگئے اور شدید برہمی کے عالم میں فیصل جاوید کو کافی سخت الفاظ سنائے گئے۔ اُن میں سے سب سے نرم الفاظ یہ تھے: شرم کرو ایک ایسے شخص کا نام لے رہے ہو جو اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔وہ تو میزبان کی بروقت مداخلت سے معاملہ زیادہ بگڑنے سے بچ گیا ورنہ شاید نوبت ہاتھا پائی تک آ جاتی۔ یہ صورت حال کوئی پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوئی کہ اب فریقین اکثر ایک دوسرے پر پل پڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ کیا اِس کی وجہ یہی قرار نہیں دی جاسکتی کہ ہم اعتدال کا راستہ کھو چکے ہیں۔ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ جو کل تک برسراقتدار تھے‘ وہ اب مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ جو کل اپوزیشن میں تھے وہ آج اقتدار کے مزے اُڑا رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اِسے عالم میں سوائے تغیر کے‘ کسی کو ثبات نہیں۔ گویا کل کلاں کو میز ایک مرتبہ پھر گھوم سکتی ہے تو پھر کیونکر ہم مخالفت کی تمام حدیں عبور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اب تو سوچ یہ ہوچکی کہ
گلیاں ہو جاون سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے
اِسی سوچ میں غلطاں احباب نے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی اختیار کی تھی مگر شاید اپوزیشن کا یہ ردعمل غیرمتوقع نہیں تھا۔ اڑھائی سالوں کے دوران اپوزیشن نے مختلف معاملات میں اپنی بساط سے بڑھ کر حکومت کی معاونت کی لیکن اپنے لیے کوئی راہ نہ پا سکی۔ نتیجتاً پی ڈی ایم وجود میں آئی اور درجن بھر کے قریب جماعتیں خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئیں۔ آخری جلسے میں واضح اعلان ہوا ہے کہ اب حکومت سے ڈائیلاگ نہیں ہو گا۔ جلسے سے خطاب کرنے والوں کے لہجوں میں بھی پہلے سے زیادہ سختی تھی۔ کسی نے حکومت کو سلیکٹڈ قرار دیتے ہوئے اِسے گھر بھجوائے بغیر چین سے نہ بیٹھنے کا اعلان کیا تو کسی نے وزارتِ عظمیٰ لینے کی نہیں بلکہ چھیننے کی پکار بلند کی۔ جنوری یا فروری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا عندیہ بھی دیا گیا۔ اللہ نہ کرے کہ ایک مرتبہ پھر 2014ء جیسے مناظر دیکھنے میں آئیں اور وہ تماشا لگ جائے جس نے 126دنوں تک جگ ہنسائی کا سامان فراہم کیا۔ اللہ نہ کرے کہ ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے کہ ایک مرتبہ پھر وہ کچھ ہوجائے جو کچھ اِن حالا ت میں ہوتا رہا ہے۔ ایسا ہوا تو حکومت کو گرانے والے بچیں گے نہ اپوزیشن کو کھڈے لائن لگانے والے اپنے لیے کوئی راستہ پائیں گے۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو ایک مرتبہ پھر وعدوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اورچاہے نام کی سہی، جمہوریت نامی چڑیا پھر کہیں منہ چھپا کر بیٹھ جائے گی۔ اللہ نہ کرے کہ ایک مرتبہ پھر کوئی ایسی نوبت آئے کہ دنیا ہم پر ہنسے کہ لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں