"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی تو حد ہونی چاہیے

مجھے اپنی 24، 25سالہ صحافتی زندگی میں‘ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے کھلم کھلا یہ اعتراف کیا ہو کہ وہ رشوت لیتا ہے یا لیتا رہاہے یا اُس نے فلاں موقع پر کسی کا حق مارا تھا یا یہ کہ وہ اپنے فرائض سے قصداً غفلت برتتا ہے۔ جس کسی کے پاس بھی بیٹھ جائیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ آج تک تو ہم اندھیرے میں ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے‘ زندگی کا اصل سبق تو یہاں سے حاصل ہو گا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک‘ جس کسی کو دیکھیں‘ ایک ہی رویہ، ایک جیسی باتیں، ایک جیسا طرزِ عمل کہ کہیں کسی بھی سطح پر رتی برابر فرق محسوس نہیں ہوتا۔ تمام عمر رشوت لو‘ لوگوں کا حق مارو‘ جھوٹ بول بول کر دوسروں کو بیوقوف بناؤ اور جب اچھا خاصا مال اکٹھا کر لو تو پھر سچائی کے راستے پر چل نکلو۔ بات بہت دور تک چلی جاتی ہے ورنہ جی تو چاہ رہا ہے کہ کچھ کرداروں کا نام لے کر ذکر کیا جائے کہ جب وہ عہدوں پر براجمان تھے تو کیا کرتے رہے‘ کیسے لوگوں کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں، انہیں ناجائز تنگ کرتے تھے اورآج وہ کیا کررہے ہیں۔ اختیار اور اقتدار ہوتے ہوئے کس کس طرح اُنہوں نے لوگوں کے حقوق سلب کیے اور آج اُن کا طرزِ عمل کیا ہے۔ 
یہ سب کچھ اُس ملک میں ہو رہا ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور آج اُسے ریاست مدینہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ صرف ایک سیاسی نعرہ ہے لیکن پوری کی پوری حکومتی مشینری دن رات وزیراعظم کے اِس بیانیے کو عام کرنے میں جتی ہوئی ہے۔ ریاست مدینہ بنانے کی باتیں وہ کر رہے ہیں جنہوں نے پوری تحریک کے دوران بلند بانگ غیر حقیقی دعووں اور دروغ سے کام لیا اور آج جب کچھ ڈیلیور کرنے کا موقع ملا ہے تو ہاتھ پاؤں پھولے پڑے ہیں۔ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کی باتیں وہ کررہے ہیں جن کے دور میں بے شمار لوگوں کی چھوٹی چھوٹی کائناتوں کو مسمار کر د دیا گیا، مگر اپنی عالی شان رہائش گاہ کے لیے فوری طور پر قوانین بنا کر اسے ریگولرائز کر لیا گیا۔ اگر یہی معیار ٹھہرا تو پھر جن کو بے گھر اور بے روزگار کیا گیا‘ اُن کو بھی یہ راہ اپنانے کا موقع دیا جاتا۔ ہماری ساری سیاسی اشرافیہ اپنے کام نکلوانے کے چکر میں پڑی ہوئی ہے‘ کیا پرانے‘ کیا نئے‘ وہی ڈگر ہے اور وہی روش۔ اب جو تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئے ہیں‘ 22سالوں تک جو خوشنما خواب عوام کو دکھاتے رہے‘ اُن میں سے ایک خواب کی تعبیر بھی سامنے نہیں لا سکے۔ آٹے، چینی اور اب پٹرولیم بحران پر رپورٹس سامنے آچکی ہیں،کسی ذمہ دار کو کٹہرے میں لایا گیا ہے؟یہ اُن صاحبانِ اختیار کا طرزِ عمل ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے ہمیشہ حضرت عمر فاروق ؓکا یہ قول دہرایا کرتے تھے کہ اگر دریائے فرأت کے کنارے کتا بھی پیاسا مر جائے تواِس کا جواب وقت کے حکمران کو دینا ہوگا۔ یہ وہ ہیں جو دعوے کیا کرتے تھے کہ کسی کرپٹ آدمی کو اپنی کابینہ کا حصہ نہیں بنائیں گے لیکن آج دیکھ لیجئے کہ آدھی سے زیادہ کابینہ اُن شخصیات پر مشتمل ہے جو ماضی میں‘ آج ہی کے حکمرانوں کے بقول‘ لوٹ مار میں حصہ دار رہ چکے ہیں۔ انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئی ہیں کہ آٹے، چینی اور پٹرولیم بحران کے کسی ایک ذمہ دار کو قانون کی عدالت میں کھڑا کردیا جائے تاکہ انصاف کے کچھ تقاضے تو پورے ہوتے دکھائی دیتے، تبدیلی کی کوئی رمق تو نظر آتی۔
سماجی انصاف، معاشی انصاف، معاشرتی انصاف کی گردان سنتے سنتے کان پک چکے ہیں لیکن مجال ہے جو عملاً رتی بھر بھی بہتری آئی ہو۔ ابھی حال ہی میں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس نے چودہ طبق روشن کردیے ہیں۔ انصاف‘ جوکسی بھی معاشرے کی بقا کے لیے سب سے اہم گردانا جاتا ہے اور جس کے بارے یہ قول مشہور ہے کہ حکومتیں کفر پر تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن ناانصافی اور ظلم پر نہیں‘ اس کے حوالے سے یہ رپورٹ ہمارے لیے چشم کشا ہونی چاہیے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ جیسے ادارے‘ جسے دنیا بھر میں قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پوری دنیا میں اِس ادارے کی آواز کو سنا جاتا اور اس کی رپورٹس کی روشنی میں پالیسی سازی کی جاتی ہے‘ نے رول آف لا انڈیکس برائے 2020ء کی تیاری کے لیے128ممالک کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ اِس پروجیکٹ کی 2020ء کے حوالے سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے، اُس کو ایک بار پڑھ لیجئے اور اندازہ کر لیں کہ ہم سماجی سطح پر انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کی طرف کتنی تیزی سے پیش قدمی کررہے ہیں۔ تکنیکی باتیں تو بہت سی ہیں لیکن مختصراً اتنا جان لیجئے کہ ہمارا ملک اِس فہرست میں 120ویں نمبر پر براجمان ہے۔ گویا کہ 128ممالک میں سے صرف 8ممالک ایسے ہیں جہاں انصاف کی صورتحال ہمارے ملک سے بھی بدتر ہے۔ قانونی بدحالی کا یہ عالم ہے کہ کئی دہائیوں سے جنگ و جدل کا شکار ملک افغانستان ہم سے دو ہی درجے پیچھے ہے۔ گھانا اور ہنڈراس جیسے ممالک بھی اپنے شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں ہم سے آگے ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران‘ جہاں اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے‘ وہ بھی کم از کم انصاف کی فراہمی میں ہم سے آگے ہے۔ نائیجریا اور ایتھوپیا جیسے انتہائی غیرترقی یافتہ ممالک بھی ہم سے آگے ہیں۔ اب اس پر مزید کیا کہا جا سکتا ہے؟بعض افراد ایسی رپورٹس پر تنقید کر کے سب اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان رپورٹس سے ہٹ کر آپ معاشرے میں ہی دیکھ لیجئے کہ آئے روز ماتحت عدلیہ میں کیا ہو رہا ہے، اکثر ججز ایسے ماحول میں کام کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون جج کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کے مندرجات پڑھ لیں، بہت سے باتیں واضح ہو جائیں گی۔ اب یہ تو غیروں کی سازشوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی چہرہ ہے۔ جان لیجئے کہ یہ سب کچھ ہمارے جھوٹ بولنے، گند کو قالین کے نیچے چھپانے اور دہرے معیار کا نتیجہ ہے۔ 
ہرروز نت نئی مثالیں رقم ہورہی ہیں۔ اِس میں زندگی کے کسی شعبے کو معافی نہیں ہے‘ بس چورن بکنا چاہیے اور مفادات حاصل ہونا چاہئیں، چاہے اِس کے لیے کسی بھی اخلاقی قدر کو پامال کیوں نہ کرنا پڑے۔ سچی بات ہے کہ بہت سے معاملات پر بات کرنے سے پَر جلتے ہیں ورنہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اپوزیشن کی بات کرلیں تو ان کے معاملات کون سے حوصلہ افزا ہیں۔ محلات میں رہنے والے، لندن کی فضاؤں میں اُڑانیں بھرنے والے‘ بیرونی ملکوں سے اپنا علاج کرانے والے، دنیا کے امیر ترین حکمرانوں میں شمار ہونے والے پاکستان کے غربا کے غم میں دُبلے ہوئے جاتے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں کا رہن سہن، اِن کی جائیدادیں دیکھیں اور اِن کی باتیں سنیں۔ پی ڈی ایم کے ایک کرتا دھرتا کو ایک ٹی وی پروگرام میں سنا تو صاف معلوم پڑ رہا تھا کہ ان کی جائیدادوں اور بیک بیلنس کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالات کا اُن کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم جیسے کیا کریں‘ کس چوکھٹ سے جا کر سر ٹکرائیں اور کسے اپنا مسیحا بنائیں۔ وہ لوگ کہاں سے لے آئیں جن کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو،،جو ویسا ہی کریں جیسا وعدہ کریں۔ اگر یہ معلوم نہیں کہ یہ کیونکر ہوگیا کہ ایک مسلم معاشرے میں بھی جھوٹ اور دو رخی کا ایسا دور دورہ کہ جس کی کوئی حد نہیں تو جان لیجیے کہ یہ معاشرے کا مجموعی چہرہ ہے‘ جب تک عوام ٹھیک نہیں ہوں گے‘ اپنے قول و فعل کے تضاد کو ختم نہیں کریں گے تب تک اچھے حکمرانوں کی امید بھی عبث ہے۔ نجانے پھر بھی ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے اتنا بڑھ بڑھ کر باتیں کیوں کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں